• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اے جذبہ دل گر میں چاہوں-سوشل میڈیا اور ہم۔۔فرزانہ افضل

اے جذبہ دل گر میں چاہوں-سوشل میڈیا اور ہم۔۔فرزانہ افضل

ہم سوشل میڈیا سے کس قدر وابستہ ہوگئے ہیں اس بات کا اندازہ بلکہ تجربہ ہمیں گزشتہ چند روز میں بخوبی ہو گیا، جب ہم نے نیا فون خریدنے   کا ارادہ کیا اور سیمسنگ کے اسٹور پر جا کر S22 الٹرا کی بکنگ کروائی۔ اس فون کی آفیشل ریلیز 25 فروری کو ہونا تھی۔ مگر سیمسنگ نے ہمارے اخلاق و پیار سے متاثر ہوکر فون کی ڈلیوری سٹاک میں آتے ہی ہمیں فون دینے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے اپنا وعدہ نبھاتے ہوئے ہمیں ریلیز کی تاریخ سے قبل ہی سب سے پہلی اپائنٹمنٹ صبح دس بجے پر بلایا۔ چلو کسی نے تو ہم سے وعدہ نبھایا۔ اس مخصوص اسٹور سے یہ نیا فون حاصل کرنے والے ہم پہلے گاہک تھے یہ سوچ کر ہمیں بہت خوشی اور فخر محسوس ہوا، دل تو چاہا یہ ان پُر مسرت اور فخریہ جذبات کا اظہار سوشل میڈیا پر بھی کیا جائے مگر پھر دوسرے ہی لمحے ارادہ بدل دیا کہ یہ تو سراسر چھچھورا پن معلوم ہوگا۔ اس روز ہمارا دوسرا مشن اپنا نیٹ ورک تبدیل کرنے کا بھی تھا، تو ہم وہاں سے نکل کر سیدھے ووڈا فون کے اسٹور پر جا دھمکے اور ان سے کنٹریکٹ کیا ،انہوں نے وعدہ کیا کہ چوبیس گھنٹوں میں ہمارا نمبر منتقل ہو جائے گا ۔ مگر پھر وہی بات کہ وہ وعدہ ہی کیا ،جو وفا ہو جائے۔ ۔ووڈا فون تو بڑا ہی “وڈا ** * فون ” ثابت ہوا۔ پورا ایک ہفتہ لگا نمبر ٹرانسفر کرنے میں، جس کی وجہ انکے اپنے تکنیکی مسائل بلکہ غلطیاں تھیں۔ جس کا مجھے ابھی ان سے حساب کرنا باقی ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران جہاں روس نے یوکرین کے ساتھ باقاعدہ جنگ کا آغاز کیا ، ہم نے بھی دو محاذوں پر لڑائی کھول دی۔ ایک “وڈا فون” اور دوسری فیس بک کے ساتھ۔

فون وصول کرتے ہی  گھر جا کر ہم نے پرانے فون سے نئے فون پر سارا ڈیٹا ٹرانسفر کیا اور جونہی فیس بک لاگ اِن کرنے کی کوشش کی، تو یقین مانیے  یہ ہمارا دلارا فیس بک ، بھک سے اُڑ گیا۔ “دغا باز رے۔۔۔ یہ فیس بک بڑا دغا باز رے۔۔” یہ جو مذاق ہمیں اس وقت سوجھ رہا ہے اس وقت یہ حالت قطعی نہ تھی۔ ہم نے بوکھلا کر پرانے فون اور پھر لیپ ٹاپ پر لاگ ان کرنے کی کوشش کی مگر ہر جگہ سے فیس بک منہ چڑا رہا تھا۔ ہمارے  تو مانو پیروں تلے سے  زمین ہی نکل گئی۔ ہم نے پریشانی اور گھبراہٹ میں فیس بک پر بار بار حملے کیے، میٹا کے پیغام کے مطابق بار بار پھر پاسورڈ بھی بدلے مگر وہ سکیورٹی بڑھاتے ہی چلے گئے، اور فیس بک پر اور ای میل پر پیغام دیا کہ ان کو شک ہے کہ کوئی ہیکر مختلف فون سے ہمارے اکاؤنٹ کو ہیک کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ہمیں، فیس بک جو اب نام بدل کر میٹا کہلانے لگے ہیں، کی محدود سوچ پر افسوس ہوا کہ کیا وہ ایسا سمجھتے ہیں کہ ہم نیا فون نہیں خرید سکتے۔ خیال آیا کہ ثبوت کے طور پر ہمیں نئے فون کے ساتھ اپنی ایک عدد فوٹو اپلوڈ کر ہی دینی چاہیے تھی۔ اس بات کا مستقبل میں ہم ضرور خیال رکھیں گے اور آپ بھی یہ بات ذہن میں ضرور رکھیے گا۔ خیر ایک قابل ذکر بات ضرور ہوئی فیس بک نے ہمیں ای میل میں خصوصی پیغام دیا جس میں ہمیں ہمارے اکاؤنٹ کی اہمیت کا احساس دلایا، ہمارا اکاؤنٹ متوسط صارفین کی نسبت زیادہ مقبول ہے اور کمیونٹی میں خاصا سرگرم ہے ، ہیکرز ایسے اکاؤنٹ پر زیادہ حملہ آور ہوتے ہیں لہذا انہیں ہمارے اکاؤنٹ کی سکیورٹی بڑھانی پڑے گی۔ اس بات پر ہمیں پریشانی کے باوجود بھی اندر ہی اندر خوشی کی لہر اٹھتی محسوس ہوئی کہ فیس بک نے ہمارے پیج کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ان میٹا والوں سے لگاتار خط و کتابت جاری رہی۔ فیس بک کیا گیا یوں لگا ساری دنیا سے ہی مواصلاتی رابطہ منقطع ہوگیا ، اس قدر ٹینشن تھی کیا کہیں۔ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، ہر گھڑی ، ہر سمے اللہ میاں سے فیس بک کی واپسی کی التجا کی۔ دوستوں نے تسلی تشفی بھی دی۔ چند منچلے دوستوں نے کہا کہ وہ نماز جمعہ میں ہمارے فیس بک کی واپسی کے لیے خصوصی دعا کا اہتمام کریں گے۔ ہماری جان پر بنی تھی اور ان سب کو مذاق سوجھ رہا تھا۔ بہت فکر لاحق تھی کہ لکھائی پڑھائی تو فیس بک پر ہے اور نیا اکاؤنٹ بنانا گویا نئے  سِرے سے زندگی شروع کرنا ہے۔ اوپر سے فون نمبر بھی بند تھا۔ بچوں نے صلاح دی کہ ذرا سکون کیجیے اور آرام فرمائیے۔

ہمارے بچے اپنے حلقہ احباب میں ہی خوش رہتے ہیں اور سوشل میڈیا کے قائل نہیں ہیں۔ مگر ہمارا تو کھانا پینا چھوٹ گیا تھا۔ ہم نہ صرف بڑے مسائل بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے بھی پیارے اللہ میاں سے گفتگو اور دعا کے ذریعے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں ، بعد نماز جمعہ صلواۃ الحاجت پڑھ کر بھی فیسبک کی بحالی کے لیے دعا کی اور دس نفل بطور شکرانہ ادائیگی کی منت بھی مانی۔ بہر کیف کانپتے ہاتھوں اور دھڑکتے دل کے ساتھ دو دن قبل فیس بک کو چیک کیا تو وہاں پر کچھ مختلف پیغامات نظر آئے اور بالآخر سکیورٹی کے پورے طریقہ کار سے گزار کر انہوں نے ہمارا فیس بک اکاؤنٹ کھول دیا۔ ہم نے فوری طور پر 10 نفل شکرانہ ادا کیے۔ کئی دوستوں نے اس دوران یاسیت بھرے مشوروں سے بھی نوازا کہ بھول جائیں اور نیا اکاؤنٹ بنا لیں۔ مگر ہمارا خدا پر ایمان تھا اور عزم بھی، ہمت نہ ہاری اور سوشل میڈیا کے محاذ پر ڈٹے رہے۔
” اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہرچیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور منزل سامنے آجائے”

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر اس پورے ہفتے میں ، ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے  کہ ہم میں سے بیشتر لوگ سوشل میڈیا پر کتنا انحصار کرتے ہیں جب یہ سب کچھ نہیں تھا تب بھی لوگ خوش رہتے تھے بلکہ زیادہ خوش رہتے تھے کمیونٹی میں آپس میں محبت اور بھائی چارہ بھی بہت تھا۔ مقابلہ بازی اور حسد کی جو فضا سوشل میڈیا کی وساطت سے پھیل گئی ہے، ایسا دو دہائیاں پہلے ہرگز نہ تھا۔ سادگی اور سادہ لوحی کی وجہ سے گھروں میں بھی سکون تھا۔ سوشل میڈیا پر اپنی پُرتعیش زندگی اور رہن سہن کی تصویریں لگا کر کبھی نہ ختم ہونے والی دوڑ کی بازی جیتنا چاہتے ہیں۔ دوسروں پر برتری جتانا، کسی کو نیچا دکھانا اور ذاتی رنجشوں اور دشمنیوں کو فیس بک پر اچھالنا بہت آسان اور عام ہو گیا ہے۔ اچھی ، بُری ، معقول، نامعقول ہر قسم کی زبان کا فیس بک پر بلا دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے کو اتنا جان جاتے ہیں کہ یا تو ذاتی زندگی میں جاننے کی حسرت نہیں رہتی ، یا پھر کبھی کبھار مزید جاننے کی خواہش جاگ اٹھتی ہے۔ اگر ہم کوئی مثبت اور کمیونٹی اور انسانیت کی بھلائی کا کام کر رہے ہیں تو ایسی سرگرمیوں کا چرچا کرنا دکھاوا نہیں بلکہ دوسروں کو مثبت تحریک دینا ہے، آگاہی پھیلا کر اچھے، نیک اور تخلیقی کام کرنے پر آمادہ کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا تخلیقی کام تو صدیوں سے جاری ہے۔ بے شمار نامور مصور ادیب، شاعر اور فنکار گزرے ہیں جب سوشل میڈیا تو دُور کی بات ،ٹیلیفون تک بھی ایجاد نہ ہُوا   تھا، بجلی بھی نہ تھی، وہ لوگ اپنے اسی دور کے رہن سہن کے عادی تھے ۔ دنیا کا وقت بڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی میں ترقی نے پوری دنیا کو ایک گلوبل ولیج بنا دیا ہے ۔ فاصلے محدود ہو گئے ہیں، مگر دل دور ہو گئے ہیں۔ سوشل میڈیا سے جہاں معاشرتی برائیوں میں اضافہ ہوا وہاں علم کا حصول بھی آسان ہوگیا ، ساری معلومات بٹن دبانے پر مل جاتی ہیں۔ گوگل اور کروم وغیرہ آپ کے ہر سوال کا جواب دینے کے لیے حاضر باش ہیں۔ اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ سوشل میڈیا نے شہرت کے حصول کو ایک آسان عمل ضرور بنا دیا ہے اور سستی شہرت ہو یا معقول اور جائز شہرت ، اس بات کا فیصلہ تو آپ کے مخلص دوست احباب اور پبلک ہی کرتے ہیں۔
ہمارا یہی کہنا ہے
ہم نہ بدلیں گے  کبھی  وقت کی رفتار کے ساتھ
ملیں گے جب بھی  تو،  انداز پرانا ہوگا۔۔!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply