سوشل میڈیا اور فتوے بازیاں

کہتے ہیں کہ ناقص علم فساد پیدا کرتا ہے چاہے وہ علم مزہب کے متعلق ہو، سائنس کا ہو یا کسی بهی شعبے ہائے زندگی اس کی بناء پر اپنی ذاتی عقل و دانش کو سامنے رکهتے ہوئے دائمی و حتمی رائے قائم کرنا فساد کے زمرے میں آتا ہے- چونکہ ہم بفضلِ خدا مسلمان ہیں اس لیے اسلام سے ہمارا واسطہ روز مرہ زندگی میں سب سے زیادہ پڑتا ہے- ہم ہر نکتےکو مزہب کی آنکه سے دیکهتے اور مزہب ہی کے ترازو میں تولتے تهے، ہیں اور ہمیشہ رہیں گے- لیکن پرکهنے کا آلہ اور تولنے والے ترازو کا اپنی درست حالت میں ہونا اشد ضروری ہے گزشتہ دنوں میرے ساته بهی ایسا ہی کچه حادثہ پیش آیا- میں بذات خود مولویوں اور علماء کرام کی دل سے قدر کرتا ہوں- میرے احباب مجهے اکثر طنز و مزاح کے طور پر مزہبی شدت پسند اور دہشت گرد و طالبان جیسے القابات سے نوازتے رہتے ہیں اور میں ہنس کر بات کو جهٹک دیتا ہوں- معاشرے میں یہ عام تاثر ہے کہ جو بهی ڈاڑھی والا ہو اور صوم وصلوتہ کی پابندی اور برائیوں سے پرہیز کرتا ہو اور ہر معاملے میں دین کو لاتا ہو تو اسے دہشت گرد اور فرسودہ زہنیت کا شکار مانا جاتا ہے-گزشتہ دنوں ایسے ہی بلاگرز کی گمشدگیوں کے پیشِ نظر مجه پہ بهی خوف طاری تها اور اب تک ہے- اسی کے پیش نظر نادانستگی میں مجه سے فیس بک پہ ایک پوسٹ ہو گئی جو بہتوں کونامناسب لگی اور کفر کےفتووں کی بوچهاڑ کر دی- کفریہ فتاویٰ کی تعداد درجنوں میں تهی اور فتوے دینے والوں میں زیادہ تر نیم مولوی، میری طرح کے عام مسلمان اور کچه ادهیڑ عمر کے ساتھ ساتھ خواتین بهی شامل تهیں- فتووں کے علاوہ مجهے اعلیٰ اعلیٰ گالیوں سے نوازتے ہوئے سچے امتی اور
عاشق دین ہونے کے بهی شواہد دیے گئے-
مختلف انواع و اقسام کے فتوے دیکهنے کو ملے جن کچھ اسطرح کے تهے- “اسے الٹا لٹکا دینا چاہیے” “ایسے ظالموں کو کتے کی موت مارنا چاہیے” “یہ دین کے ساته بد ترین مزاق ہے” وغیرہ وغیرہ- بالا فتووں کا تعلق نیم مولویوں اور فیسبکی دانشوروں سے ہے جو اپنی دانش وری و دانشمندی میں اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ شاید اسی دوڑ میں دین پر مکمل عبور حاصل کر لیا ہو- بلا تحقیق اور کسی مستند عالم و مفتی سے رجوع کیے بغیر کسی پر کفر کا غلیظ فتوی لگانا کیسا گهٹیا کام ہے؟
ایک صاحب کی دانشمندی وفہمیدگی کو سراہتا چلوں جنہوں نے علم ہونے کے باوجود معتبر مفتی سے رابطہ کیا اور میری پوسٹ ارسال کی جس کے جواب میں مفتی صاحب نے کہا کہ “یہ کفر نہیں لیکن احتیاط برتی جائے”
باقی ایک محترمہ کے کہنے پ جنہوں نے میری پوسٹ کا ڈیلیٹ ہونے سے پہلے چاق و چوبندی سے سکرین شارٹ لیا اور مزید فتوے بٹورنے کی جسارت کی ان ملاوں اور حکیموں کی خدمت میں ایک واقع پیش کرتا چلوں-
“امام مالک جو اسلامی تاریخ میں فقہ کے عظیم سکالر اور امام ابو حنیفہ رح کے طالب علم تهے- ایک دن ایک آدمی جس نے ہزاروں میل مسافت طے کی وہ ایک معمولی اور ادنی وجہ کہ بناء پر آپ کی خدمت میں مہینوں سفر کے بعد حاضر ہوا کیونکہ وہ دین کے متعلق کچه سوالات پوچهنا چاہتا تها اور اسلام کے بارے مزید سیکهنا چاہتا تها- بلآخر وہ پہنچا اور معزز امام مالک سے چالیس سوالات کر دیے اس پر امام مالک نے جواب دیا کہ میں ان میں سے چهتیس کے جوابات نہیں جانتا اور انہوں نے چالیس میں سے صرف چار سوالوں کے جواب دیے”
اسی طرح ایک اور واقع ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رض سے کسی نے قرآن کے متعلق سوال پوچها تو آپ نے نہایت خوبصورتی سے جواب دیا کہ ” کہ کون سا آسمان مجهے پناہ دے گا اور کون سی زمین مجهے تهامے گی اگر میں قرآن کی آیت کے بارے میں بغیر علم بات کروں”
ان امثال کو آپ محض سمجهیں اور کسی بهی تحریر کو پڑهتے وقت اپنے فتوری اور منفی مغزوں کو قابو میں رکه کر پرکها کریں تو یقیناً افاقہ ہوگا-
سوشل میڈیا پہ فتووں کا کاروبار جنگل میں لگی آگ کی طرح پهیل چکا ہے کوئی زرا سی بہکی بات کر دے تو اس پر اٹهارہ سال سے لے کر ادهیڑ عمر کے لوگ فتوے گاڑنا اپنا اولین فریضہ سمجهتے ہیں-
ایک انسان اگر جانے انجانے میں کم علمیت کی وجہ سے غلطی کر بیٹهتا ہے تو بجائے اس کی پوسٹ کی تشہیری کرنے کہ آپ اسے اچهے لفظوں میں سمجها دیں تو وہ نادم بهی ہوگا اور قریب ہے کہ وہ دوبارہ ایسی حرکت کرنے سے پہلے اپنے دماغ کو ضرور ٹٹولے گا-
مسلمین اور خروج المسلمین کے مہنگے سرٹیفکیٹ بیچنے والوں کے لیے عرض کرتا چلوں کہ حضرت عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ آپ صلعم نے فرمایا جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو کہنے والا خود کافر ہو جائے گا” آخر میں میرے چند سوالات معزز سوشل میڈیا فتوے بازوں سے کہ آپ نے درس نظامی کس مدرسے سے کیا؟ کتنے سال لگے؟ کیا آپ کے پاس فقہی علم کامل ہے؟ کیا آپ اصول فقہ سے واقف ہیں؟ کیا آپ کا کبهی علم الحدیث سے واسطہ پڑها؟ کیا آپ تفسیر القرآن سے متعلق جانکاری کے حامل ہیں؟ اگر ان سب سوالوں کا جواب صیحح معنوں میں “ہاں” آتا ہے تو آپ حقیقی معنوں میں مفتی، محدث یا مفسر ہیں لیکن اگر جواب “نہ” ہے تو پهر آپ گوگل کو اپنا مفتی بنا لیجیے اور آپکو آپکا شیوۂ فتوے بازی مبارک ہو-

Facebook Comments

سعد رزاق
میں ازل سے طالب علم تها اور ابد تک رہوں گا-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”سوشل میڈیا اور فتوے بازیاں

Leave a Reply to Fayyaz Ahmed Cancel reply