سفید کاسہ لہو سے لبریز ہو چکا ہے
لہو کے دریا میں تیرتی ہے
سفید ٹوپی
کسی نمازی کے سَر سے گِر کے!
یہ اُس عبادت گزار بندے کی
التجا ہے
جوحق کا نعرہ بلند کرکے
گرا
زمیں پر
خدا کے گھر میں!
خدا کے گھر میں
لہو کا دریا بہانے والے
خدا کی مرضی کی آڑ لے کر نکل گئے ہیں
جو بچ گئے ہیں
یہی کہیں گے
خدا کے کاموں میں دخل کس کو؟
’’حواس گم کر چکی ہے بڑھیا
جوان بیٹے کے
ٹکڑے ٹکڑے بدن پہ روتی ہوئی
زبیدہ کہاں سمجھتی
خدا کی مرضی سے چل رہا ہے نظام سارا!
فضول ہے اس کو یہ بتانا کہ رب کی حکمت کو
جان لیناکسی بشر کو روا نہیں ہے
کہ بندہ گندا،خدا نہیں ہے
کوئی مقدر سے بچ نکلتا
تو کیسے مولاؑ شہید ہوتے!‘‘
زبیدہ چلّاکےاُن پہ جھپٹی
بلک بلک کر وہ چیختی تھی
حرامزادو!
میں سب سمجھتی ہوں
میرے بیٹے کو کس نے مارا ہے
تم خدا پر لگاؤ تہمت
کہ چپ رہوں میں
یزید ظالم کو مت بچاؤ
خدا کے پردے میں مت چھپاؤ!
وہ چیختی تھی
وہ اپنی چھاتی کو پیٹتی تھی!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں