اخلاقی نفسیات (15) ۔ سماجی اثر/وہاراامباکر

کیا آپ نے کبھی سیاست یا مذہب یا نظریات یا کسی بھی دوسرے اخلاقی موضوع پر کسی دوسرے سے بحث کی ہے؟ اگر ہاں، تو آپ جانتے ہوں گے کہ دوسرے کا رویہ کس قدر مایوس کن اور ڈھٹائی والا تھا۔ اور یہ تمام بحث مایوس کن اور لاحاصل کیوں رہتی ہے؟ آخر ایسا کیوں ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

کیا یہ سب واقعی لاحاصل ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم ایسے معاملات پر بھی اپنا ذہن تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی جامد نہیں۔ سوال یہ کہ یہ ہوتا کیسے ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اپنی پہلی رائے بہت جلد قائم کرتے ہیں اور ایسا بغیر شواہد کے ہی کرتے ہیں۔ دوسروں سے گفتگو کرنا ہمیں چیلنج کرتا ہے۔ وجوہات ڈھونڈنے پر مجبور کرتا ہے۔ کئی بار نئے خیالات ایسے ہی آتے ہیں اور یہ ممکن کرتا ہے کہ ہم اپنی رائے بدل لیں۔ اگرچہ ایسا ہم خود بھی کر لیتے ہیں جب کسی چیز کو نئے زاویے سے سوچیں لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔
ذہن بنانے کا زیادہ عام طریقہ سماجی اثر ہے۔ دوسروں کی پسند اور ناپسند کا علم ہونا ہم پر مسلسل اثر کرتا ہے۔ اگرچہ ہم میں سے اکثر یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا اندرونی اخلاقی قطب نما ہماری راہنمائی کرتا ہے لیکن سماجی نفسیات کی تاریخ واضح طور پر دکھاتی ہے کہ دوسروں کا اثر ہم پر بہت طاقت رکھتا ہے۔
یہاں تک کہ انتہا کا ظلم بھی قابلِ قبول بن سکتا ہے۔
اور افراد کے اس تبادلہ خیال سے اخلاقیات کی سماجی intuition بنتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سماجی وجدان کا یہ ماڈل ہمیں اس بات کی وضاحت دیتا ہے کہ سیاسی اور اخلاقی بحث اس قدر مایوس کن اور لاحاصل کیوں ہوتی ہے۔
اگر آپ کسی کا ذہن بدلنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ کار محض مضبوط منطق نہیں۔ ڈیل کارنیگی اپنی کلاسیکی کتاب “دوست کیسے بنائے جائیں اور لوگوں پر اثرانداز کیسے ہوا جائے” میں اس بات کو بار بار دہراتے ہیں کہ براہِ راست تصادم سے باز رہا جائے۔ دوستانہ انداز میں بات کی ابتدا کی جائے۔ مسکرایا جائے۔ دوسرے کی بات سنی جائے۔ عزت، گرم جوشی اور کشادہ دلی سے دوسرے کا نقطہ نظر سمجھا جائے اور پھر اپنا موقف پیش کیا جائے۔
آپ شاید یہ سوچیں کہ کارنیگی کی تکنیک سطحی ہے اور کسی سیلزمین کے لئے ہی ہو سکتی ہے۔ لیکن کارنیگی تنازعات کے بارے میں گہرا سچ سمجھتے تھے۔ جیسا کہ ہنری فورڈ نے کہا تھا۔
“کامیابی کا راز یہ ہے کہ آپ دوسرے کے نقطہ نظر کو پہچان سکیں اور کسی چیز کو اپنے ساتھ ساتھ اس کے زاویے سے بھی دیکھ سکیں”۔
یہ بڑا واضح نکتہ ہے لیکن بہت کم لوگ اسے سیاسی یا اخلاقی بحث میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ ہمارا راست باز ذہن جھٹ سے لڑنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ ہم فوری طور پر دوسری کی طرف زبانی بمباری کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ اور ہماری پرفارمنس اگر دوستوں کو متاثر کرے تو یہ ہمیں اپنے گروہ میں عزت اور رتبہ دیتی ہے۔
منطق جتنی بھی مضبوط ہو، یہ اس صورت میں کسی دوسرے کا ذہن نہیں بدلے گی اگر وہ بھی لڑنے کے لئے تیار ہے۔ اگر آپ واقعی میں سیاسی یا اخلاقی بحث میں کسی کا ذہن بدلنا چاہتے ہیں تو اپنے ساتھ ساتھ بڑے گہرے طریقے سے اس کے نقطہ نظر کو کشادہ دلی سے دیکھنے کے لئے تیار ہونا ضروری ہے۔ اور ایسا بھی ممکن ہے کہ اس طریقے سے آپ اپنے موقف میں بھی لچک لے آئیں۔
یاد رہے کہ سیاسی اور اخلاقی گروہ بندی کی تقسیم کے ماحول میں ایسا کرنا بڑا مشکل کام ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply