کیا عالمی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے؟۔۔محمد ایمانی

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ “روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا متبادل تیسری عالمی جنگ ہے۔” کیا تیسری عالمی جنگ شروع ہونے والی ہے؟ یہ سوال کس قدر نادرست ہے کیونکہ عالمی جنگ کافی عرصہ پہلے سے شروع ہو چکی ہے۔ 1981ء میں ایران میں رونما ہونے والے اسلامی انقلاب کے خلاف مغرب اور مشرق کی دونوں سپر پاورز نے مل کر عراقی صدر صدام حسین کی بھرپور مدد کی۔ جو بائیڈن شاید فراموشی کے مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ لیکن ان کی یادداشت اس قدر خراب نہیں ہوئی کہ وہ اس بات کو بھی بھول گئے ہوں جب امریکی تھنک ٹینکس “جدید امریکی صدی” اور “مشرق وسطی کا نقشہ تبدیل کرنے کیلئے جنگ” اور افغانستان اور عراق پر فوجی جارحیت کا اعلان کرتے وقت چوتھی عالمی جنگ شروع ہونے کی باتیں کرتے تھے اور 24 اسلامی ممالک خاص طور پر ایران کو اس کا نشانہ ظاہر کرتے تھے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکہ نے جس ملک میں بھی مداخلت کی اور وہاں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کی، اس ملک کے عوام کو بحران اور مصیبت کے علاوہ کچھ نصیب نہ ہوا۔ یوکرین بھی دراصل مغرب کی اقتدار کی ہوس کی بھینٹ چڑھا ہے۔ یوکرین میں فوجی نیٹو داخل ہونے سے کئی سال پہلے ثقافتی اور انٹیلی جنس نیٹو گھس کر گھونسلا بنا چکی تھی۔ یوکرین کی جنگ کا آغاز گذشتہ ہفتے نہیں ہوا بلکہ یہ جنگ اسی دن سے شروع ہو چکی تھی جب اس ملک میں امریکہ کی ایماء پر رنگی بغاوت رونما ہوئی اور کچھ سال بعد ایک کامیڈین برسراقتدار آ گیا۔ امریکہ نے کامیڈین ولادیمیر زیلنسکی کو ایک سیاسی شعبدہ باز بنا دیا۔ زیلنسکی کے ماں باپ یہودی ہیں اور اس نے “خادم قوم” نامی کامیڈی شو میں “حادثاتی صدر” کا کردار ادا کیا تھا۔

تین سال بعد اسی کامیڈی شو کے ڈائریکٹرز کی مدد سے “خادم عوام” نامی سیاسی پارٹی بنائی اور کرپشن کے خلاف مقابلے کا نعرہ لگا کر صدارتی الیکشن میں کود پڑا۔ ایک ملک کیلئے دفاعی اور فوجی تنصیبات سے زیادہ اہم اس کے اعتقادی اور ثقافتی مراکز ہیں۔ ایک کامیڈین کا ملک کا صدر بن جانا بذات کود ایسا سیاہ طنز ہے جسے مذاق کے طور پر بیان کرنا بھی انسانی شعور کی توہین جانا جاتا ہے۔ لیکن امریکہ اور ثقافتی نیٹو نے اس مذاق کو سچ کر دکھایا اور یوکرین کی رائے عامہ پر ایسا مسلط کیا کہ وہ حقیقت میں تبدیل ہو گیا۔ زیلنسکی ایسے وقت یوکرین کے حکمران بنے جب انہوں نے اپنے کامیڈی شو میں یہ ڈائیلاگ ادا کیا تھا: “پیوٹن جنگ شروع کرے گا، بمبار طیارے بمباری کریں گے اور میں اپنے ہاتھ میں اسلحہ تھامے اپنی پینٹ گیلی کر دوں گا۔”

عام طور پر جنگ اس وقت شروع ہوتی ہے جب ایک فریق اپنے مدمقابل پر اپنی برتری کے بارے میں پوری طرح یقین حاصل کر لیتا ہے اور اس بارے میں مطمئن ہوتا ہے کہ اسے جواب میں کوئی کاری ضرب نہیں لگے گی۔ امریکہ نے دو عشرے پہلے یوکرین میں سیاسی، فوجی اور سکیورٹی مداخلت کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت انہیں یقین تھا کہ روس کوئی جوابی کاروائی انجام دینے سے قاصر ہے۔ اب بھی روس نے اس وجہ سے یوکرین کے خلاف فوجی کاروائی کا آغاز کیا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ امریکہ اور نیٹو موثر جوابی کاروائی انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔ یوکرین کی جنگ سے حاصل ہونے والا ایک اہم سبق یہ ہے کہ خطرے کو خود سے دور کرنے کیلئے طاقتور ہونا ضروری ہے۔ اپنی طاقت کے سرچشمے دشمن کے حوالے کر دینا انتہائی مہلک غلطی ہے جس کا نتیجہ شکست کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

اگرچہ یوکرین، پینٹاگون اور امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے کا گڑھ بن چکا تھا لیکن جب سے روس نے اس کے خلاف فوجی کاروائی کا آغاز کیا ہے وہاں حتی نیٹو یا پینٹاگون کا ایک چھوٹے عہدے والا معمولی افسر بھی دکھائی نہیں دیا۔ امریکہ اور نیٹو نے اس وعدے کی بنیاد پر یوکرین کو اپنی فوجی اور انٹیلی جنس سرگرمیوں کا مرکز بنا رکھا تھا کہ آئندہ درپیش خطروں کا مقابلہ کرنے میں اس کی مدد کرے گا۔ دوسری طرف ہم خطے میں دہشت گرد عناصر کے خلاف شہید قاسم سلیمانی کی مخلصانہ اور دن رات جدوجہد اور قربانیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ وہ شدید ترین لمحات میں نہ صرف اپنے شیعہ اتحادیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے بلکہ انہوں نے دیگر مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں اور حتی غیر مسلم شہریوں کو بھی دہشت گردی کے خلاف بھرپور تحفظ فراہم کیا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی حکومت تقریباً 200 سے زیادہ جنگیں انجام دے چکی ہے جبکہ اس دوران دنیا بھر میں 250 جنگیں انجام پائی ہیں۔ اگر ہم اس فہرست میں برطانیہ اور اسرائیل کا بھی اضافہ کر دیں تو دنیا میں پیدا ہونے والی بدامنی اور رونما ہونے والی جنگوں میں سے 90 فیصد مغربی طاقتوں کے ذریعے انجام پائی ہیں۔ لہذا اب یوکرین میں ان کی جانب سے جنگ کی مذمت اور یوکرین کی مظلومیت میں آنسو بہانے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ فرانس کے سابق صدر سارکوزی نے تقریباً ایک سال پہلے اپنی تقریر میں کہا تھا: “دنیا میں طاقت کا محور مغرب سے مشرق کی جانب منتقل ہو رہا ہے۔ ماضی میں ہم دنیا پر مسلط تھے لیکن اب ہم ہر گز مسلط نہیں ہیں۔ ٹرمپ جیسے انسان کا برسراقتدار آنا، جس کی ہر توقع نہیں کی جا رہی تھی، مغرب کی ابتر صورتحال کی علامت تھی اور اس کا سبب نہیں تھی۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply