• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • میلوڈی کوئین اور ڈونگر پور کا شہزادہ۔۔انور اقبال

میلوڈی کوئین اور ڈونگر پور کا شہزادہ۔۔انور اقبال

آج سے تقریباًانچ سو سال پرانی بات ہے، سترہ مارچ 1527ء کی صبح دہلی سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر بهرت پور کے مقام پر خانوا کے میدان میں بابر کی مغل فوج اور رانا سانگا کی اتحادی فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے صف آرا ءء ہیں۔ بابر کی فوج میں پچاس ہزار جوان اور رانا سانگا کے لشکر میں 500 ہاتھیوں کے ساتھ ایک لاکھ لڑاکا سپاہی ہیں۔لیکن بابر کو ٹیکنالوجی کی برتری حاصل ہے کہ اس کی فوج ہلكی توپوں سے بھی لیس ہے۔ صبح نو بجے جنگ کا آغاز ہوتا ہے جو تھوڑی ہی دیر میں گهمسان کے رن میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ابتداء  میں عددی برتری کی وجہ سے رانا سانگا کی اتحادی فوجوں کا پلہ بھاری نظر آتا ہے لیکن جب بابر کی توپیں گولا بارود اگلنا شروع کرتی ہیں اور بابر کی فوج میں شامل تیر انداز تیروں کی بارش برساتی ہیں تو رانا سانگا کے سپاہیوں کے قدم اکھڑنے لگتے ہیں اور اس کے لشکری ہاتھی توپوں کی گھن گرج سے سراسیمہ ہو کر اپنی فوجوں کی طرف پلٹ کر اپنے ہی سپاہیوں کو روندنے لگتے ہیں۔ رانا سانگا کےاتحادی لشکر میں راول اودے سنگھ بھی اپنے فوجی دستوں کے ساتھ شامل ہیں۔ راول اودے سنگھ ایک راجپوت ریاست وگاد کے راجہ ہیں۔ اچانک دشمن کا ایک تیر ہوا میں تیرتا ہوا نمودار ہوتا ہے اور چشم زدن میں راجہ راول اودے سنگھ کے سینے میں پیوست ہو جاتا ہے اور وہ وہیں ڈھیر ہو جاتے ہیں۔
اس جنگ میں بابر کو فتح حاصل ہوتی ہے۔

مرحوم راجہ راول اودے سنگھ کی ریاست وگاد دو حصّوں میں بٹ کر ان کےدو بیٹوں میں تقسیم ہو جاتی ہے، ایک ریاست کا نام ڈونگر پور اور دوسری ریاست کا نام بانس واڑہ رکھ دیا جاتا ہے۔
موجودہ ہندوستان کے صوبہ راجهستان میں واقع ڈونگر پور کی ریاست سن 1947 میں ہندوستان کی آزادی تک قائم رہی تھی۔ آزادی کے وقت ریاست ڈونگر پور پر سر لکشمن سنگھ بہادر حکومت کر رہے تھے اور ان کے بیٹے شہزاده راج سنگھ ڈونگر پور تھے۔ 1947 میں ریاست ڈونگر پور انڈین یونین میں ضم ہو گئی اور صوبہ راجهستان کا حصہ بن گئی۔ شہزاده راج سنگھ ڈونگر پور 1935 میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اندور کے ڈلی کالج سے گریجویشن کیا اور قانون کی تعلیم حاصل کرنے بمبئی چلے گئے۔ وہاں ان کی ملاقات لتا منگیشکر کے بھائی ہردی ناتھ سے ہوئی۔ دونوں ہی کرکٹ کھیلنے کے شوقین تھے جلد ہی یہ دونوں بے تكلف دوست بن گئے۔ شہزادہ راج سنگھ ڈوگر اکثر ہردی ناتھ کے ساتھ ان کے گھر بھی چلے جاتے تھے۔ اس طرح یہ دوستی خاندانی مراسم کی شکل اختیار کر گئی۔ گھر پر لتا منگیشکر بھی ان دونوں کی بیٹھک میں شریک ہونے لگیں۔ لتا کرکٹ کی شیدائی اور راج سنگھ ڈونگر پور موسیقی کے دلداده۔ گھر کی بیٹھک میں یہ ملاقاتیں جن میں عام طور پر کرکٹ کے کھیل اور موسیقی کے اسرار و رموز پر گفتگو ہوتی تھی جلد ہی ایک دوسرے کی شخصیت میں دلچسپی لینے کا باعث بن گئیں۔ کرکٹ اور موسیقی کے اس تال میل کو دیکھتے ہوئے كیوپڈ کے دیوتا کو تیر چلانے کا موقع فراہم کر دیا اور یہ تیر ان دونوں کو گهائل کر گیا۔

بیکانیر کی شہزادی راج شری جو راج سنگھ ڈونگر پور کی بھانجی ہیں، نے اپنی سوانح عمری “پیلیس آف کلاؤڈز-اے میموئیر” میں اپنے ماموں اور لتا منگیشکر کے درمیان تعلقات کے بارے میں لکھا ہے۔ اپنی یادداشت میں وہ لکھتی ہیں کہ دونوں کی ملاقات ہردی ناتھ منگیشکر کے ذریعے ہوئی جو لتا منگیشکر کے چھوٹے بھائی ہیں۔ کتاب میں لکھا ہے کہ ان کی ابتدائی دوستی بعد میں محبت میں بدل گئی۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد راج سنگھ ڈونگر پور واپس آئے اور اپنے خاندان کے ساتھ لتا منگیشکر سے شادی کرنے کے اپنے ارادوں پر بات کی۔ راج شری لکھتی ہیں کہ شاہی خاندان نہیں چاہتا تھا کہ راج سنگھ کسی غیر شاہی خاندان میں شادی کریں۔ راج سنگھ ڈونگر پور کو خاندانی دباؤ کے سامنے جھکنا پڑا اور آخر کار اس شادی کا ارادہ ترک کرنا پڑا تاہم انہوں نے زندگی بھر سنگل رہ کر اپنی محبت کی کہانی کو امر کر دیا۔ دوسری طرف لتا جی نے بھی زندگی بھر شادی نہیں کی۔ راج شری کی خود نوشت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ راج سنگھ ڈونگرپور لتا منگیشکر کو پیار سے ‘مٹھو’ کہتے تھے۔

آج BCCI دنیا کا سب سے طاقتور کرکٹ بورڈ ہے اور ہندوستانی کھلاڑی دنیا کے امیر ترین کھلاڑیوں میں شامل ہیں لیکن صورتحال ہمیشہ ایسی نہیں تھی۔ خاص طور پر 1980 کی دہائی میں جب ہندوستان نے اپنا پہلا ورلڈ کپ 1983 میں جیتا۔ اس وقت بورڈ کے پاس اپنے ان کھلاڑیوں کو انعام دینے کے لیے فنڈز نہیں تھے جو 1983 کا ورلڈ کپ جیت کر وطن واپس آئے تھے۔ فنڈز کی کمی کی وجہ سے بورڈ کے حکام خاصے پریشان تھے اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے راج سنگھ جو ورلڈ کپ جیتنے والی ہندوستانی ٹیم کے مینجر تھے، انہوں نے لتا منگیشکر سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ رقم اکٹھا کر سکیں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ لتا جی کرکٹ سے کتنی محبت کرتی ہیں۔ انہوں نے لتا جی سے پوچھا کہ کیا وہ نئی دہلی کے جواہر لال نہرو اسٹیڈیم میں مفت کنسرٹ کر سکتی ہیں۔منگیشکر نے فوراً ہی رضامندی دے دی اور بورڈ جو اپنے کھلاڑیوں کو صرف 2,000 یومیہ الاؤنس ادا کرتا تھا وہ 14 کھلاڑیوں میں سے ہر ایک کو جمع شدہ رقم سے 1 لاکھ روپے کا انعام دینے میں کامیاب رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ دونوں شادی کے بندهن میں تو نہیں بندھ سکے لیکن راج سنگھ، لتا کے ساتھ دنیا بھر میں کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے ہمیشہ ان کے برابر والی نشست پر پائے گئے۔ لتا جی کی جینٹلمینز کے کھیل کرکٹ سے محبت کہہ لیں یا کرکٹ کے جینٹلمین سے محبت کا شاخسانہ، لتا کی کرکٹ سے دلچسپی بھی والہانہ عشق میں تبدیل ہو گئی اور شاید یہ ہی وہ ازلی درد تھا جو لتا جی کی رگو ں میں سرائیت کر گیا جس کا اظہار انہوں نے مشہو ر شاعر اور فلمی کہانیوں کے لکھاری جاوید اختر کو انٹرویو دیتے ہوئے اس طرح سے کیا کہ
“میں اگلے جنم میں لتا نہیں بننا چاہوں گی کیونکہ لتا کے درد لتا ہی جانتی ہے”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply