• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دامن کو ذرا دیکھ(چوبیس آیاتِ قرآنی کے اخراج کا مطالبہ)۔۔حصّہ سوم/پروفیسر سیّد عاصم علی

دامن کو ذرا دیکھ(چوبیس آیاتِ قرآنی کے اخراج کا مطالبہ)۔۔حصّہ سوم/پروفیسر سیّد عاصم علی

دیانند جی اس فہرست میں اپنے ہم نسل برہمن پُشیہ متر شونگھ( ۱۸۵۔۱۴۹ قبل مسیح) کا نام شامل کرنا شاید جان بوجھ کر بھول گئے جس نےاپنے مالک راجہ برہدت موریہ کو دھوکے سے قتل کر کے اصل ملکی باشندوں کی موریہ سلطنت کوختم کیا اوربدھوں کے عظیم شہر ساکیت (موجودہ اجودھیا) کو پا یۂ تخت بنا کربدھوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا، اور انکے مندروں کو توڑ کر برہمنی مندروں میں تبدیل کر دیا۔ اور اجودھیا کی بدھ مرکزی حیثیت ختم کرکے اسکو ایک ہندو شہر بنا دیا۔

اسکے علاوہ عورتوں کو ستی پرتھا کے نام پر زندہ جلا دینے اور شودروں پر بھیانک اتیاچاروں کی ایک مستقل تاریخ ہے جسکی بنیاد ہندو مذہبی احکامات ہیں۔ یہ وہ وحشیانہ رسوم ہیں جن کو زوال مسلم اور عیسائی ادوار حکومت میں ہوا۔ بدھ دھرم اور جین دھرم (جس کو ہندوستان کا قدیم ترین مذہب یعنی اصل سناتن دھرم ہونیکا دعویٰ ہے) کو بھی اسلام کے آنے سے پہلے ہی تباہ و برباد کیا جا چکا تھا۔ بقول سوامی دیانند ”شنکر آچاریہ کے وقت میں جین وِدھوَنس (تباہ) ہوئے یعنی اب جتنے بُت جینیوں کے نکلتے ہیں وہ شنکر آچاریہ کے وقت میں ٹوٹے ہیں۔ جو بغیر ٹوٹے نکلتے ہیں وہ جینیوں نے زمین میں گاڑ دیئے تھے کہ توڑے نہ جائیں۔ وہ اب تک کہیں کہیں زمین میں سے نکلتے ہیں۔“ واضح ہو کہ ہندوؤں نے جینیوں کے بت تو توڑے مگرانکے مندروں کی عمارتیں قبضہ کرنے کی نیت سے چھوڑ دیں۔ سوامی جی کے بقول ”جینیوں کے مندر شنکر آچاریہ اور سودھنوا راجہ نے نہیں تڑوائے تھے۔ کیونکہ ان میں وید وغیرہ کی پاٹھ شالائیں بنانے کا ارادہ تھا“(“ستیارتھ پرکاش”، ص۳۸۲)۔ لالہ سمیر چند جینی جو جینیوں کی ایک مستند کتاب جین مت سار کے مصنف ہیں لکھتے ہیں کہ ”اور ساگاردھرم امرت سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ سمت ۱۰۱۰ بکرمی میں رامانُج ہو جائے ہیں جو شری رام چندر جی کے بڑے بھگت تھے، انھوں نے جینیوں کے سات سو مندر تڑوائے، میسور کے راجہ ہویسال کو جینی سے ویشنوی بنایا، جینیوں کو بڑی تکلیف دی“ (اردو،صفحہ۲۴۹)۔ اصلی بھارت واسیوں یعنی دراوڑوں کو ذلیل و خوار کر کے شمالی ہند سے جنوب کی طرف نزول قرآن سے پہلے ہی بھگایا جا چکا تھا،جو پکڑ میں آگئے انکو دسیو اور شودر بنا کر جانوروں سے بھی کم حیثیت قرار دیا گیا، جو فرار ہو کر جنگلوں میں نکل گئے وہ آدیباسی (یعنی قدیم باشندے) کے نام سے آجتک وہیں محصور ہیں۔ علاوہ ازیں، ویدوں اوربرہمن گرنتھوں میں ’اشو میدھ‘، ’گو میدھ‘ اور ’نر میدھ‘ (یعنی گھوڑے کی قربانی، گائے کی قربانی اور انسان کی قربانی) کا تذکرہ بھی ملتا ہے(دیکھو “رگ وید”، منڈل اول،منتر۱۶۲/ منڈل ۱۰،منتر۹۱، آیت۱۴/ “تیتریہ براہمن”، کتاب ۳، باب۸/ “منو سمرتی”، باب ۵،آیت۱۱۔۱۵)۔دھرمانند کوسمبی کی کتاب “بھگوان بدھ” (اردو ترجمہ،ساہتیہ اکیڈمی، نئی دہلی) میں بودھوں کے مذہبی نوشتے “کوسل سینت” کے حوالے سے لکھا ہے کہ ”بھگوان بدھ شراوستی میں رہتے تھے، اس وقت پسیندی کوسل راجہ کا مہا یگیہ شروع ہوا، اس میں پانچ سو بیل، پانچ سو بچھڑے، پانچ سو بچھیاں، پانچ سو بکرے اور پانچ سو مینڈھے کھمبوں سے بندھے ہوئے تھے……یہ سب دیکھ کر بھکشوؤں نے بھگوان کو اس سے آگاہ کیا، اس پر بھگوان بولے……ان (یگیوں) سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، بکرے، گئوویں اورمینڈھے جیسے مختلف جاندار جس میں مارے جاتے ہیں، اس یگیہ میں مہارشی شریک نہیں ہوتے۔“ (ص ۳۱۴۔۳۱۳۔ قربانی کا موضوع ایک پورے مضمون کا متقاضی ہے، بخوف طوالت ہم مزید تفصیل میں نہیں جاسکتے)۔ بدھ مت کے زیر اثر گھوڑے اور گائے کی قربانی تو ملک کے بہتیرے حصوں میں رک گئی، البتہ انسانی قربانی کے واقعات اب بھی وقتاًفوقتاًخبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ فلاں باپ نے خوشحالی یا بیماری سے نجات کی خاطر اپنے کم سن بیٹے کاگلا کاٹ کر فلاں دیوی پر بھینٹ چڑھا دیا۔ تو یہ سب آخرکیوں ہوتا رہا؟ اگر یہ سب قرآن کی وجہ سے ہوا تو بھلا اسکے نازل ہونے سے پہلے ہی آریوں نے اس پر عمل کیونکر شروع کر دیا تھا؟سیدھی سی بات یہ ہے کہ یہ سب ویدوں کی تعلیمات کا نتیجہ تھاجو سرشٹی کے ساتھ ہی پرکٹ ہوئے تھے۔اسی لیے انکے ماننے والوں میں فتنہ و فساد اور قتل و غارتگری کا مادہ ازل سے ہے اور انہی سے دوسروں میں پھیلا۔ یہ میں نہیں، مستند عالمِ وید سوامی دیانندجی فرماتے ہیں۔ قدیم آریہ ورت میں ”اگنی استر علوم“ اور توپ بندوق وغیرہ اسلحے کی موجودگی کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ”یہ سب باتیں جن سے استر (ہتھیار) شستروں (جنگی اوزار) کو بناتے تھے وہ ’منتر‘ یعنی وِچار (قوت خیال )سے بناتے تھے اور چلاتے تھے“۔ پھرقدیم ہتھیاروں مثلاً ’اگنی استر‘(مزائل)، ’واُرن استر‘(اینٹی مزائل گن)، ’ناگ پھانس‘، ’موہن استر‘ (کیمیائی بم) کا تذکرہ کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ”اسی طرح سب شستر ہوتے تھے۔اور ایک تار یا شیشے سے یا کسی اور چیز سے بجلی پیدا کر کے دشمنوں کو ہلاک کرتے تھے۔ اسکو بھی اگنی استر نیز پاشو پتا شتر کہتے ہیں۔ توپ بندوق یہ نام غیر ملک کی زبان کے ہیں۔ سنسکرت اور بھاشا میں اسکا نام ’شت گھنی‘ اور جسکو بندوق کہتے ہیں اسکو سنسکرت اور آریہ بھاشا میں ’بُھسنڈی‘ bhusandi کہتے ہیں“ (ص۲۷۳۔۲۷۲) – واضح ہو کہ یہ ساری ودیائیں اسلام اور نزول قرآن سے پہلے کی ہیں۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ ان ہنسک علوم (تشدد کی تعلیم دینے والی سائنس) کا مبدا اور مخزن بھی “وید” اور آریہ ورت ہے۔ یہ بھی میں نہیں کہتا، پنڈت سرسوتی جی کہتے ہیں،جن کے بقول”کل علوم کا منبع آریہ ورت ہے اور یہیں سے یہ ودیائیں کل دنیا میں پھیلی ہیں۔ جتنا علم روئے زمین پر پھیلا ہے وہ سب آریہ ورت ملک سے مصر، وہاں سے یونان،وہاں سے روم اوروہاں سے یوروپ اور امریکہ وغیرہ میں پھیلا ہے“ (صفحہ۲۷۳) ۔ ظاہر ہوا کہ ویدوں سے ہی کشت و خون اور ہتھیار سازی کا فن، انکا استعمال اور دوسری قوموں کو تاراج کرنے کی روایت پھیلی ہے۔ اِنہی سے مذہبی جنون اور ہنسا کی تحریک جلا پاتی ہے اور اس لپیٹ میں صرف غیر مذہب والے ہی نہیں آتے بلکہ بد کردار اور بد اطوارہندو بھی آ جاتے ہیں۔ منہ مانگا جہیز نہ لانیوالی نو بیاہتا بھی اسی مفہوم میں بد کردار وبد اطوار ہوتی ہے کہ وہ اپنے پتی دیو کے حکم پر میکے سے مزید رقم نہیں لا پاتی، لہذا ویدوں کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے شوہر ایسے “دان دھرم سے خالی” اور “بد کردارو بد اطوارانسان کی بیخ کنی” کر دیتا ہے اور “الٹا لٹکا کر خشک لکڑی کی طرح جلا دیتا” ہے۔ ہندوؤں کے ہاں روایتِ تشدد پر روشنی ڈالتے ہوئے بیسویں صدی کے ایک بابصیرت اور روشن دماغ دانشور نیرد سی چودھری اپنی کتاب The Continent of Circe by N. C. Chaudhary میں رقمطراز ہیں:
”عام خیال یہ ہے کہ ہندو ایک امن پسند اورغیر متشدد قوم ہیں، اور گاندھی ازم نے اس خیال کو مزید مستحکم کیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چند ہی انسانی گروہ ایسے ہوئے ہوں گے جو ہندوؤں سے زیادہ جنگجو اور خونریزی پر فریفتہ رہے ہوں ……اِنکی سیاسی تاریخ کے صفحات خون سے آلودہ ہیں ……اشوک نے خود یہ کہا کہ کلنگ کو فتح کرنے کیلئے، جو اسکے آباو اجداد کی فتوحات میں ایک معمولی سا اضافہ تھا، اسکو ایک پوری جنگ لڑنا پڑی۔ جس کے دوران پچاس ہزار لوگوں کو ملک بدر کیا گیا، ایک لاکھ کو تہِ تیغ کر دیا گیا، اور اس سے کئی گنا زیادہ تعداد دوسرے طریقوں سے موت کے گھاٹ اتار دی گئی……انسانی خون کو بے دریغ بہانے کے گناہ کا جوحد سے حدکفارہ اسکی سمجھ میں آیا وہ بس یہ تھا کہ شاہی باورچی خانے کیلئے ذبح کئے جانے والے جانوروں کی تعداد کم کر دی جائے، یعنی ہزاروں کی بجائے صرف تین جانور،دو مور اور ایک ہرن“۔ چودھری مزید کہتے ہیں کہ”اشوک کے زمانے سے لے کر گاندھی جی کے زمانے تک ہندو نظریۂ سیاست یا عمل میں ’عدم تشدد‘ پر ایک لفظ نہیں ملتا، یہ تاریخ صرف فتوحات اور ملک گیری سے عبارت ہے۔……سارا سنسکرت ادب کلاسیکی رجزیوں سے لے کر جدید طویل نظموں تک جنگوں کے منظر نامے اور فتوحات کی دل خوش کن منظر کشی سے بھرا پڑاہے۔ ہندو راجاؤں کا بس یہی ایک وظیفہ تھا۔ ……سارے آریہ ورت میں مانوس ترین آواز ایک ہی تھی،یعنی بیوائیں اپنے مقتول شوہروں کی یاد میں بین کرتی ہوئی جنکو دلاسہ دینے کوئی نہیں آتا۔ ……اپنے لوگوں کے جنگجویانہ تشدداور خونریزی کی عادت سے گھبرا کر قدیم ہندو معلمین اخلاق نے اس کو لگام دینے اور مذہبی تقدس عطاکرنے کیلئے جنگ کا اخلاقی تصور گڑھ لیایعنی ’دھرم یدھ‘…… ” (واضح ہو کہ اسلام میں ‘دھرم یدھ’ یعنی ‘دینی جنگ’ کا کوئی مترادف موجود نہیں ہے، نہ اسکا حکم یا اجازت ہے ، اور نہ’جہاد’ اس اصطلاح کا ہم معنی ہے، عاصم)۔ “ناقابل تصور ہے کہ کوئی ہندو جنگ کرے اور اسکو دھرم یدھ قرار نہ دے۔“ چودھری نے ہندوؤں کے تصور اہنسا (عدم تشدد) کوانکی تاریخ میں جاری رہنے والی بدترین ہنسا (تشدد) کا رد عمل قراردیا ہے، کہتے ہیں ”ہندوؤں نے کبھی ’انسانوں سے پیار‘ (حب الناس)کو ایک مثبت قدر کے طور پر رواج نہیں دیا، بلکہ اسکو صرف تشدد اور قتل سے احتراز کا مترادف جانا۔ ہِمسا ایک سنسکرت لفظ ہے جسکے معنی ہیں تشدد اور قتل۔ اسکی ضد بنانے کیلئے اس سے پہلے’اَ‘ کا سابقہ لگا دیا گیاجسکا مطلب ہے ’عدم‘ یا ’غیر‘ جیسے انگریزی کا non ۔اسطرح لفظ بنا اَہِمسا ‘جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہِمسا ایک ایجابی رویہ رہا ہے اور ’اَہِمسا‘ محض سلبی“(میں نے جستہ جستہ فقرے ترجمہ کر دیے ہیں، پوری تفصیل کے لئے دیکھوصفحات ۱۲۵۔۹۹، جَیکو پبلشنگ ہاؤس، ممبئی، ۱۹۹۹،عاصم)
چونکہ ہر مذہبی رویے کی بنیاد عقیدے میں ہوتی ہے اسلئے بجاطور پریہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کونسا فلسفۂ حیات و ممات ہے جو بعض انسانوں کو ایذارسانی اور خوں ریزی پر اسقدر جری بنا دیتا ہے کہ تڑپتے، جھلستے اور بلکتے انسانوں کو دیکھ کر بھی انکا کلیجہ نہیں پسیجتا؟ اس سوال کا جواب آپکو شری کرشن جی کے اُپدیش “شریمد بھگوت گیتا” میں ملے گا۔ (اردو ترجمہ، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، ۱۹۸۳ ء)  یعنی”نغمۂ یزداں” جو “مہابھارت”کی چھٹی کتاب میں کرشن اور ارجن کے ددرمیان مکالمےکی صورت میں وارد ہوتا ہے  ۔
مظلوم پانڈوؤں کی جانب سے میدان جنگ میں اترنے والے شریف النفس اَرجُن نے اپنے سامنے ”چچا، استاد، ماموں، بھائی، بیٹے، پوتے، دوست، احباب اور خسر“ وغیرہ کو صف آرا دیکھا۔ یہ سوچ کر کہ وہ ان اعزا و اقربا کے قتل کی نیت سے آیا ہے ارجن کا سر چکرانے لگا۔ رحمدلی، شرافت اور ایثار کے جذبے سے سرشار ارجن نے کہا: ”اے کرشن!انھیں مارکر میں فتح نہیں چاہتا، نہ مجھے حکومت چاہئے نہ بادشاہت اور نہ ہی عیش۔دیکھو تو سہی ہم لوگ دانشمند ہو کر بھی حکومت کے عیش کے لالچ میں اپنوں کو مارنے کیلئے تیار ہو گئے ہیں، کتنے بڑے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں“(۴۷۔۲۶: ۱)۔ صلہ رحمی کے جذبے سے مغلوب ارجن نے مزید کہا کہ میں اپنے بزرگوں ”کو میدان جنگ میں تیروں کا نشانہ کس طرح بناؤں؟۔۔۔ یہ تو اس قابل ہیں کہ انکی تعظیم و حرمت کی جائے……میں نہیں لڑونگا“ (۵۔۳ اور ۹:۱) ور وہ گانڈیو پھینک کر بیٹھ گیا۔
ارجن کے جواب میں شری کرشن نے کوئی فلسفۂ ظلم و عدل پیش نہیں کیا۔نہ یہ جتایا کہ کوروؤں نے جو تمھاری جائداد پر قبضہ کر لیا ہے تو انکی یہ خطا ایسی ہی خطرناک، دنیا کیلئے سم قاتل اور ناقابل معافی ہے کہ ان سب کو موت کے گھاٹ اتار دینا ہی مسئلے کا واحد حل ہے اور ان میں کا ہر فرد اس سزا کا مستحق ہے۔ اور ایک مرتبہ ان سب کو قتل کردیا گیا تو پھر دنیا میں نا انصافی اور ظلم و جور کی جڑ کٹ جائیگی۔اسکی بجائے انھوں نے فلسفۂ حیات و ممات پر مشتمل ایک طویل خطبہ دیا۔ اس فلسفیانہ خطبے میں شری کرشن چندر جی نے تصور قتل ہی کو بدل ڈالا۔ انھوں نے فرمایا:
۱۔”تو ایسی بات کا غم کرتا ہے جسکا غم نہ کرنا چاہئے……کسی کی جان جائے یا رہے عالم اسکا کچھ افسوس نہیں کرتے۔“ (گیتا ،۱۱: ۲)
۲۔”جس شخص میں غرور نہ ہو، جسکی قوت استدلال متاثر نہ ہو وہ آدمیوں کو قتل بھی کرے تو قاتل نہیں اور نہ قید و بند میں ہے۔“ (گیتا ،۱۷: ۱۸)
۳۔”حقیقت میں تو ایسا ہے نہیں کہ میں،تو یا یہ راجہ کسی وقت معدوم تھے یا مستقبل میں ہوں گے“۔(گیتا ،۱۲: ۲)
۴۔”جس طرح جسم کے اندر رہنے والی (آتما) کو اس دنیا میں بچپن، جوانی اور بڑھاپا حاصل ہوتا ہے، اسی طرح آئندہ بھی دوسرا جسم ملتا ہے۔ اسلئے عقلمند ان حالات سے نہیں گھبراتے“۔ (گیتا ،۱۳: ۲)
۵۔”روشن ضمیروں نے یہ حقیقت معلوم کی ہے کہ مجازی کا وجود نہیں اور حقیقت کو فنا نہیں۔“(گیتا ،۱۶: ۲)
۶۔”لافانی، پائدار اور بے انداز جسم کے یہ اجسام فانی ہیں اسلئے اے بھارت!جنگ کر۔“ (گیتا ،۱۸: ۲)
۷۔جو اسے (روح کو) مارنے والی مانتا ہے اور جو مرنے والی مانتا ہے دونوں جاہل ہیں۔ وہ (روح) نہ تو مرتی ہے نہ مارتی ہے نہ تو وہ پیدا ہوئی ہے اور نہ اسکو موت ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ (ایک مرتبہ) ہو کر پھر کبھی نہیں ہوتی ہو۔ یہ پیدائش سے مبرا، دائم، لافانی اور قدیم ہے۔ اگر جسم مارا بھی جائے تو یہ نہیں ماری جاتی۔”( گیتا ،۲۰۔۱۹: ۲)
۸۔ ”اے پارتھ!جس انسان نے یہ جان لیا کہ وہ (روح) پائدار، دائم، پیدائش سے مبرا ور کبھی خرچ (برباد)نہ ہونے والی ہے اسکے پاس یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ کون مارتا ہے اور کون مرتا ہے“۔ (گیتا ،۲۱: ۲)
۹۔ ”جس طرح ایک آدمی بوسیدہ کپڑے اتار کر نئے پہنتا ہے اسی طرح جسم میں رہنے والی روح فرسودہ جسم کو چھوڑ کر نئے جسم میں داخل ہوتی ہے۔”( گیتا، ۲۲: ۲)
۱۰۔”اس (روح)کو ہتھیار کاٹ نہیں سکتے، آگ جلا نہیں سکتی، پانی گیلا نہیں کر سکتا، ہوا خشک نہیں کر سکتی، یہ کبھی بھی نہ کٹنے والی، تر نہ ہونے والی، خشک نہ ہونے والی، پایدار، محیط، قائم، غیر متحرک اور قدیم ہے۔“ (گیتا ،۲۴۔۲۳: ۲)
۱۱۔ ”جو پیدا ہوا ہے اسکو موت بھی یقینی ہے اور جو مرتا ہے اسکا پیدا ہونا لابدی ہے۔ اسلئے جو چیز ناگزیر ہے اسکے لئے افسوس مناسب نہیں ہے۔”(گیتا ، ۲۷: ۲)
۱۲۔”اے بھارت! تمام جاندارآغاز میں نامعلوم، درمیان میں معلوم، اور مرنے کے بعد پھر نا معلوم ہوتے ہیں۔ جب سب ہی کی حالت ایسی ہے تو پھر افسوس کس بات کا ہے؟” (گیتا ،۲۸: ۲)
۱۳۔”تجھے اپنے فرض (دھرم) کے پیش نظر بھی ہچکچانا مناسب نہیں، (کیونکہ) کشتری کے لیے حق کے واسطے جنگ کرنے سے زیادہ باعث فخر اور کوئی کام نہیں ہو سکتا، ایک کشتری کے مفاد کی خدمت، جنگ کے فریضے کی ادائی سے بڑھ کر جو فرض منصبی کے طور پر عاید ہوتی ہے، اور کوئی نہیں ہو سکتی۔“ (گیتا ،۳۱: ۲)
۱۴۔ “اور اگر تو اپنے دھرم کی پیروی میں اس حق کی جنگ میں حصہ نہ لے گا تو اپنے دھرم اور پائی ہوئی عزت کو برباد کرکے گناہ حاصل کریگا۔” (۳۳: ۲)
۱۵۔”لوگ تیری بدنامی کا ہمیشہ تذکرہ کریں گے اور ایک باعزت آدمی کے لئے بدنامی موت سے بد تر ہوتی ہے۔”( گیتا ،۳۴: ۲)
۱۶۔مہارتھی یہ سمجھیں گے کہ تو خوف زدہ ہو کر میدان جنگ سے بھاگ گیا ہے اور تو جو ابتک انکی نظروں میں تعظیم کے قابل تھا اب حقیر ہو جائیگا۔” ( گیتا ،۳۵: ۲)
۱۷۔”جنگ کرنے کے بعد اگر تو مارا جائے تو تجھے جنت (سورگ)ملے گی اور فتحیاب ہو گا توزمین تیرے اقتدار میں ہو گی۔ اس لئے اے کنتی کے بیٹے!جنگ کا عزم کر کے اٹھ!” ( گیتا ، ۳۷: ۲)
۱۸۔”……اسلئے تو کمر بستہ ہو اور اپنے لئے شہرت حاصل کر، اپنے دشمنوں پر فتح پا کر دولت سے بھری ہوئی حکومت حاصل کر، میں ان (دشمنوں) کو پہلے ہی مار چکا ہوں تو محض ظاہری سبب بن۔“ (گیتا ،۳۳: ۱۱)
اس وعظ میں پہلے توشری کرشن نے حقیقت روح پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ارواح ازلی اور ابدی ہیں۔ انکو زوال نہیں، نہ یہ مارتی ہیں نہ مرتی ہیں، اور ایک لافانی ابدی وجود میں قائم ہیں۔ پھر یہ کہ اجسام (bodies) مجازی، غیر موجود اور فانی ہیں، ایک نہ ایک دن انکو مرنا ہی ہے۔یہ اجسام روح کا بیرونی لباس ہیں جنکوبوسیدہ ہونے پراگر بدل دیا جائے تو اسمیں غم کی کیابات ہے؟ عارف اور گیانی اس حقیقت سے واقف ہیں۔ چنانچہ اگر کسی روح کے کپڑے اتار دیے جائیں تو انھیں کوئی غم نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ خود ہی ان کپڑوں کو اتار دیں تب بھی نہ قاتل قرار پاتے ہیں نہ گنہ گار۔اسلئے کہ وہ اس حقیقت عظمیٰ کا ادراک رکھتے ہیں کہ انھوں نے صرف جسم کو مارا ہے روح کو نہیں جو لافانی اور ابدی اور کسی بھی نقصان سے بالاتر ہے۔ لیکن ہماری مشکل یہ ہے کہ اس فلسفے میں تصور قتل بدل گیا۔ اس دنیا میں روح اور جسم کے باہمی اتصال کوہی زندگی کہتے ہیں، اور انہی دونوں کے الگ ہو جانے کو موت۔ اگر کوئی غیر طبعی طریقے سے دونوں کو الگ کر دے تو اسکو قتل کہا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے کو قاتل۔اب اگر یہ کہا جائے کہ روح قتل سے پہلے بھی تھی اور بعد میں بھی رہی چنانچہ قتل واقع نہیں ہوا تو یہ قابل تسلیم نہیں ہوگا۔ اسلیے کہ جب جسم کومردہ کردیا گیا اور روح جسم سے علاحدہ ہو گئی تو قتل واقع ہو گیاچاہے اسکے بعد یا پہلے روح کا کچھ بھی ہو۔ مثال لیجئے۔ میری جیب میں پیسے تھے۔ جیب کترے نے جیب کاٹ کر وہ پیسے نکال لئے اور اپنی جیب میں رکھ لئے۔ چوری واقع ہو گئی۔ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پیسے پہلے بھی جیب میں تھے اب بھی جیب میں ہیں صرف جیب بدل گئی اسلئے گیانیوں کے نزدیک یہ چوری نہیں کہلائے گی۔ صرف ‘تبدیلئ جیب’ کہلائے گی، جسکے لئے جیب کترے کو افسوس کرنے کی ضرورت ہے اور نہ پولس کو اسے پکڑنے کی۔ بالفرض یہ فلسفہ صحیح بھی ہو تو کوروؤں کے سلسلے میں اسکا اطلاق کیوں نہیں کیا گیا؟ یعنی یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ جائداد پہلے بھی اسی جگہ پر تھی جہاں اب ہے اور آئندہ بھی اسی جگہ رہے گی، صرف اس نے اپنے مالکان بدل لیے، اسلئے اسکو بے ایمانی یا غصب نہیں کہا جائیگا؟ کوروؤں کو اس حقیقت کا گیان ہے اسلئے وہ جائداد ہڑپ کر کے بھی غاصب نہیں ہوئے۔ دوسرا مسئلہ جو پیدا ہوتا ہے وہ اس سے بھی اہم ہے۔ شری کرشن ارجن کو جنگ پر اسلئے اکسا رہے ہیں کہ کوروؤں کو انکی بے ایمانی کی سزا دلانا مقصود ہے۔ لیکن پتہ یہ چلا کہ اصل حقیقت صرف روح کی ہے جسم کی نہیں۔ یا بالفاظ دیگر، جسم روح کی سواری ہے۔ارادہ اور عمل روح کا ہوتا ہے جسکو وہ جسم کی مشین کے ذریعے انجام دیتی ہے۔ اور مشین جب پرانی ہوجاتی ہے تو وہ اسکوبوسیدہ کپڑوں کی طرح بدل کر نئی مشین اختیار کر لیتی ہے۔ یعنی کارِ گناہ اور کار ِثواب دونوں کی ذمہ داری روح کی ہوئی، جسم کی نہیں، تو پھر جزا و سزا کی مستحق بھی وہی ہوئی۔ لیکن سزا ساری بھگتنی پڑتی ہے جسم کو اسلئے کہ روح ”کو ہتھیار کاٹ نہیں سکتے، آگ جلا نہیں سکتی، پانی گیلا نہیں کر سکتا، ہوا خشک نہیں کر سکتی،یہ کبھی بھی نہ کٹنے والی، تر نہ ہونے والی، خشک نہ ہونے والی، پایدار، محیط، قائم، غیر متحرک اور قدیم ہے“(۲۴۔۲۳: ۲) ۔ ارجن جنگ کر کے صرف کوروؤں کے جسموں کو کاٹ کر مردہ کردیگا لیکن انکو استعمال کر کے جن روحوں نے گناہ اور ناانصافیاں کی تھیں وہ بلا کسی گزند کے قائم و باقی رہیں گی اور پھر کسی نئے قالب میں جلوہ گر ہو جائیں گی اور انکے نئے گناہوں کیلئے انکے نئے قالب کو سزا بھگتنا ہوگی۔ پھر ایک مثال لیجئے۔ ایک شخص کو رولس رائس گاڑی مل گئی۔ وہ اسمیں بیٹھااور اسکو چلانا شروع کیا۔ پہلے وہ گاڑی کوشراب خانے لے گیااور شراب پی، پھر قحبہ خانے پہنچا اور زنا کیا، پھر قمار خانہ پہنچا اور جوا کھیلا، پھر کسی مالدار کے گھر اس گاڑی کے ذریعہ پہنچا اور ڈاکہ ڈالا۔ مالدار آدمی نے پولس کو خبر کر دی۔ پولس نے گاڑی کا پیچھا کیا۔ وہ شخص گاڑی دوڑاتا پولس سے بچتا پھرا۔ مگر آخر کار پولس نے اسکی گاڑی کو گھیر ہی لیا۔ اور گاڑی پر ڈنڈوں اور ہتھیاروں سے حملہ کر دیا۔ وہ شخص آرام سے گاڑی سے نکل کر ایک طرف کو کھڑا ہو گیاکہ پولس کو اس پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں۔ پولس گاڑی کو اچھی طرح توڑ تاڑ کر اسکاکچومر نکال کر چلی گئی۔ اور اس شخص کو ایک نئی کیڈلیک مل گئی اور اسمیں بیٹھ کو وہ پھر سے انہی اعمال میں مصروف ہو گیا۔ اور پھر سے وہی قصہ دہرایا گیا۔اب آپ یہ بتائیں کہ گاڑی اس شخص کے کسی عمل اور ارادہ کیلئے ذمہ دار نہیں، مگر سزابرابرگاڑی کو مل رہی ہے، اصل گنہ گار کو کیا سزاملی؟

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply