اخلاقی نفسیات (11) ۔ منقسم ذات/وہاراامباکر

نفسیات کا بڑا سچ یہ ہے کہ ذہن الگ حصوں کا مجموعہ ہے جو آپس میں تنازعے کی حالت میں ہوتے ہیں۔ ہم اسے الگ سمتوں میں کھینچے جانے کی صورت میں محسوس کرتے ہیں۔ کئی بار ہم خود اپنے سے اتفاق نہیں رکھتے۔ کئی بار ہم خود اس پر اظہارِ افسوس کرتے ہیں کہ ہم اپنے ایکشن کنٹرول کیوں نہیں کر سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“مجھے عجیب قوت کھینچ لیتی ہے۔ چاہت ایک طرف، عقل دوسری طرف۔ مجھے پتا ہے کہ مجھے کرنا کیا چاہیے۔ لیکن میں کرتا وہ ہوں جو مجھے نہیں کرنا چاہیے”۔
اووڈ کی لکھی اس نظم کا ہم سب کو واسطہ پڑتا رہتا ہے۔
بطور ایک فرد کے بھی ہم ایک یونٹ نہیں۔ ہم خود اپنی ذات میں منقسم ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افلاطون کا نام اخلاقی فلسفے میں بڑا نام ہے۔ ان کا مکالمہ Timaeus اس بارے میں بڑا دلچسپ ہے اور وہ اس میں جذبات، خوشیوں، حسیات کو evil اور فانی انسانوں کی حماقت کہتے ہیں جبکہ عقل کو انسانی معراج۔ ان کا “غیرجذباتی فلسفی بادشاہ” کا تصور عقلیت پسندی کا خواب ہے۔ اس میں جذبات کی جگہ نہیں۔ افلاطون کی یہ فکر روایتی مغربی فلسفے پر حاوی رہی ہے۔ کانٹ سے کوہلبرگ تک کی فکر میں یہ سراب غالب رہا ہے۔ سراب اس لئے کہ کسی چیز کو تقدیس دے دی جائے تو اس کے بارے میں صاف تجزیاتی سوچ ناممکن ہو جاتی ہے۔
سچا یقین رکھنے والے ایسے تخیلات بنا لیتے ہیں جن کا حقیقت سے تعلق نہیں رہتا۔ کبھی پر یہ اتنی دور نکل جاتا ہے کہ کسی کو بت گرانے پڑتے ہیں۔ عقل کی تقدیس بھی ایسا ہی بت تھا۔
فلسفے میں ہیوم کا پراجیکٹ عقل پرستی کی بت شکنی کے لئے تھا۔ اور ان کا فلسفہ کہ “عقل کو جذبات کا خادم ہونا چاہیے” اسی وجہ سے تھا۔
لیکن کیا ردِعمل کی کسی بھی فکر کی طرح یہ خود بھی دوسری انتہا تک چلا گیا تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افلاطون کا یہ کہنا کہ جذبات احمقانہ ہیں جبکہ عقل (reason) آقا ہے۔
ہیوم کا یہ دعویٰ کہ عقل صرف جذبات کی غلام ہے۔
جبکہ ایک تیسرا اور درمیان کا ماڈل تھامس جیفرسن کا تھا۔ جس میں عقل اور جذبات آزادانہ طور پر ہم پر حکومت کرتے ہیں۔ جیسے ایک منقسم سلطنت ہے۔
ان سب میں کچھ سچائی جھلکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان میں سے کون کتنا ٹھیک ہے؟
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply