کیا مہذب قومیں اپنے معماروں کو یوں رُسوا کرتی ہیں؟

اُس کے والد گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے پروفیسر ریٹائر ہوئے۔ ساری زندگی انہوں نے لوگوں میں علم اور آگہی کی روشنی پھیلائی۔ اپنےطالبعلموں میں خود آگاہی و خود شناسی کے بیج بوئے۔ اُس کی والدہ آج بھی اپنے سکول کے ذریعے قوم کے بچوں کی علم کے نور سے آبیاری کرنے میں مگن اور مصروف ہیں۔
قوم کے دوسرے بچوں کی طرح اُنہوں نے اپنے بچوں میں بھی خوداری، خود شناسی، انسان دوستی اور جذبہِ حریت کی آبیاری کی۔ اُنہوں نے اپنے بیٹے کو دوسروں کے درد میں اُن کا ہمدرد اور غمگسار بن کے جینے کا سلیقہ سِکھایا۔ اُنہوں نے اپنے بیٹے کو مظلوم اور مجبور کے ساتھ کھڑا ہونے کا سبق سِکھایا۔ کیا یہی بنیادی انسانی قدریں نہیں؟ کیا یہ بنیادی دینی قدریں نہیں؟
کیا دین یہ حکم نہیں دیتا کہ جابر کے مقابلے میں مجبور کا ساتھ دو؟ کیا دین خود کو اور دوسرے محکوم و مجبور طبقوں کو ظالمانہ اور جابرانہ نظام کی قید سے آزاد ہونے اور کروانے کی جدوجہد کرنے کا حکم نہیں دیتا؟ کیا دین دکھی دلوں کا مرہم ساز اور غم خوار بننے کی تلقین نہیں کرتا؟ قران کہتا ہے کہ نظامِ عدل قائم کرو۔ تو نظامِ عدل کے قیام کی جدوجہد کیا قرآن کی پیروی نہیں؟ کیا یہ تمام اقدار سیرتِ نبوی کے خلاف ہیں؟
یہی وہ بنیادی دینی و انسانی اقدار ہیں جو سلمان حیدر کو اپنے والدین سے ورثے میں ملیں۔ اور انہی اقدار کا وہ پرچارک بھی تھا اور اِن پر عمل پیرا بھی تھا۔ تو کیا سلمان اپنی عملی زندگی میں اِس لحاظ سے دینی و بنیادی انسانی اقدار اور سیرتِ نبوی ﷺ پر عمل پیرا نہیں تھا؟
اِس کے برعکس کیا یہ دینی اقدار ہیں کہ کسی پر بِنا ثبوت جھوٹے الزام لگائے جائیں؟ کیا یہ بھی دینی قدر ہے کہ کسی جھوٹی خبر پر بِنا تحقیق یقین کر لیا جائے؟ اور جھوٹ کو بغیر تحقیق کے آگے لوگوں تک پھیلانا بھی دینی قدر ہے کیا؟ نبیِ آخرالزماں ﷺ نے تو یہ فرمایا تھا کہ جھوٹے شخص کی یہی نشانی ہے کہ بغیر تحقیق کے بات کو آگے پھیلاتا ہے۔
حرمتِ دین اور حرمتِ رسولﷺ کے نام لیواؤں کو سوچنا چاہیے کہ اپنے عمل سے دین اور حرمتِ رسول کو وہ پامال و رسوا کر رہے ہیں یا سلمان حیدر نے کیا؟ اپنے عمل سے دین کا مذاق وہ اُڑا رہے ہیں یا کوئی اور؟
جو دین انسانی ہمدردی اور غمگساری کا درس دیتا ہے اُس کے نام لیواؤں نے کبھی یہ بھی سوچا یا محسوس کیا کہ بڑھاپے کی دہلیز کو پہنچے ہوئے والدین کا اپنے جوان بیٹے کی واپسی کی راہ تکتی دروازے پر جمی نگاہوں کا کرب کیسا ہوتا ہے؟ کیا کوئی اُس ۵ سالہ بچے کی محرومی کا کرب محسوس کر سکتا ہے جو روز رات میں اپنے باپ کے گھر آنے کا بے چینی سے انتظار کیا کرتا تھا کہ باپ کو اپنے سارے دن کی کارگزاری سنا سکے؟ کیا اُس حوا کی بیٹی کی تکلیف کوئی محسوس کرے گا جس کے سر سے چھت چھِین کر اُسے بے یار و مددگار زمانے کے رحم و کرم پے چھوڑ دیا گیا ہو؟ کیا دینی اقدار اتنی بے حس اور بے رحم ہو سکتی ہیں؟
اُس کے والدین بھی قوم کے معمار ہیں اور وہ خود بھی قوم کے اِنہی معماروں کے قبیلے سے ہے۔ کیا تہذیب یافتہ قومیں اپنے معماروں کو یوں رُسوا کرتی ہیں؟
اگر کوئی ثبوت ہے تو اُسے عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے۔ اِس ملک میں قوانین موجود ہیں لہٰذا فیصلے کا اختیار عدالتوں پر چھوڑنا چاہیے۔ اگر ہر شخص خود عدالت لگا کے بیٹھ جائے تو ایسے معاشروں سے امن اور خیر اُٹھ جاتے ہیں اور شر و فساد دندناتے پھرتے ہیں۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ ایسے تمام عناصر کی سرکوبی کریں جو اپنی ذاتی عدالتوں کی دکان کھولے بیٹھے ہیں۔ تاکہ ملک میں انتشار اور بدامنی کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔

Facebook Comments

عمران بخاری!
لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply