ادب کی راہداریاں اور بدلتے وقت۔۔گُل

روایت پسند اور جدت پسند طبقوں کی ہر سماج میں ہمہ وقت جنگ جاری رہتی ہے – دونوں حلقے اپنے اپنے بیانیے کو لے کر مخالف کو مات دینے میں جتے رہتے ہیں۔ایسی ہی نوعیت  کا ایک واقعہ سنہ ۲۰۱۵ ہیورتھ (Haworth )میں برونٹے سوسائیٹی(Bronte Society) کی انتظامیہ کے ارکان میں پھوٹ پڑنے والی لڑائی کا ہے جھگڑا اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ معلوم اور محسوس ہونے لگا جیسے آپ ود رنگ ہائیٹ کے ماحول میں جی رہے ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تقریباً دو صدیاں قبل جب “برونٹے سوسائیٹی” کی بنیاد رکھی گئی اس کا مقصد برونٹے سسٹرز کی زندگی اور ان کے کام سے متعلق تمام اشیاء ،افکار ، اور ا ن کی زندگی میں ان پر گزرے حالات کو نہ صرف محفوظ بنایا جانا تھا بلکہ ان کی ترویج کرنا بھی شامل تھا -اور اس کو ایسے ہی انجام دیا جانے لگا-
خیر مذکورہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب جدت پسند ارکان نے سپر ماڈل لیلی کول کو ود رنگ ہایئٹز کے کلیدی کردار کا مؤجب بننے والی شخصیات کی سنہ ۱۸۴۰ کے لندن کی تاریخی کتب میں تلاش اور تشہیر کا نمائندہ بنا دیا ،انتظامیہ میں روایت پسند ارکان نے اس پر شدید احتجاج پرپا کر دیا اور سوسائٹی کی روزمرہ کی انجام دہی مفلوج کر دی گئی سالانہ اجلاس کے دوران ایک لمحہ وہ بھی آیا جب سوسائیٹی کے سنہ ۲۰۱۵ کے سالانہ اجلاس میں اختلافی سوچ رکھنے والے ڈائریکٹر کی لڑائی ہاتھا پائی تک پہنچ گئی ! ایسے لگ رہا تھا کہ ود رنگ ہائیٹز کا ماحول اور کردار حقیقی زندگی کا روپ دھار چکے ہوں ! روایتی حلقے کے نزدیک جدت پسند اس نوع پر سوچ بھی کیسے سکتے ہیں لِلی کول کا ادب سے کیا لینا دینا ہے وہ کیمبرج کالج سے تاریخ میں گریجویٹ کرنے کے بعد ماڈلنگ سے وابستہ رہیں اور ۲۹ سالہ سپر ماڈل اپنی ذاتی علاقائی اور عالمی شہرت رکھتی ہوگی لیکن برونٹے سسٹرز کے ادبی سفر اور فکر کی ترویج نہ کر سکیں گی – جدت پسند اس پر مصر تھے کہ دور حاضر کے مطابق نوجوانوں اور دنیا میں اپنے رویئے اور  انداز کی وجہ سے اپنے وضع کردہ مقاصد میں ناکام رہیں گے ۔نفرت اور بدلہ لینا کیا ہوتا ہے ا جلاس نےاچھی طرح سب کو آشنا کر دیا ، اندرونی اختلافات برونٹے سوسائٹی کے لئے کوئی اجنبی شئے نہیں ہیں ایک نہیں کئی دہائیوں سے اس منفی شہرت کا چرچا آۓ روز بڑھ ہی رہا تھا
آئی مصیبت کو کون ٹال سکتا تھا، ! بونی گری (Bonnie Greere ) جو اجلاس کے صدارتی کرسی پر براجمان تھیں انتہائی اطمینان سے اٹھیں اور اپنی سینڈل اتار کر کانفرنس پر پٹخ دی اور گویا ہوئیں
“یہ سینڈل جمی چو (Jimmy choo ) نے خاص میرے لئے بنائی تھی آج اس کا صحیح مقصد معلوم ہوا ہے” اور ایک سینڈل پہنے ہوئے اپنا استعفی دے کر کانفرنس ہال اور برونٹے سوسائیٹی کو ہمیشہ کے لئے لئے خیر آباد کہہ گئیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply