وفادار صحافی۔۔رعایت اللہ فاروقی

گہری جڑیں رکھنے والی مسلم لیگ (ن) کو اپنی گہری جڑوں کا ایک فائدہ یہ حاصل ہے کہ مین اسٹریم میڈیا میں ایسے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن کی وابستگی اس جماعت سے ہے۔ جس طرح سیاسی جماعتوں کے کوئی روحانی ایجنڈے نہیں ہوتے بلکہ یہ خالص دنیوی امور کے لئے ہوتی ہیں۔ بعینہ اس کے وابستگان کی وابستگی بھی اللہ کی رضا کے لئے نہیں بلکہ دنیوی مفادات کے لئے ہوتی ہے۔
دنیوی مفادات کوئی بری چیز نہیں۔ ایک شہری جب یہ سوچ کر ن لیگ کو ووٹ دیتا ہے کہ ان دور حکومت میں معیشت بہتر ہوگی جس سے ہمارے روزگار کے معاملات بھی بہتر ہوجائیں گے تو یہ بھی ایک دنیوی مفاد ہی ہے، لیکن عین فطری اور عین جائز مفاد ہے۔ دنیوی مفاد معیوب تب بنتا ہے جب یہ دو میں سے کوئی ایک شکل اختیار کر جائے۔
پہلا یہ کہ یہ مفاد کسی دینی تقاضے سے متصادم ہونے کے باوجود ترجیح حاصل کر جائے۔ اور دوسرا یہ کہ یہ مفاد اپنے جائز حق سے زیادہ اینٹھ لیا جائے۔ ظاہر ہے اس کے لئے چاپلوسی سے لے کر رشوت تک ہر طرح کے ناجائز حربے آزمائے جاتے ہیں۔ سو ن لیگ سے وابستہ یا اسے ووٹ دینے والے صحافیوں میں بھی یہ دونوں ہی طرح کے افراد شامل ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کو بھی مین سٹریم میڈیا سے ایسے لوگ میسر ہیں ؟ آج کے کالم میں یہ سوال اس لئے کھڑاکیا جا رہا ہے کہ سیاسی موسم بدل چکا۔ گرم ہواؤں نے پی ٹی آئی کی خیمہ گاہ کا رخ کرلیا ہے۔ باوجودیکہ ہمارے ہاں ایسے اخبارات اور ٹی وی چینلز موجود ہیں جن پر انصافی ہونے کا لیبل موجود ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ اخبارات اور چینلز عمران خان یا تحریک انصاف سے ہی وابستگی رکھتے ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سوال اس لئے بہت اہم ہے کہ ہم جن چینلز اور اخبارات کو پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم کے طور پر جانتے ہیں ان میں سے کسی ایک کی بھی تحریک انصاف یا عمران خان سے وابستگی کی کوئی تاریخ موجود نہیں۔ یا ہم جن معروف چہروں کو ٹی وی اینکرز کے طور پر ان کے حق میں پروگرام کرتے یا اخبارات میں کالم لکھتے دیکھتے ہیں ان کی بھی ایسی کوئی تاریخ موجود نہیں۔
ان سب کی تاریخ تو کسی اور سے وابستگی کی ہے۔ میری مراد “منے کا ابا” ہے۔ جس طرح 2011 کے بعد کچھ سیاسی ریوڑ جوق در جوق پی ٹی آئی میں گئے تھے۔ بعینہ یہ صحافتی ریوڑ بھی اسی دور میں “اباؤٹ ٹرن” پر راتوں رات مڑ گئے تھے۔ سو یوں یہ سوال بہت اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے پاس رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے اپنے اینکرز یا کالم نگار ہیں ؟
یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ جب 2014 میں اسٹیبلیشمنٹ نے ن لیگ کے خلاف عمران خان اور طاہر القادری کی صورت جال بچھانا شروع کیا تو تب یہ ن لیگ کے حامی صحافی ہی تھے جو اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف صف آرا ہوگئے اور “لندن پلان” والی بات زبان زد عام ہوگئی۔ پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ کا حریف بننا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ ان سے روبرو ہونا ہوتا ہے جن کے آگے وزرائے اعظم بے بس نظر آتے ہیں۔ان تک کو یا تو جلاوطن ہونا پڑ جاتا ہے یا پھانسی پر لٹکنا نصیب ہوجاتا ہے۔ ایسی قوت سے روبرو ہونے کے لئے جگرا درکار ہوتا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ 2014ء میں ایسا کیا ہوا تھا کہ اسٹیبلیشمنٹ کو لندن پلان بنانا پڑا ؟ بس یہی نا کہ وزیر اعظم پاکستان نے مشرف پر ہاتھ ڈالنے کی گستاخی کردی تھی اور اس بات کا بھی واضح اشارہ دیدیا تھا کہ وہ خارجہ پالیسی میں اسٹیبلیشمنٹ کی لائن نہیں لیں گے ؟ یوں انہیں چلتا کرنے کے لئے لندن میں کچھ میٹنگز ہوئیں جن میں بننے والے منصوبے کو لندن پلان کا نام ملا۔ تو 2021ء کے آخر میں بھی تو وہی ہوا ہے۔
اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ کو عمران خان سے یہ شکایت ہے کہ انہوں نے ڈیلیور نہیں کیا، الٹا معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا تو یہ خیال ذہن سے نکال پھینکنا چاہئے۔ کیونکہ معیشت کا جنازہ انہوں نے پہلے سال ہی نکالنا شروع کردیا تھا لیکن وہ “ایک پیج” ستمبر 2021ء تک موجود رہا جو پچھلے سال نومبر میں بالآخر پھٹ گیا۔ تو ایسا کیا ہوا کہ پیج پھٹ گیا اور لندن پلان بننے لگے؟
وہی ہوا جو محمد خان جونیجو سے لے کر نواز شریف تک ہر ایک کرتا آیا ہے۔ یعنی “گستاخی” کی حد ہوگئی، ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سلیکٹڈ نے بھی گستاخی کر ڈالی۔ انٹرویو اور وہ بھی تین تین جرنیلوں کے۔ ایسا تو کسی نے بھی نہ کیا تھا۔ نتیجہ بھی عین وہی ہے جو 2014ء میں نکلا تھا۔ یعنی “لندن پلان”۔ ایک بار پھر لندن میں ملاقاتیں ہوئیں، ایک بار پھر پلان بن گئے۔ لیکن جو نہیں ہوا وہ یہ ہے کہ ہمیں انصافیوں کی صحافتی صفوں سے کوئی ایسا مرد حر نظر نہیں آرہا جو لندن پلان کو چیلنج کرکے اسٹیبلیشمنٹ سے روبرو ہونے کی جرات دکھا سکے۔
سو سوال پھر وہی ہے کہ کیا تحریک انصاف کے پاس ایسے صحافی ہیں جو اس سے وابستگی رکھتے ہوں ؟ اس کی صفوں سے ہمیں ایسی آوازیں تو سننے کو مل رہی ہیں جو کسی سازش کے امکان کو مسترد کرکے یہ بتا رہی ہیں کہ سب خیر ہے، راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ لیکن ایسی کوئی آواز سننے کو نہیں مل رہی جو لندن پلان کی نوحہ خواں ہو۔
اس سوال کا جواب تب تک نہیں مل سکتا جب تک ن لیگ کی تاریخ کے ابتدائی ایام میں نہ جھانک لیا جائے۔ نون لیگ بھی تو ایک سلیکٹڈ جماعت کے طور پر ہی سامنے آئی تھی۔ اور تب جو نامور صحافی اس سے راتوں رات جڑ گئے تھے وہ سب سے بھی اس دور کے سکہ بند “محب وطن” ہی تھے۔ تکبیر والے صلاح الدین مرحوم سے لے کر مجیب الرحمن شامی تک جتنے بھی تھے سب کے سب “محب وطن گروپ” کے ہی تھے۔
ان میں سے صرف صلاح الدین ہی تھے جو نواز شریف اور اسٹیبلیشمنٹ کی پہلی چپقلش کے ساتھ ہی نواز شریف کی حمایت سے ہاتھ کھینچ کر انہی کے ساتھ کھڑے رہے جن کے اشارے پر نواز شریف کے حامی بنے تھے۔ جبکہ مجیب الرحمن شامی نے نواز شریف کو ہی ترجیح دی۔ یہی تاریخ عطاء الحق قاسمی اور عرفان صدیقی کی بھی ہے۔ کبھی یہ بہت ہی محب وطن ہوا کرتے تھے مگر پھر نواز شریف کے وفادار ہوگئے۔ سو اب غداروں میں شمار ہوتے ہیں۔
کیا اس بار بھی تاریخ خود کو دہرائے گی ؟اس بار بھی کچھ محب وطن صحافی غداروں کی صف کا رخ کریں گے؟ مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہو پائے گا۔ اور اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ 90 کی دہائی میں اسٹیبلیشمنٹ نے جو ریٹس رکھے ہوئے تھے وہ بہت ہی کم تھے۔ نواز شریف نے دام اچھے کردئیے تھے۔ سو لوگ اچھے دام والے کے ساتھ ہوگئے۔ دوسری وجہ یہ رہی کہ نواز شریف پاکستان اور بالخصوص لاہور میں ہی گہری جڑیں رکھتے تھے۔ جبکہ عمران خان کی تو ساری جڑیں لندن میں ہیں۔
یہاں تک کہ عمران خان کے بچے بھی صرف اس معنی میں پاکستانی ہیں کہ خان صاحب کے صاحبزادے ہیں ورنہ رہ وہ لندن میں ہی رہے ہیں۔ پاکستان تو کبھی کبھار تفریح کے لئے ہی آتے ہیں۔ اور لطیفہ ملاحظہ ہو کہ جس سال خان صاحب یہ دعویٰ فرما رہے ہیں کہ ان دور میں سیاح جوق در جوق پاکستان آرہے ہیں۔ اس سال ان کے سیاح بچے بھی پاکستان نہیں آئے۔
عین ممکن ہے کوئی کہے کہ بچے تو نواز شریف کے بھی لندن میں ہیں۔ سو یہ فرق نہیں بھولنا چاہئے کہ نواز شریف کے بچے عتاب کے نتیجے میں بیرون ملک ہیں۔ جبکہ خان صاحب کے صاحبزادے ایسے دور میں لندن کے مقیم ہوئے جب خان صاحب کو کسی بھی عتاب کا سامنا نہ تھا۔ بلکہ انہیں عتاب کا نشانہ بنانے کی کوئی وجہ ہی نہ تھی۔
ایک سیٹ جیتنے والی جماعت کے سربراہ کو کوئی عتاب کا نشانہ کیوں بناتا ؟ اور پھر سب سے اہم یہ کہ خان صاحب کے صاحبزادے اس دور میں بھی لندن کے ہورہے جب خان صاحب “ریاست مدینہ” قائم فرما چکے۔
نواز شریف رکھ رکھاؤ والے وضعدار انسان کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ سن بھی رکھا ہے اور تصاویر کی صورت دیکھ بھی رکھا ہے کہ ان کا دسترخوان پاکستان کا سب سے پرکشش دسترخوان ہے۔ جبکہ اس کے برعکس خان صاحب کی شہرت ملاقاتی سے تحقیر والے رویے کی ہے اور خیر سے یہ بات تو بچہ بچہ ہی جانتا ہے کہ ان کے گھر میں باورچی خانہ تو ہے مگر چائے کے کپ نہیں ہیں۔
یا یوں کہہ لیجئے کہ ان کے باورچی خانے کے ہر دانے پر بس انہی کی مہر لگی ہوتی ہے۔ آپ فیس بک سے ہی اندازہ لگا لیجئے۔ کچھ ہی عرصہ قبل ایک انصافی اور ایک یوتھیا خان صاحب سے ملنے وزیر اعظم ہاؤس پہنچے۔ خان صاحب نے نہ تو ان کے ساتھ تصویر کھنچوانا پسند کی اور نہ ہی چائے پیش کی۔ چائے کی مشکل یوں حل ہوئی کہ ایک دوست نے واپسی پر پنڈی کے چائے خانے پر لے جاکر پلادی اور تسلی کہ ان اللہ مع الصابرین۔
انہوں نے تصویر وزیر اعظم کے بجائے وزیر اعظم ہاؤس کی فصیل کے ساتھ کھڑے ہوکر کھنچوالی تاکہ سند رہے کہ وہ بھی کبھی اس گیٹ کے اس پار گئے تھے۔ اس کے برعکس ہمارے ایک اور انصافی دوست انعام رانا ہیں۔ وہ سالوں سے لندن میں مقیم ہیں اور وہیں وکالت کرتے ہیں۔ ابھی چار روز قبل وہ نواز شریف سے ملنے پہنچ گئے۔ وکیل ہیں سو سمجھدار بہت ہیں۔
دسترخوان سمیت کوئی تصویر شیئر کرنے والی غلطی نہ کی لیکن میاں صاحب کے شانہ بشانہ ایسی تصویر ضرور سوشل میڈیا کی زینت بن چکی جس میں نواز شریف کے چہرے پر یہ کہیں بھی نہیں لکھا کہ یہ جو برخوردار میرے پہلو میں کھڑا ہے میں نے اس کی سات پشتوں پر ورلڈکپ جیتنے کا احسان چڑھا رکھا ہے۔
لطف کی بات یہ کہ اس تصویر پر رانا صاحب نے کیپشن بھی شاید اسی لئے انگریزی میں لگایا ہے تاکہ خان صاحب کے لندن میں مقیم بچے بھی پڑھ سکیں۔ ورنہ رانا صاحب تو پنجابی میں سوچنے اور اردو میں لکھنے والے شخص ہیں۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ایک انصافی مخالف پارٹی کے سربراہ سے ملنے جاتا ہے تو عزت کے ساتھ جاتا ہے اور عزت کے ساتھ ہی لوٹ آتا ہے۔ مگر کچھ انصافی اپنی ہی پارٹی کے سربراہ سے ملنے جاتے ہیں تو واپسی پر اترے ہوئے چہرے کے ساتھ بہت بڑا تماشا لے کر لوٹتے ہیں؟ رویہ ! رویے کا یہ فرق ہی لوگوں کو نواز شریف کا وفادار بنا کر اس حد تک پہنچا دیتا ہے جہاں وہ اسٹیبلیشمنٹ سے بھی ٹکرانے کو تیار ہوجاتے ہیں۔
خان صاحب کے لئے کوئی کسی سے کیوں ٹکرائے ؟ ان کی تو تاریخ ہی یہی ہے کہ اپنے سب سے قریبی لوگ ہی سب سے بڑے دکھی بن جاتے ہیں۔ حامد خان، جسٹس وجیہہ صدیقی، جہانگیر ترین، علیم خان اور فوزیہ قصوری کا انجام اندھے کو بھی نظر آتا ہے۔

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply