شہید ہونا ہو تو لوٹ آؤ۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

میں نماز عصر کے لیے ایک مسجد کی پہلی صف میں کھڑا ہوا ( مساجد ہی اتنی زیادہ ہیں کہ اکثر مساجد میں دو ڈھائی صفوں سے زیادہ بنتی ہی نہیں) ساتھ والے نمازی نے مجھے کچھ کہا۔ سمجھ نہ آئی۔ گردن موڑی تو انہوں نے اپنی گردن کے اشارے سے ہی میری شلوار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا “پاؤنچے”۔ میں نے “جی” کہا اور شلوار اڑس لی۔ “ہور تانہہ نوں کرو” وہ بولے۔ میں نے کہا “ٹھیک ہے بھائی”۔ “گناہ ہوندا اے” انہوں نے اطلاع دی۔ خیر پوری نماز کے قیام کے دوران موصوف کا دایاں ہاتھ اپنی داڑھی اور چہرے پر پھرتا رہا۔ قعود میں دونوں ہاتھ رانوں سے اٹھا کر اپنے کف اڑستے رہے۔ موصوف کو اس سے کوئی گناہ نہیں پہنچتا تھا البتہ شلوار کے پائینچے ٹخنوں سے اوپر ضرور اٹھے ہونے چاہییں۔

میں نماز پڑھتے ہی اٹھ کر چلا گیا کیونکہ وہ صاحب درس سننے کے لیے امام کے نزدیک تر ہو رہے تھے۔ مجھے خدشہ تھا کہ میں انہیں پلو زمین کے ساتھ گھسرانے کی منطق اور توجیہہ سمجھانے کی سعی نہ کر بیٹھوں۔ لکیر کے فقیر لوگوں کو سمجھانا آسان تو ہوتا ہی نہیں الٹا وہ آپ کے گلے بھی پڑ سکتے ہیں۔

سبھی جانتے ہیں کہ ساتویں صدی میں کارخانے نہیں تھے۔ کھڈیوں پہ بنا جانے والا کپڑا خاصا مہنگا ہوا کرتا تھا۔ پھر دیبا و حریر و ریشم تو بہت ہی زیادہ مہنگے ہوتے تھے۔ نئے مسلمان ہونے والوں کی اکثریت نادار لوگوں کی تھی۔ کفار قیمتی لباس ، وہ بھی دو بالشت لمبا کرکے زمین پر گھسراتے ہوئے چلتے تھے اور اپنے غروروتمکنت کا اظہار کرتے تھے۔ شاید عام لوگ بھی اپنے کم قیمتی لباس کو دو نہیں تو ایک بالشت لمبا کر لیتے ہوں۔ فیشن تو ہر زمانے کا ہوتا ہے۔ فرمایا یہ گیا تھا کہ ایسے لوگوں سے مختلف انداز اختیار کرو۔ بچت بھی ہو اور تمکنت و غرور کا اظہار بھی نہ ہو۔ آج کپڑا عام ہے۔ باہر میری شلوار ٹخنوں سے نیچی ہی رہے نماز پڑھتے ہوئے میں اسے ٹخنوں سے اوپر کرکے نیفہ ضرور اڑس لوں۔ اس میں کوئی منطق نہیں البتہ عقیدت ضرور ہے کہ جیسا اس دور کے مسلمانوں کا لباس اونچا ہوتا تھا ویسا ہی اونچا کر لیا جائے۔ اس کے برعکس عربوں کا جو لمبے کُرتے کا سا ملبوس ہے، وہ تو اڑسا ہی نہیں جا سکتا۔ میں نے حج کے موقع پر زیب تن کرکے دیکھا تھا اسے بھی۔

کہنے کا مطلب ہے کہ لوگوں نے عقیدے پر چلنے کی بجائے رسوم پر چلنے کو زیادہ اہمیت دینا شروع کر دی ہے ۔ ملبوس کو اڑسنا اس رسم کی نقل ہے جو تب رائج ہوئی تھی۔ مگر کیا کیا جائے، مذہب سے متعلق اس قسم کے معمولات کا چلن ماسوائے عرب ملکوں کے دوسرے ملکوں میں بھی ہوتا جا رہا ہے۔ میں ماسکو کی تاریخی مسجد میں نماز جمعہ کے علاوہ نماز ظہر بھی باجماعت ادا کرتا ہوں کیونکہ یہ مسجد میرے دفتر کے نزدیک ہے۔ وہاں کے آئمہ (ایک سے زیادہ نائب امام بھی ہوتے ہیں) عالم ہوتے ہیں۔ ان میں سے سبھی کی پتلونیں اسی طرح لمبی ہوتی ہیں، جس طرح وہ سلی ہوتی ہیں البتہ قفقاز کے بنیاد پرست علاقوں سے آئے ہوئے نمازی پتلونوں کے پائنچے بھی اڑستے ہیں۔ نماز کے وقفوں کے دوران منہ میں مسواک پھیر کر اسے واپس جیب میں بھی رکھ لیتے ہیں اور انتہائی مناسب فضا میں بلا ضرورت عطر بھی ہاتھ پہ لگانے کی خاطر ایک دوسرے کو پیش کرتے ہیں۔ میں انہیں بھی عطر لگانے کی منطق نہیں سمجھاتا۔ ان زمانوں میں پانی کی بہت زیادہ کمی ہوتی تھی۔ مسجد کا ہال چھوٹا ہوتا تھا۔ گرمی بہت ہوا کرتی تھی، ایئر کنڈیشنر تو کیا شاید ہاتھ والے پنکھے بھی نہ ہوتے ہیں۔ نمازیوں کے پسینے کی بو سے نماز میں خلل پڑا کرتا تھا تو عطر لگانے کو کہا جاتا تھا۔ آج سبھی دن میں ایک سے زیادہ بار نہا سکتے ہیں اور ماسکو میں تو ویسے بھی بہت سردی کے باعث پسینہ آتا ہی نہیں۔

اسلام سمیت تمام مذہبوں میں جو بھی احکام ہیں ان کی باقاعدہ منطق اور دلیل ہے لیکن کچھ ایسے عوامل ہیں جو رسوم کے زمرے میں آتے ہیں۔ مثلاً “مسواک کرنا” پاکستان میں خاص طور پر شہروں میں اتنا زیادہ عام نہیں جتنا پاکستان کے دیہاتوں، سعودی عرب اور قفقاز کے نمازی افراد میں۔ کعبے کی جانب پاؤں نہ کرکے بیٹھنے کی ریت بھی ہندوستانی ریت ہے۔ مسجد الحرام میں اور روس کی مساجد میں آپ لوگوں کو کعبے کی جانب ٹانگیں دراز کیےعام بیٹھے دیکھ سکتے ہیں۔ باوجود منطق کو سمجھنے کے ایک روز مجھ سے بھی نہ رہا گیا اور میں بھی ٹانگ سیدھی کرکے بیٹھے شخص کو ٹانگ سکیڑنے کی تلقین کر بیٹھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ خیر سے مفتی ہیں اور کہا کہ یہ علاقائی طور پر رائج تعظیم کا حصہ ضرور ہوگا لیکن شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

لیکن آجکل کیا کِیا جائے، جب ہر شخص نے نہ صرف شریعت کی اپنے طور پر توضیح کی ہوئی ہے بلکہ کچھ نکات اپنے طور پر بھی شامل کر لیے ہوئے ہیں  اور ان کے استناد بارے بضد ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج جب کسی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا پاکستان لوٹ آنے کو دل نہیں کرتا تو میں نے کہا کہ جناب امیر المومنین ضیاءالحق کے بعد اس ملک میں سب سے بڑا جو عذاب طاری ہوا ہے وہ عدم برداشت کا وجود بلکہ شہرہ ہے اس لیے اگر کسی کو شہید ہونے کی تمنا نہیں ہے تو وہ لوٹنے سے گریز ہی کرتا ہے۔ پھر کون جانے کہ کون شہید ہے اور کون بے قصور مقتول۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply