• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا یوکرین یورپ کا افغانستان بننے جا رہا ہے؟۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

کیا یوکرین یورپ کا افغانستان بننے جا رہا ہے؟۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

دنیا کے تمام تنازعات جیسے تھرڈ کلاس انسانوں کے مسائل تھے، اس لیے کبھی مغربی میڈیا اور مغربی عوام کی یہ توجہ حاصل نہیں کر پائے، جو یوکرین کے تنازع کو دی جا رہی ہے۔ ایک بات بہت واضح ہے کہ ہم نہ جنگ پسند ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے ملک پر جنگ مسلط کرنے کو درست اقدام سمجھتے ہیں۔ مشرق ہو یا مغرب، کالے ہوں یا گورے، کم تعداد میں ہوں یا اربوں کی آبادی ہو، ہم جنگ کو سب کے لیے برا خیال کرتے ہیں۔ ہمارا قلم دنیا بھر میں ہر مظلوم کے حق میں امام علیؑ کی اس وصیت پر عمل کرتے ہوئے چلتا ہے، جس میں حضرت نے ارشاد فرمایا تھا کہ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مدد گار بن کر رہنا۔ بطور انسان یہ سوال کرنا ہمارا حق بھی ہے اور فرض بھی کہ انسانی حقوق کی پوری گردان ایک سانس میں دہرانے والو، کیا مشرق میں بسنے والے فلسطینی و کشمیری اور افریقہ میں بسنے والے افریقی نسل لوگ اس قابل نہیں کہ ان کی جان کو بھی اہمیت دی جائے؟ کیا اقوام متحدہ نے کبھی ایسی ہی پھرتیاں ان ممالک کی مظلوم عوام کے لیے بھی دکھائی ہیں۔؟

یہ انصاف کا خون اور عدالت کا قتل عام ہے کہ امریکہ اور نیٹو فورسز افغانستان، عراق، شام اور لیبیا میں لاکھوں انسانوں کا خون کریں اور اس پر سوال نہ اٹھایا جائے۔ یہ دہرے معیار، غیر انسانی رویئے تشکیل دیتے ہیں اور انسانیت عدم استحکام کا شکار ہو جاتی ہے۔ آپ اقوام متحدہ کو روندتے ہوئے آزاد اقوام پر چڑھ دوڑیں اور عوام کا خون بہائیں تو اب آپ کس طرح روس پر انگلی اٹھا سکتے ہیں؟ کیا آپ نے آج تک اسرائیل کے کسی اقدام کی مذمت کی؟ بلکہ جب بھی دنیا کی آزاد اقوام نے مذمت کرنے کی کوشش کی، آپ نے ان تمام قراردادوں کو ویٹو کر دیا۔ اب آپ کو ویٹو پاور سے جو تکلیف ہو رہی ہے، دنیا کے تمام آزادی منش اقوام کو آپ کے غیر ضروری اور مظلوم کو حق دلانے سے روکتی اس طاقت کے استعمال پر ایسی ہی تکلیف ہوتی ہے۔

اس پورے قضیے میں سب سے مظلوم یوکرین کے عوام ہیں۔ امریکہ اور یورپ نے انہیں بری طرح سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور جس طرح سے میڈیا وار کو استعمال میں لاتے ہوئے مسلسل سویلین کو جنگ پر ابھارا جا رہا ہے، یہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ اگر دنیا کا کوئی اور ملک یا میڈیا ایسا کرتا تو ان پر دنیا میں تشدد پسندی کا الزام عائد کر دیا جاتا اور کیا پتہ انتہاء پسندی کا الزام عائد کرکے پابندیاں بھی عائد کر دی جاتیں۔ عوام کو اتنا جذباتی کیا گیا ہے کہ کچھ نہتے ٹینکوں کے سامنے آرہے ہیں۔ یوکرین کا ایک مسئلہ یہاں کی عوامی رائے عامہ کا تقسیم ہونا بھی ہے، بہت سے مقامات پر جب روسی فوج شہروں میں داخل ہوئی ہے تو لوگوں نے بھرپور انداز میں اس کا استقبال کیا ہے۔ بہرحال یوکرین کی عوام پر اس وقت سخت ایام ہیں، ایک طرف روس کا حملہ ہے اور دوسری طرف سے یورپ کی یہ خواہش بڑھتی جا رہی ہے کہ یوکرینی ان کی جنگ لڑیں۔

جس طرح یورپ اور امریکہ نے سوویت یونین سے جنگ افغانستان میں پاکستان کے ذریعے لڑی، اب وہ چاہتے ہیں کہ یہی جنگ یوکرین ان کے لیے لڑے۔ یورپ خود تو محفوظ رہے اور جنگ کے شعلے ان سے دور رہیں، مگر اس جنگ کے فوائد وہ سمیٹیں۔ اس وقت یورپ پوری طرح سے اسلحہ اور وہ بھی اس طرح کا اسلحہ جو طویل مدتی جنگ میں درکار ہوتا ہے، وہ یوکرین کو فراہم کر رہا ہے۔ افغان جنگ میں مذہب پرستی کے ہتھیار کو استعمال کیا گیا تھا، اس جنگ میں وطن پرستی کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس جنگ میں مہاجرین کے سیلاب کو پڑوسی ممالک میں لایا گیا تھا اور پھر انہی مہاجرین کو تربیت دے کر سوویت یونین کے خلاف لڑایا گیا تھا، اب یہی کچھ کیا جا رہا ہے۔ وہی یورپ جو شام کے مہاجرین کو ترکی میں بند کرتا ہے، وہی یورپ جو یونان، ہنگری اور اٹلی کے بارڈر پر مہاجرین کے راستے میں باڑیں لگتا ہے اور اس وقت ہنگری کا وزیراعظم کہتا ہے کہ مہاجرین نہ آئیں اور کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس زمین نہیں ہے، مہاجرین ہماری معیشت پر بوجھ ہوں گے۔

آج یورپ یوکرین کے مہاجرین کا استقبال کر رہا ہے اور انہیں شیلٹر اور روزگار فراہم کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ یورپ کے یہ دہرے معیار انسانوں کو بتا رہے ہیں کہ اصل میں ملکوں اور ریاستوں کے مفادات ہی سب کچھ ہیں، انسانیت بس نام کی ہے اور مفاد کے لیے ہی اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ انڈیا اور افریقہ کے کچھ اسٹوڈنٹس پولینڈ میں پناہ کے لیے لے جانے والی گاڑی پر سوار ہوئے، انہیں اس سے اتار دیا گیا کہ ہم فقط یوکرین کے لوگوں کو ہی لے کر جائیں گے۔ وہ بیچارے لمبا فاصلہ پیدا طے کرنے پر مجبور ہوئے، یہ کیا ہے؟ کیا صرف یوکرین کے لوگوں کی جان ہی قیمتی ہے اور کیا صرف وہی خطرے میں ہیں۔؟ اب تو خیر آزادی اظہار کا بھی گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ سلوواکیہ اور جمہوریہ چیک نے جمہوریت اور آمریت کا مقابلہ قرار دیتے ہوئے ہر اس شخص پر سزا تجویز کی ہے، جو یوکرین کے معاملے پر روس کو سپورٹ کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یورپ نے RT اور Sputnik پر یورپ میں پابندی لگا دی ہے، یعنی اپنی مخالف سوچ کو سننے کے لیے ہی تیار نہیں ہے۔ مغرب اس بات سے ڈر گیا ہے کہ کہیں عوام دوسری طرف کی بات نہ سن لیں، اس لیے انہیں فقط اور فقط وہی سننا چاہیئے، جس کا نتیجہ وہی نکلے، جو مغرب چاہتا ہے۔ یورپی یونین نے سفارتی جنگ بھی شروع کر رکھی ہے۔ اب سابق سوویت ریاست مالڈووا نے یورپی یونین کی ممبر شپ کے لیے اپلائی کر دیا ہے۔ اس سے یوں لگتا ہے کہ یوکرین کا تنازع طول کھینچے گا، جس سے بہرحال اس خطے کے انسان نقصان اٹھائیں گے، اس کے ساتھ ساتھ یہ تنازع ہماری سوچ و فکر پر بھی بہت سے اثرات ڈال جائے گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply