حقیقت سے فرار کی ناکام کوشش۔۔بلال حسن بھٹی

بچپن میں جب آس پاس کے لوگ آپ کی تعریف کر رہے ہوں تو آپ کے اندر خود اعتمادی آ جاتی ہے۔ ایک ایسی خود اعتمادی جو آپ کو وقت کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط شخصیت بنا دیتی ہے۔ لیکن جب پیدائشی حادثے کے نتیجے میں (جس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں ہوتی) آپ کے رنگ، عقل، نسل ذات کو لے کر اسی بچپن میں ہر طرف سے طعنے، کوسنے اور تضحیک کا نشانہ بنایا جائے تو آپ کی شخصیت مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔ بچپن میں اپنے رنگ، عقل، نسل، اور ذات پر ہونے والی تنقید اور لوگوں کی باتیں آپ کے لاشعور میں بننے والے پھوڑے کی طرح ہوتی ہیں۔ یا یہ سانپ کے ڈسنے کی طرح ہوتی ہیں جو اندر کا موسم سرد ہوتے ہی اپنا زہریلا اثر دوبارہ دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ موسم جو پرانے زخم کو مکمل تازہ کر دیتا ہے۔ زخم جو آپ کے وجود کو کچوکے لگاتا ہے۔ زخم جس سے آپ جان چھڑانے کی جتنی کوشش کر لیں سب کوششیں بے سود نظر آتی ہیں۔

ایسے میں جب آپ ان طعنوں، کوسنوں اور تنقید کے آگے بے بس ہو جائیں تو جوان ہوتے ہی آپ کے اندر اس سب سے فراریت کی خواہش شدید تر ہو جاتی ہے۔ آپ وہاں سے بھاگ جانا چاہتے ہیں۔ یہ فراریت یا تو کسی جرم کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے جو اپنے ساتھ زیادتی یا نارواسلوک کرنے والے ہر شخص سے جبر کے ذریعے بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ یا یہ فراریت ایک نئی پہچان حاصل کرنے کی لگن کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ ایک ایسی پہچان جو اس کی پرانی پہچان کو مٹا دے۔ جو اسے ان سب سوالوں سے نجات دلا دے جو آس پاس کے لوگ اس کے سامنے قدم قدم پر لا کھڑا کرتے ہیں۔ ایسا شخص کسی مثبت سرگرمی میں پناہ لیتا ہے۔ وہ پڑھ کر یا کوئی کام دھندا کر کے ایک ایسا طاقتور یا امیر شخص بن جانا چاہتا ہے جس کی معاشرے میں عزت ہو۔ عزت کہ جو اس تمام ذلت کو مٹا دے جو اس کے بچپن میں اس کے رنگ، نسل عقل یا ذات کے نام پر اس پر تھوپی گئی ہو۔ لیکن کیا دولت، عزت، شہرت کالک ملی اس تہہ در تہہ سیاہی کو جس کا وجود باطن پر نقش ہو دھو سکتی ہے یا نہیں؟ یہ ہے وہ سوال جو اس ناول کو پڑھتے ہوئے بطور قاری بار بار ذہن پر دستک دیتا ہے۔

گُرگِ شب کا شفیع بھی ایسے ہی ذلت بھرے لمحوں سے نجات کے لیے گھر چھوڑ کر اپنی محنت سے کپاس کا ایک بڑا بزنس مین بن جاتا ہے۔ پیسہ، شہرت، بنگلہ، گاڑیاں نیز شہرت اور طاقت کے ہر مروجہ مورچے کو حاصل کرنے اور اپنا نام بدل کر ظفر رکھ لینے کے باوجود وہ اس کالک سے نجات نہیں حاصل کر سکا جو اس کے چہرے پر اس کی پیدائش سے پہلے مَل دی گئی ہو۔ وہ کالک تھی حرامی پن کی کالک۔ وہ سوال تھا کہ کیا وہ اپنے سوتیلے بھائی کو بھائی سمجھے یا باپ سمجھے؟ اپنوں، اجنبیوں، دوستوں دشمنوں حالانکہ اس سے محبت کا دعوی کرنے والی حلیمہ سے اس بات کا ذکر سن کر کہ وہ اپنے بھائی غلام حسین کی اولاد ہے اس کا وجود ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ اس کا خون منجمد ہو جاتا تھا۔ اس کے حواس اس کے کنٹرول سے باہر ہو جاتے تھے۔

یہ سوال یا یہ بات کہ شفیع کیا تم اپنے بھائی غلام حسین کی اولاد ہو؟ اس کی زندگی کا سب سے بڑا روگ بن گیا تھا جو اس کے وجود کو اندر سے دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔ خوف اور تنہائی کی اس اندھیر نگری سے نجات کے شفیع کو دو ہی طریقے نظر آتے ہیں۔ پہلا طریقہ تو وہ تھا جس پر وہ عمل کر رہا تھا۔ یعنی شراب پینا اور اتنی شراب پینا کہ اس کے حواس بحال ہی نہ ہوں۔ لہذا وہ اتنی پیتا تھا جتنی وہ پی سکتا تھا لیکن پھر بھی وہ جتنی پیتا تھا ہر رات سونے کے بعد اس کے خوابوں میں وہی باتیں ہوتیں تھیں۔ وہی واقعات ہوتے تھے۔ دوسرا طریقہ تھا کسی عورت کی آغوش میں پناہ لینا۔ ایک ایسی عورت جو اس کی شخصیت کی گرتی عمارت کو اپنی نازک اداوں اور محبت بھری نگاہوں سے سہارا دے۔ وہ اس سہارے کو اپنی ذات کا مستقل حصہ بنانے کے لیے ایک سرکاری آفیسر کی بیوی ریحانہ کا سہارا لیتا ہے۔ جو اس کو کندھا دینے اس کے بیڈ روم تک پہنچ جاتی ہے لیکن اپنے پرانے خوف اور خوابوں سے طاری ہوئی ہیجانی کیفیت ظفر کو اندر تک منجمد کر دیتی ہے۔ جس سے اس کسی جنسی کوشش کا اختتام بھی شرمندگی اور ذلت کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔

زندگی میں بہت کچھ حاصل کرنے کے باوجود ظفر محسوس کرتا ہے کہ وہ کہیں دھنستا جا رہا ہے۔ اس کا دم گھٹ رہا ہے، سانسیں بند ہو رہی ہیں۔ کہیں نیچے اتھاہ گہرائیوں میں تاریک وادیوں میں ڈوبتے ہوئے کہ جہاں اندھیروں کی بڑھتی ہوئی سیاہی میں اس کی آہ و زاری اور چیخ و پکار دب کے ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ اس بات کا احساس ہے کہ وہ اندھیروں سے نکلتی اس گونج کا اگر مسلسل شکار رہا تو اس کا سارا کاروبار تباہ ہو جائے گا۔ اس کی سالوں کی کمائی ڈوب جائے گی اور وہ ویسے ہی کوڑی کوڑی کو ترسا کرے گا جیسے وہ فیروز آباد سے نکلتے ترسا کرتا تھا۔ مستقبل اور ماضی کی اس لڑائی میں لمحہ موجود میں بیٹھا ظفر گھن چکر بن کر ریہہ گیا ہے۔ اس لڑائی میں ماضی جیتنے یا نہ جیتے لیکن وہ آخر کار تھکا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

کردار نگاری کے حوالے سے ظفر شکست خوردہ لیکن اپنی اصل میں ایک توانا کردار بن کر اُبھرتا ہے۔ شفیع یا ظفر کا کردار پورے ناول میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ اپنے تمام تر مسائل سے آگاہ ہونے کے باوجود وہ بے بس نظر آتا ہے۔ اپنے خوابوں کے خلاف شعوری لڑائی اسے مینٹل ہسپتال تک لے جاتی ہے۔ اپنے ماضی سے چھٹکارہ حاصل کرنے اور مستقبل میں غربت کے ہاتھوں در بدر ہونے کا خوف اس کے حال کو الم ناک بنا دیتے ہیں۔ بطور مرکزی کردار اس میں خود کو بدلنے کے ارادے کی کمی نہیں ہے۔ بظاہر اس کا خوف اس کی تمام تر کوششوں پر حاوی نظر تو آتا ہے۔ لیکن جو چیز اس کے کردار کو زندہ رکھتی ہے وہ ایک خاص قسم کی تہہ داری ہے۔ ایسی تہہ داری جس میں تمام تر الجھنیں، مایوسیاں اور خوف اس کو مکمل طور پر ہرانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کے اختتام میں پہنچتے ہوئے ہم ظفر کو ختم ہوتے ہوئے نہیں بلکہ آہستہ آہستہ خود کو دوبارہ زندگی کے منظر نامے پر لاتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔

لگ بھگ ایک سو پندرہ صفحات کا یہ مختصر ناول اپنے اندر وجودی کرائسس کی ایک المناک داستان چھپائے ہوئے ہے۔ تہہ درد تہہ اپنا آپ ظاہر کرتی اس کہانی میں ہمارے آس پاس موجود انسانی وجود پر لگے بے شمار چھپے کانٹے ابھر کر سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ کانٹے جو ہم اپنے آس پاس کے متاثرہ لوگوں پر زبان کی لذت کی خاطر خود بھی لگاتے ہیں۔ جن میں بہت سے کانٹے تو ہم انجانے میں لگا دیتے ہیں۔ یہ ناول ہمارے معاشرے کے اس اجتماعی رویے پر شدید تنقید ہے جس میں زخموں پر مرحم رکھنے سے زیادہ ان کو کرید کر مرچیں لگانے کا کردار ادا کیا جاتا ہے۔ اعلی طبقے کی منافقت، بے رہ روی اور مفادات کے لیے کسی حد تک گِر جانے کی جو تصویر کشی اس ناول میں کی گئی ہے وہ مبنی بر حقیقت ہے۔ ناول میں لمبی چوڑی منظر نگاری نہیں کی گئی۔ تہہ در تہہ خود کو کھولتی اس کہانی میں واقعیت بہت زیادہ ہے۔ لیکن اس واقعیت میں جلدی سے سب کچھ کہہ دینے کی خواہش نظر نہیں آتی بلکہ دھیرے دھیرے اپنے اصل مدعے کو کھولتی ہے۔

چار دہائیاں پہلے اکرام اللہ صاحب کا یہ ناول جب پہلی دفعہ شائع ہوا تو اس   پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ شاید اس وقت معاشرہ اپنی اقدار پر اس کہانی کو ایک حملہ سمجھتا ہو گا۔ لیکن ہر طرف موبائل انٹرنیٹ کے زیر سایہ پروان چڑھتی نئی نسل انسیسٹ کا اس سے زیادہ علم رکھتی ہے۔ اس وقت یہ کہانی پہلے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ جس میں آج کی نسل کے لیے ان تمام خطرات سے آگاہی بھی موجود ہے جو اس راستے کے مسافر بننے کی خواہش لیے پھرتے ہیں۔ آگاہی کے ساتھ ساتھ ایک تنبیہہ بھی ہے کہ یہ راستہ نہ صرف آپ کی بلکہ آپکی آنے والی نسلوں کے لیے تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ لہذا ایسے میں یہ کہانی ہمیں نہ صرف انسان کے اندر معاشرے میں خوف پیدا کرنے والے عوامل سے آگاہ کرتی ہے بلکہ بین السطور ہمیں اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنے کی تجویز بھی پیش کرتی ہے۔ چار دہائیاں گزر جانے کے بعد آج بھی اس ناول کا موضوع اور کہانی تازہ ہے۔ اس کا اب بھی ہمارے معاشرے سے تعلق ہے۔ ایک ایسی کہانی جو اپنے موضوع اسلوب اور کردار کی مضبوطی کی وجہ سے خود کو لازوال بناتی ہے۔ خوبصورت نثر، الجھا دینے والے سوال، مضبوط اور نپا تلا پلاٹ اسے ایک اہم ادبی شہہ پارہ بناتے ہیں۔ ایسی کہانی پر معاشرتی شعور پنپنے کے خوف میں مبتلا حکومت ہی پابندی لگا سکتی ہے۔ چار دہائیاں قبل یہ موضوع ہمارے معاشرے میں نہ صرف نیا تھا بلکہ ”مشرقی اقدار“ پر فخر کرنے والوں کے لیے یہ ناول ان کی اقدار پر شدید حملہ تھا۔ اس وقت محمد خالد اختر کے بقول ” گُرگ شب“ کے آنے سے مایوسی کا رنگ تازگی اور امید میں بدل گیا ہے اور بے کسی پر نوحہ خوانی کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اکرام اللہ نے ایک ایسا کام کیا ہے کہ اگر چیئرنگ کراس پر سونے کا بُت قائم کیا جائے تو مناسب ہو گا“ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

https://youtube.com/watch?v=4VrYeC1w3m8&feature=share

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply