سانحہ پشاور۔۔علی محمد فرشی

سفید کاسہ لہو سے لبریز ہو چکا ہے
لہو کے دریا میں تیرتی ہے
سفید ٹوپی
کسی نمازی کے سَر سے گِر کے!

یہ اُس عبادت گزار بندے کی
التجا ہے
جوحق کا نعرہ بلند کرکے
گرا
زمیں پر
خدا کے گھر میں!

خدا کے گھر میں
لہو کا دریا بہانے والے
خدا کی مرضی کی آڑ لے  کر نکل گئے ہیں
جو بچ گئے ہیں
یہی کہیں گے
خدا کے کاموں میں دخل کس کو؟

’’حواس گم کر چکی ہے بڑھیا
جوان بیٹے کے
ٹکڑے ٹکڑے بدن پہ روتی ہوئی
زبیدہ کہاں سمجھتی
خدا کی مرضی سے چل رہا ہے نظام سارا!
فضول ہے اس کو یہ بتانا کہ رب کی حکمت کو
جان لیناکسی بشر کو روا نہیں ہے
کہ بندہ گندا،خدا نہیں ہے
کوئی مقدر سے بچ نکلتا
تو کیسے مولاؑ شہید ہوتے!‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

زبیدہ چلّاکےاُن پہ جھپٹی
بلک بلک کر وہ چیختی تھی
حرامزادو!
میں سب سمجھتی ہوں
میرے بیٹے کو کس نے مارا ہے
تم خدا پر لگاؤ تہمت
کہ چپ رہوں میں
یزید ظالم کو مت بچاؤ
خدا کے پردے میں مت چھپاؤ!
وہ چیختی تھی
وہ اپنی چھاتی کو پیٹتی تھی!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply