سفر وسیلہ ظفر ہے۔۔مرزا یاسین بیگ

عین جوانی میں، مَیں نے جب پہلی بار پاکستان سے باہر کا سفر کیا تھا، وہ دو دن کےلیےکولمبو اور پھر ہانگ کانگ کا تھا۔ ہانگ کانگ میں تین ماہ گذار کر واپسی کیلۓ میں اور میرے دو دوستوں نے بذریعہ سڑک چین سے ہوتے ہوۓ کاشغر اور پھر پاکستان پہنچنے کا ارادہ کیا تھا۔ یہ 1989 کی بات ہے۔ ہم پہلے بذریعہ ٹرین ہانگ کانگ سے چین کے شہر گووانزو پہنچے۔ گوانزو سے بذریعہ ٹرین شن زن، وہاں سے شنگھائی، پھر بذریعہ بس ارومچی اور وہاں سے دوبارہ بذریعہ بس کاشغر اور پھر پاکستان بارڈر۔

یوں تو پندرہ دن کا یہ سفر انتہائی دلچسپ اور معلوماتی رہا مگر آج اس کی دوبارہ یاد ایک تصویر دیکھ کر آئی۔ دیگر تفصیلات کو چھوڑکر اس تصویر کے حوالے سے صرف یہ بتانا چاہتا ہوں، کہ جب ہم گووانزو پہنچے تو میرے دونوں دوست تو گرمی کی سخت دوپہر کی وجہ سے بہانہ بناکر ہوٹل میں ہی ٹھہرے رہے مگر میں جو ہر جگہ کی exploringکا عادی اکیلے ہی باہر نکل آیا۔ سڑک، فٹ پاتھ اور اس کے ساتھ مختلف دکانوں کو دیکھتا ہوا میں پیدل چلتا جارہا تھا۔ ایک جگہ یوں رکا کہ زندگی میں پہلی بار فٹ پاتھ پر ایک موچی عورت دیکھی۔

دوسری حیرانی یہ ہوئی کہ وہ چینی نوجوان خوبصورت عورت پھٹا جوتا ایک چھوٹی سی مشین سے سی رہی تھی جبکہ ہم کراچی میں اپنے پٹھان موچی بھائیوں کو بڑی سی سوئی کے ذریعے جوتے کی سلائی کرتے دیکھنے کے عادی تھے۔ میں کچھ دیر اس کے پاس کھڑا رہا اور پھر آگے بڑھ گیا۔ ایک میل آگے تک چل کر جب میں نے قرب و جوار کا علاقہ دیکھ لیا اور اپنے 36 snapsوالی فیوجی ریل سے چند تصاویر کھینچ لیں (ان دنوں فوٹوگرافی مہنگا اور دقت طلب مشغلہ ہوا کرتا تھا) تو واپس اسی فٹ پاتھ پر چل پڑا۔

جب اسی “موچن” تک پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ فٹ پاتھ کی موچن اپنے سامنے موجود ایک تکئے، لحاف، چادروں کی قیمتی دکان کی ورکر کے ساتھ مل کر ایک سائڈ ٹیبل پر ڈنر کررہی تھی۔ (چین میں ڈنر چار سے پانچ بجے کرلیا جاتا ہے اور چھ بجےتک سورج کی بھرپور روشنی میں ہی ساری دکانیں بند جبکہ زندگی میں پہلی بار سورج رات ساڑھے دس بجے غروب ہوتا دیکھا) انتہائی حیرت ہوئی کی ایک فٹ پاتھ یا موچن کے ساتھ ایک بہت بڑی دکان کی اونر یا ورکر نے کیسے ڈنر کرنا پسند کرلیا؟

اس وقت تک اسلام کے بارے میں صرف سنا ہی سنا تھا کہ کسی کو کسی پر فضیلت حاصل نہیں علاوہ تقویٰ کے۔ کوئی ذات، پات یا پیشے کی اونچ نیچ نہیں مگر اس پر مسلمانوں کو کبھی عمل کرتے نہیں دیکھا تھا۔ ہم تو گھر میں کام کرنے والی مسلم ماسی کیلۓ بھی الگ گلاس پیالی اور پلیٹ رکھتے ہیں۔ اور ادھر لادین چینی اونچ نیچ کا فرق مٹاۓ ایک ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج اس تصویر نے وہ دن یاد دلادیا۔ سچ ہے سفر وسیلہ ظفر ہے۔ سفر کرو تو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply