پیغامِ پاکستان۔۔آغر ؔندیم سحر

 پیغامِ پاکستان۔۔آغر ؔندیم سحر/   گزشتہ ماہ اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ‘‘پیغامِ پاکستان’’کے نام سے ایک کتاب شائع کی’اس دستاویز میں قرآن و سنت اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی روشنی میں ریاست پاکستان کی اجتماعی سوچ کی عکاسی کی گئی ہے۔اس کتاب میں ان ایشوز اور مسائل کو موضوع بنایا گیا ،جو ریاستِ پاکستان کو درپیش ہیں اور ان ایشوز کے تجزیے کے ساتھ ساتھ  ریاست کو ان مسائل سے نکلنے کا حل بھی تجویز کیا گیا ہے، تاکہ ہم قراردادِ پاکستان کے مقاصد میں دیے گئے اہداف کوآسانی سے حاصل کر سکیں۔اس کتاب کی سب سے نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس میں مذہبی و لسانی دہشت گردی سے لے کر سماجی تفریق اور تہذیبی انتشار کو بھی موضوع بنایا گیا۔ملکِ پاکستان کا سب سے بنیادی مسئلہ اگرچہ اتحاد و یکجہتی اور عدل و انصاف رہا ہے مگر اس بات سے بھی انکار میں نہیں کہ تہذیبی و ثقافتی جنگ نے بھی اس ملک کی جڑوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔مذہبی تعصب ہو یا مسلکی انتہا پسندی’ہم کہیں نہ کہیں اس تعصب اور متشدد رویوں کا شکار ہے۔ہمارے اندر سے جہاں قوتِ برداشت ختم ہو چکی وہاں ہم ایک دوسرے سے لسانی بنیادوں پر بھی نفرت کرنے لگے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ متفقہ دستاویز مملکت خداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی تہذیب و تمدن کی برداشت،روحانیت،عدل و انصاف،برابری،حقوق و فرائض میں توازن جیسی خوبیوں سے مزین معاشرے کی تشکیلِ جدید میں ممدومعاون ہوسکتی ہے۔

میں لیفٹننٹ کرنل(ر)حسن خاور محمود کا ممنون ہوں کہ یہ تاریخی اور اہم ترین دستاویز مجھ تک پہنچائی تاکہ میں کالم کے ذریعے آپ سب تک ریاست کا حقیقی پیغام پہنچا سکوں۔یہ دستاویز پڑھتے ہوئے اس لیے بھی حوصلہ افزائی ہوئی کہ اس کی ترتیب و اہتمام میں پاکستان کے پانچ بنیادی مدارس بورڈز نے بنیادی کردار ادا کیا۔ہمارے ہاں عمومی طور پر یہ تاثر دیا گیا کہ مسلکی و مذہبی انتہا پسندی اور انتشار کے فرو غ میں سب سے زیادہ مدارس نے کردار ادا کیا جبکہ یہ دستاویز بتاتی ہے کہ ان مدارس کی تعداد بہت کم ہے جنھوں نے مذہبی تعصب کو فروغ دیا’وفاق المدارس عربیہ’تنظیم المدارس اہلسنت’وفاق المدارس السلفیہ’وفاق المدارس الشیعیہ اور رابطہ المدارس پاکستان نے مل کر اس دستاویز کو مکمل کیا۔‘‘پیغامِ پاکستان’’پاکستان کی تمام اکائیوں کے درمیان کے ایک عمرانی معاہدہ ہے جو کو تمام مکاتیبِ فکر کے علماء و مشائخ کی حمایت حاصل ہے’اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حمایت کیا محض کتابی یا تحریری ہے یا ان کے مدارس میں بھی اس دستاویز میں شامل موضوعات کو زیرِ بھچ لایا جاتا ہے۔اگر تو مدارس مذہبی و لسانی تعصب اور متشدد رجحانات پر بات کرنے لگ گئے ہیں تو یہ خوشی کی بات ہے کیوں کہ ریاستِ مدینہ کا حقیقی چہرہ اسی صورت سامنے آ سکتا ہے جب مدارس اور جامعات میں ان انتشار پسند عناصر کا قلع قمع کیا جا ئے جو ریاستِ پاکستان کو فی الوقت درپیش ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے دستور کے تقاضوں کے مطابق پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں ہو چاہیے اور نہ ہی اس دستور کی موجودگی میں کسی فرد یا گروہ کو ریاستِ پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف کسی قسم کی مسلح جدوجہد کا کوئی حق حاصل ہے۔

یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ تنظیمیں یا متشدد گروہ جو نفاذِ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال’ریاست کے خلاف محاذ آرائی نیز لسانی’علاقائی’مسلکی و مذہبی اختلافات اور قومیت کے نام پر تخریب و فساد اور دہشت گردی کی کسی صورت کو بھی ہوا دیتے ہیں’ان کا قلع قمع انتہائی ضروری ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کسی بھی ایک مکتبہ فکر کا ملک نہیں اور نہ ہی یہاں کسی ایک فرقے کو پنپنے دیا جائے گا بلکہ یہاں مسلم اکثریت کے ساتھ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ بھی یقینی بنانا ہوگا۔پاکستان کے دستور کے مطابق بغاوت اور طاقت کے زور پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت کے احکامات کی مخالفت اور فساد فی الاوض ایک جمہوری اور قومی جرم ہے اور اس جرم کو فروغ دینے والوں کے خلاف ریاست کھلی جنگ کا اعلان کر چکی’یہ ایک خوشی کی بات ہے،کیوں کہ دستورِپاکستان کے تقاضوں کے مطابق پاکستانی معاشرے کی ایسی تشکیلِ جدید ضروری ہے جس کے ذریعے معاشرت سے منافرت،تنگ نظری،عدم برداشت اور بہتان تراشی جیسے بڑھتے ہوئے رجحانات کا خاتمہ کیا جا سکے اور اس نتیجے میں ایسا معاشرہ قائم ہو جس میں برداشت اور رواداری،باہمی احترام اور عدل و انصاف پر مبنی حقوق و فرائض کا نظام قائم ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس دستاویز میں ان دہشت گردی اور خود کش حملوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جن سے ہمارے دشمن فائدہ اٹھا رہے ہیں،ان حملوں کے بعد کبھی مدارس کو تنقید  کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی سماجی انتہا پسندی کو،حالانکہ دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے زیادہ تر ملک دشمن عناصر ہوتے ہیں جو مختلف مکاتبِ فکر کا نام استعمال کر کے ملک میں جنگ و جدل کو فروغ دیتے ہیں۔اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں دستورِ پاکستان کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کا حقیقی اور مثبت چہرہ پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔اس دستاویزی کتاب کے ذریعے ہم پوری دنیا میں موجود پاکستان مخالف قوتوں کو پیغام دے سکتے ہیں کہ قرآن و سنت اور دستورِ-08 پاکستان کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کو کیسا ہونا چاہیے اور افسوس کہ اس کی حقیقی تصویر کو کیسے مذموم مقاصد کے لیے انتہائی منفی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ‘‘پیغامِ پاکستان’’دینا اشد ضروری ہو گیا تھا ورنہ ریاستِ پاکستان کو بدنام کرنے والی ملک دشمن قوتیں اس کا چہرہ مزید بگاڑ دیتیں۔خوشی ہے کہ اس کتاب میں تمام مسالک اوت مکاتیب فکر کے علماء نے شرعی دلائل کی روشنی میں مذہبی و مسلکی انتہا پسندی’خود کش حملوں کو نہ صرف حرام قرار دیا بلکہ ایسے گناہ گاروں کے خلاف سخت سے سخت سزا کا بھی مطالبہ کیا ہے۔جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ دہشت گردی کے معاملے میں سب سے زیادہ مدارس اور جامعات کو بدنام کیا جا رہا ہے اور ریاست کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ’ایسے میں اس طرح کا مواد شائع کرنا ناگزیر ہو گیا تھا۔میں ریاست کا ممنون ہوں کہ انھوں نے پاکستانیوں کے دلوں میں موجود خدشات کو دور کیا اور پاکستان کا حقیقی چہرہ پیش کیا۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply