کلکتہ کا سفر، چند حقائق۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

فکر فی نفسہ (۷)غالب :
Short Notes jotted down in India House Library, London, in 1972-73
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
۰ کلکتے کا سفر اگست 26 کو شروع ہوا۔ فروری 28 کو وہاں پہنچ گئے۔ نومبر 29 کو واپس دِلّی پہنچے۔
(ڈاکٹر وفا راشدی: ’’بنگال میں اردو‘‘)
۰ ’’کلکتے میں غالب کے دشمنوں کی تعداد غیر منقول تھی۔ قتیل کے حامیوں نے انہیں سفر کے دوران تقریباً ہر شہر میں ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ مرزا افضل بیگ جو سفیر شاہ دہلی تھے، کلکتہ میں ہی تھے۔ اس مقدمے میں وہاں فریق ثانی کے حمایتی بھی وہی تھے۔ اس لیے غالب کے دشمن وہاں پہلے سے ہی موجود تھے اور انہوں نے مشاعروں اور محافل میں غالب کو نیچا دکھانے کی کوششیں روا رکھیں۔
سر سید احمد : چند حقائق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۰ سن 1863ء میں مسلم لٹریری سوسائٹی (مجلس مذاکرہ اسلامیہ) کی بنیاد رکھی گئی۔ سر سیّد اس کے پہلے اجلاس میں شریک ہوئے۔ عبدالغفور نساخ سر سیّد کے تعلیمی اور قومی مشن میں معاون ثابت ہوئے۔
۰ نساخ نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں تحریر کیا ہے کہ غالب ’’مثنوی گہر بار‘‘ کے اشعار کو سر سیّد کی موجودگی میں پڑھنے سے احتراز کرتے تھے۔
۰ نساخ نے یہ بھی لکھا ہے کہ سر سید احمد کی کچھ باتوں پر غالب چیں بہ جبیں بھی ہو جاتے تھے کہ وہ سر سید کو کمتر درجے کا عالم سمجھتے تھے لیکن اس امر کی تشہیر اس لیے بھی نہ ہو سکی کہ غالب رو برو ملاقاتوں میں ان سے باہمی رفاقت سے پیش آتے تھے، جھک کر ملتے تھے اور ان کے شایان شان متانت سے بات کرتے تھے۔
(ڈاکٹر صدر الحق، نساخ، حیات اور تصنیف)
دیوانِ غالب کی طباعت کی تاریخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رباعی : ہیں شاہ میں صفات ذوالجلالی باہم
آثار ِ جلالی و جمالی باہم
ہوں شاد نہ کیوں اسفل و عالی باہم
ہے اب کے شبِ قدر و دوالی باہم
(اکتوبر 1841ء)
شاگردانِ غالب
۔۔۔۔۔۔۔۔
شاگردان میں افضل ترین داغؔ ، منشی ہر گوپال تفتہؔ ، غلام غوث بے خبرؔ ، عبدالغفور نسّاخ، نبی بخش حقیرؔ ، انوار الدولہ شفیقؔ ، حبیب اللہ ذکاؔ ، اور قاضی عبدالجلیل جنونؔ تھے۔ یہ سبھی انگریزی زبان سے بے خبر تھے۔ غالبیات کے معروف ترین محقق مالک رام نے شاگردانِ غالب کی تحقیق کے سلسلے میں کسی کا بھی انگریزی دان ہونا تسلیم نہیں کیا۔مالک رام نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا ہے کہ ماسوائے  داغؔ ، ان میں سے ’’کسی کے کلام میں شمہ بھر بھی غالب کا رنگ دکھائی نہیں دیتا‘‘۔ ایک اور ماہر غالبیات ، کالیداس گپتا رضاؔ اس کی وجہ یہ شمار کرتے ہیں کہ غالب خود اس بلند ترین مقام پر تھے جہاں سے جھک کر انہیں اپنے شاگردانِ رشید کے کلام کی نوک پلک سنوارنے کا کام جوکھم لگتا تھا، اس لیے وہ ’’عینک سازی‘‘ نہ کرتے ہوئے صرف ’’سخن شماری‘‘ کرنے پر ہی تکیہ کرتے تھے۔
داغؔ سے تعلقِ خاص کی کئی وجوہات تھیں جن میں پیش پیش خاندانی پیوستگی تھی۔ غالب کی اہلیہ امراؤ بیگم کے والد مرزا الہیٰ بخش خان معروفؔ اور نواب شمس الدین احمد خان کے والد نواب احمد بخش خان بھائی تھے مرزا داغ ؔ ، شمس الدین احمد خان کی اولاد نرینہ تھے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply