• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کاپی رائٹ کی خلاف ورزی پر عمر قید ہونی چاہیے؟۔۔آصف محمود

کاپی رائٹ کی خلاف ورزی پر عمر قید ہونی چاہیے؟۔۔آصف محمود

پیکا آرڈی ننس جانے، اہل صحافت جانیں اور حزب اختلاف۔ ایک عام سے شہری کے طور پر میں مگر یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر پیکا آرڈی ننس کے تحت غلط خبر کی سزا پانچ سال ہے تو کسی کی پوری کی پوری تحریر اٹھا کر اپنے نام سے شائع کر دینے والے جعل سازوں کو تو عمر قید نہیں ہونی چاہیے؟ غلط خبر میں تو پھر یہ گنجائش موجود ہے کہ مناسب دیکھ بھال اور احتیاط کے باوجود خبر غلط ثابت ہوئی اور اس میں بد نیتی کا کوئی عنصر شامل نہ ہو لیکن کسی دوسرے کی تحریر کو اپنے نام سے شائع کروا کر داد وصول فرمانے والے جعلی معززین کی بد نیتی تو آشکار ہوتی ہے۔ ان کی سزا تو کم از کم عمر قید ہونی چاہیے۔

عمران خان نے اگلے روز انڈسٹریل پیکج دیا۔ عمران خان کے ناقد ہونے کے باوجود مجھے یہ کہنے دیجیے کہ یہ اتنا شاندار قدم ہے کہ اگر عمران اس پر مستقل مزاجی سے ڈٹے رہے اور چار ماہ بعد حسب روایت کوئی نئی پالیسی لے کر نہ آ گئے تو یہ پیکج پاکستان کی قسمت بدل دے گا۔ اپنے دور اقتدار میں یہ پہلا ڈھنگ کا کام ہے جو عمران خان کرنے جا رہے ہیں۔ جب سے بھٹو کی نیشنلائزیشن نے ہماری معیشت برباد کی تب سے اب تک معیشت کی دنیا میں اس سے شاندار فیصلہ نہیں کیا گیا۔

ہماری مبلغ معاشی پالیسی یہ رہی ہے کہ قرض لو اور کھا جائو۔ کھا کھا کر تھک جائو تو مزید قرض کر لو۔ بیچ میں افغان جہاد اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے دو ایسے عشرے آ گئے کہ امداد بھی وافر ملتی رہی۔ جب یہ سلسلہ ختم ہوا تو معلوم ہوا کہ ملک کا تو دیوالیہ نکلنے والا ہے۔ پون صدی ہو گئی قرض لے کر کھاتے ہوئے، قوم کا حشر نشر ہو گیا لیکن ملک میں ڈھنگ کی کوئی انڈسٹری ہی نہیں جہاں سے ہم دنیا کو کچھ پراڈکٹ بیچ کر زر مبادلہ کما سکیں۔

جس کے پاس چار پیسے ہیں وہ ہائوسنگ سیکٹر کا ڈبل شاہ بنا ہوا ہے۔ سرمایہ کاری صرف پلاٹوں میں ہو رہی ہے جہاں نہ کوئی قانون ہے نہ ضابطہ۔ جعلی ہائوسنگ سوسائٹیوں کا عذاب تو ہے ہی اور پلاٹ جعلی نکل آئے تو انصاف کا حصول جاڑے کی رت میں بغیر آکسیجن کے ٹو سر کرنے سے کم نہیں۔ کوئی پابندی نہیں، کوئی روک ٹوک نہیں کہ ایک شخص کتنے پلاٹ لے سکتا ہے۔ جس کے پاس سرمایہ ہے پلاٹوں میں لگا دیتا ہے۔ جن بے چاروں کو سچ میں پلاٹ ضرورت ہے ان کے لیے پلاٹ لینا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ اس میں مصنوعی ” بوم بوم ” ہے اور قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔

اب عمران نے پلاٹوں کا سرمایہ انڈسٹری کی طرف شفٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ ایکسپورٹ بیسڈ اکانومی متعارف کرائی جا سکے۔ یہ وہ کام ہے کہ اگر عمران خان کر گئے اور زراعت کی قیمت پر نہیں بلکہ اسے دست و بازو بناکر کر گئے تو اپنی ساری خامیوں کے باوجود، وہ ایک کامیاب حکمران تصور ہوں گے۔

عمران خان کی انڈسٹریل پالیسی پر لکھنے بیٹھا تو خیال آیا کہ تین سال قبل میں نے ایک کالم لکھا تھا کہ پاکستان کی پھلتی پھولتی معیشت کو بھٹو کی نیشنلائزیشن نے کس طرح تباہ کیا۔ کچھ حوالے درکار تھے۔ گوگل پر اپنا کالم سرچ کیا تو جی چاہا کہ سر پیٹ لوں۔ یہی کالم آٹھ مختلف ” کالم نگاروں ” اور “محققین کرام” کے نام سے موجود تھا۔ ایک دو جگہوں پر تو ان کی تحریروں کے نیچے کچھ لوگوں نے انہیں شرم دلانے کی ناکام کوشش بھی کی تھی کہ یہ تحریر آپ کی نہیں ہے لیکن مجال ہے اس بے عزتی سے ان کی استقامت میں کوئی فرق آیا ہو۔

کچھ عرصہ قبل ایک کالم لکھا تھا ” پانی کو عزت دو”۔ آٹھ دس دن گزرے تو پروفیسر طاہر ملک صاحب نے ایک لنک بھیجا۔ دیکھا تو معلوم ہوا وہی کالم ایک اعلی ریٹائرڈ افسر کے نام سے چھپا ہوا تھا۔ میں نے افسر صاحب کو فون کیا اورکہا کہ آپ نے اتنا شاندار کالم لکھا ہے مبارک قبول فرمائیں۔ میرا خیال تھا وہ شرمندہ ہو جائیں گے لیکن انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ فرماتے ہوئے میری مبارک قبول فرمالی۔ انہیں یہ سمجھانے میں میرے دو ہفتے لگ گئے کہ عا لی جاہ یہ کالم آپ نے نہیں لکھا۔

بنگال کی آب پارہ پر کالم لکھا تو اس پر سپریم کورٹ کے ایک وکیل صاحب نے ہاتھ صاف کر لیا۔ انہوں نے نہ صرف یہ کالم اپنے نام سے شائع کروایا بلکہ اسے اپنے فیس بک پیج پر بھی شیئر کر دیا۔ وکیل دوستوں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ جعل سازی اچھی بات نہیں لیکن وہ نہ سمجھے۔ مجبورا ً مجھے فیس بک پوسٹ لگانا پڑی۔ یہ ایک یا دو کالموں کی بات نہیں۔ درجنوں کالموں کی یہی کہانی ہے۔ بعض اوقات تو آدمی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کچھ سال بعد جعل سازی کا الزام اصل لکھاری پر ہی نہ لگ جائے۔

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کے رکن اور مدرسہ بورڈ کے سابق چیئر مین ہمارے دوست ڈاکٹر عامر تاسین نے وزارت مذہبی امور میں سیرت النبی ﷺ پر مقالہ لکھ بھیجا۔ کمال یہ ہوا کہ وزارت نے اپنے شمارے میں وہی مقالہ کسی خاتون کے نام سے شائع کر دیاا ور اس مقالے پر اس خاتون کو انعام کا حقدار بھی قرار دے دیا۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس اتفاق سے ای میل کا سارا ریکارڈ موجود تھا اور انہوں نے ڈاک کے ساتھ ساتھ ای میل کے ذریعے بھی یہ مقالہ جمع کروایا تھا۔ انہوں نے یہ سارا ریکارڈ وزارت کے سامنے رکھ دیا۔ لیکن مجال ہے کہ وزارت مذہبی امور نے ذرا سا بھی شرمندہ ہونے کا تکلف کیا ہو۔

کسی کی تحریر سے کوئی حوالہ لے لینا، کچھ تحقیقی مواد دیکھا تو اسے ری چیک کر کے حوالہ جات کے ساتھ اپنی تحریر میں استعمال کر لینا، یہ اور چیز ہے۔ لیکن کسی کی تحریر ساری ہی اٹھا لینا اور اپنے نام سے چھاپ لینا یہ انتہائی سنگین واردات ہے۔ زمانہ طالب علمی میں، سی ٹی بی ٹی پر میں نے کتاب لکھی۔ طلباء کے ایک جریدے نے اس کے باب میرے نام کے بغیر شائع کر دیے۔ رابطہ کرنے پر جواب دیا گیا کہ ہم نے تو اپنے تئیں ملک و قوم کی خدمت کی ہے۔

یونیورسٹیوں میں جو علمی و فکری تحقیق ہو رہی ہے، وہ ایک الگ کہانی ہے۔ سینیٹ تک میں یہ سنگین معاملہ زیر بحث آیا لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا۔ لکھنے والوں نے بھی اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا ہے اور نیم خواندہ معاشرے میں ایسے بد بخت بھی موجود ہیں جو سمجھانے آ جاتے ہیں کہ صاحب اتنا غصہ کرنے کی کیا ضرورت ہے، اس بے چارے نے آپ کی ایک تحریر ہی تو چوری کی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دریں حالات استدعا کی جاتی ہے کہ پیکا آرڈی ننس کی تو وزیر اعظم جانے، اہل صحافت جانیں اور عدالت جانے لیکن ازرہ کرم وزیر اعظم صاحب ایک اور آرڈی ننس جاری کر نے لیے صدر محترم کو سمری بجھوائیں کہ جو شخص کاپی رائٹ کی خلاف ورززی کرے اسے عمر قید کی سزا دی جائے۔ عین نوازش ہو گی۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply