ہم آہنگی کی برکات۔۔ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

ہم آہنگی ایک ایسی کیمیاگری ہے جو بنی آدم کے لئے برکات فضائل کا دروازہ کھولتی ہے ۔یہ اتحاد و یگانگت کا خوبصورت رشتہ ہے جس کے جنم سے بہت سی قباحتیں اور بگڑے حالات سدھر جاتے ہیں۔اس عمل کا آغاز سب سے پہلے جسم و روح میں نشوونما پاتا ہے۔ پھر دو روحوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ جو خاندانی تعمیر و ترقی اور برکات کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ یہ عمل ایک خاندان سے شروع ہوکر قوموں کی کایا پلٹنے کی استعداد رکھتا ہے۔ لیکن یہ سب باتیں اس وقت وقوع پذیر ہوتی ہیں جب عملی طور پر میدان میں اترا جائے ۔کیونکہ بغیر عمل کے ایمان مردہ ہوتا ہے اور جب کسی کام میں عمل کی شروعات ہو جائے تو اس میں مقناطیسی قوت کا اثر پیدا ہو جاتا ہے۔جو بڑھ کر توانائی کے ذخائر دریافت کر لیتا ہے۔جو اسے مسلسل آگے بڑھنے کے لیے ہمت و جرات کی توانائی مہیا کرتے ہیں۔تاکہ وہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے اور ان آزمائشوں پر غالب آ سکے جو اسے آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ ہم آہنگی انسان کا زندگی میں اس وقت تک بھرم رکھتی ہے جب تک قوت حیات اس کا ساتھ دیتی ہے ۔جبکہ کمزوری اسے بیدل اور بزدل بنا دیتی ہے ۔ یہ قانون قدرت ہے کہ طاقتور جیت جاتا ہے اور کمزور ہار جاتا ہے۔ لیکن جب دو روحوں کے خیالات ہم آہنگی کا ثبوت پیش کرتے ہیں تو بے رخی چیزوں میں توازن پیدا ہو جاتا ہے۔

اور بگڑی ہوئی صورت حال ٹھیک ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ماحول میں تبدیلی آجاتی ہے۔ برکات و فضائل کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔ بہت سے خدشات دور ہو جاتے ہیں ۔دوریاں اور فاصلے مٹ جاتے ہیں ۔ خاندانوں کی رونقیں بحال ہوجاتی ہیں ۔ لڑائی جھگڑے ختم ہو جاتے ہیں۔کیونکہ اتحاد و یگانگت ایسی قوت ہے جس کی بدولت بڑی سے بڑی جنگ بھی جیتی جا سکتی ہے۔ بلاشبہ تاریخ ان باتوں سے پردہ اٹھاتی ہے اور بنی آدم پر ان باتوں کو واضح کرتی ہے۔ اگر تمھارے خیالات میں ہم آہنگی کی گوند چپک جائے تو تم بڑے بڑے کام کر سکتے ہو ۔ حالات بدل سکتے ہو ۔ دنیا جیت سکتے ہو ۔ اپنے مقدر کا بند تالا کھول سکتے ہو ۔ اپنی قسمت دریافت کر سکتے ہو ۔ اپنی طاقت و اخوت کا اندازہ لگا سکتے ہو۔ پھر تمہیں کامیابی ہی کامیابی نظر آئے گی۔تمہیں اطمینان کی پرچھائیاں نصیب ہوں گی۔ تم دم نہیں بلکہ سر ٹھرو گے۔ یہ ترقی کا ایک پوشیدہ راز ہے جو اسے پا لیتے ہیں۔ وہ اپنی قسمت کا احوال دریافت کر لیتے ہیں۔

وہ دوسروں کے لیے ایک نمونہ بن جاتے ہیں ۔ لیکن جو خواب دیکھتا ہی نہیں اس کی تعبیر کیسے ممکن ہو سکتی ہے ؟ وہ ہمیشہ الجھنوں کا شکار رہتا ہے۔ آزمائشوں میں گھرا رہتا ہے۔ رکاوٹیں اس کا تعاقب کرتی رہتی ہیں۔ وہ ہمیشہ بے بسی کے عذر پیش کرتا رہتا ہے ۔کبھی اپنی قسمت پہ نوحہ کناں ہوتا ہے اور کبھی دوسروں کو الزام دیتا ہے۔ کیونکہ اس کے پاؤں ناکامی کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں جو اسے باہر نکلنے سے روکتے ہیں۔ اس ضمن میں اپنا اختصاریہ قارئین کے لیے پیش کرتا ہوں ۔

” ہم آہنگی کے بغیر جڑے ہوئے رشتے زندگی بھر سزا دیتے ہیں۔نہ ان کی سزا ختم ہوتی ہے اور نہ  قرض”

ہم ایک ایسی دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں بہت سے فیصلے زبردستی مسلط کیے جاتے ہیں۔ اظہار رائے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ میری مرضی جیسے الفاظ سینہ تان کر خوشیاں چھین لیتے ہیں۔ نتیجتاً ذہن پر اداسی اور غموں کی گھٹا چھا جاتی ہے۔ ناامیدی کا قرض بڑھ جاتا ہے ۔ کانٹوں سے پیار اور رضامندی کے پھولوں کو پھینک دیا جاتا ہے۔ تب کانٹوں کی چبھن اور درد اور زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔ جب معاشرہ زبردستی فیصلوں کا عادی ہو جائے تو اس میں اونٹ کٹارے اُگنا شروع ہو جاتے ہیں۔

ان میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔یہ ایک دیوالیہ سماج کی تصویر ہے جس کا حلیہ اس قدر بگڑا ہوتا ہے جسے دیکھنے سے بھی گِھن آتی ہے۔ ایسی حالت زار دیکھ کر سماجی مطالعہ کی ضرورت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے تاکہ نا ہموار زمین کو ہموار کرنے کے طریقے ڈھونڈے جائیں۔ انہیں زیر بحث لا کر حل نکالا جائے۔ مشکلات کے پہاڑ سرکانے کے لئے موثر لائحہ عمل بنایا جائے تاکہ حالات پر جلد از جلد قابو پالیا جائے۔کیونکہ سوچ بچار ہی مسائل کا اصل حل ہے ۔اگر سوچ ہی مفلوج ہو جائے تم معاشرے کی زبوں حالی مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ اس کے لوگ تنکا تنکا ہو کر بکھر جائیں گے ۔ ان کی مشکلات اس حد تک بڑھ جائیں گی جہاں سدھار آتے آتے کئی دہائیاں بیت جائیں گی ۔ لیکن حالات جوں کے توں ہی نظر آئیں گے۔ خوشحالی کا عمل رک جائے گا ۔ خوشیاں روٹھ جائیں گے۔ دن بدن تفرقوں کا جنم ہوگا۔ عدم برداشت بڑھ جائے گی ۔محبت رسمی اورلمہاتی لبادہ اوڑھ لے گی ۔ ہم ایسی دنیا کا حصہ ہیں جہاں نظریات اور اقتدار کی جنگ ہے۔ لوگوں کی طاقت ختم کرنے کے لئے انہیں تقسیم کر دیا جاتا ہے ۔ ان کی طاقت کا عصا چھین لیا جاتا ہے تاکہ وہ متحد نہ ہوسکیں۔ لیکن باضمیر لوگ اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں۔ وہ آگے بڑھنے کے لئے راستہ ہموار کر لیتے ہیں۔ وہ مشکلات کی شہ رگ کاٹ دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے اندر مثبت سوچ کا چراغ ہوتا ہے جو جل کر اپنا دفاع بھی کرتا ہے اور دوسروں کو روشنی بھی دیتا ہے۔

آج دنیا میں پھیلی ہوئی بہت سی نحوستیں اور لڑائی جھگڑے ہم آہنگی کے فقدان کی بدولت پیدا ہوتی ہیں۔جن کا خمیازہ زندگی بھر بھگتنا پڑتا ہے۔نہ انسان پیچھے مڑ کر دیکھ سکتا ہے اور نہ  آگے بڑھنے کا تصور لا سکتا ہے۔ انسان عجیب توہمات کا شکار ہوجاتا ہے۔ باتوں کی زنجیریں اس کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیتی ہیں۔ اس کا چلنا محال ہو جاتا ہے ۔کبھی وہ خود کو کوستا ہے اور کبھی زمانے کو ۔ کبھی اپنی قسمت پر نوحہ کناں ہوتا ہے۔ کبھی دوسروں کو مجرم بناتا ہے۔ ہم اپنے معاشرے سے اس وقت ان قباحتوں کو ختم کر سکتے ہیں ۔ جب ہمارے اندر مصصم ارادہ ہوگا لیکن اس کے مضر اثرات کا خاتمہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے جب ہم ہم آہنگی کی شمع جلائیں گے تاکہ اس کی روشنی دوسروں تک بھی پہنچے۔ آج بہت سے لوگ اسی فقدان کے باعث سزا پا رہے ہیں۔ ان کا خاندانی شیرازہ بکھر چکا ہے۔ ان کی زندگی میں رکاوٹیں کھڑی ہوگئی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن ہم اس رونے کو اس وقت بند کریں گے جب کوئی ہم کو تسلی اور تشفی دے گا ۔ پھر ہمارے اندر ایک نیا جذبہ اور قوت مدافعت پھر سے بحال ہوگی ۔ ہم پھر سے نئی فطرت ، نئی روشنی، نیا خیال ، نیا ارادہ ، نئی منزل ، نئی سوچ ، نئی قوت پا کر ہم آہنگی کی چادر بچھائیں گے ۔ جو ہمیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرے گی۔ میں پھر سے خوشحال ہو جاؤں گا ۔ میری زندگی میں تازگی کے دن آجائیں گے ۔ محبت میرا موسم ہوگا ۔ خوشیاں میرے گھر کی چوکھٹ پر دستک دیں گی ۔ میں خوش و خرم ہو کر سب کو کہوں گا آؤ سب باتوں کو چھوڑ کر ہم آہنگی سے لپٹ جائیں۔ سب تضادات چھوڑ کر مثبت سوچ پر آمادگی ظاہر کریں تاکہ ہمارے درمیان پڑی ہوئی پھوٹ ، سزا اور قرض ختم ہو سکے۔
کیونکہ ہم آہنگی ایک ایسا سکہ ہے جسے جتنا زیادہ خرچ کریں گے یہ اتنا ہی بڑھ کر ہماری مشکلات حل کر دے گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply