• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دامن کو ذرا دیکھ(چوبیس آیاتِ قرآنی کے اخراج کا مطالبہ)۔۔حصّہ دوم/پروفیسر سید عاصم علی(کناڈا)

دامن کو ذرا دیکھ(چوبیس آیاتِ قرآنی کے اخراج کا مطالبہ)۔۔حصّہ دوم/پروفیسر سید عاصم علی(کناڈا)

دامن کو ذرا دیکھ(چوبیس آیاتِ قرآنی کے اخراج کا مطالبہ)۔۔حصّہ دوم/پروفیسر سید عاصم علی(کناڈا)/قدیم ملکی باشندوں اور آریہ دھرم سے باہر والوں کو یجر وید میں دشمن اور بے دین قرار دیا جاتا ہے اور غیر ملکی آریوں کو تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ ملکی باشندوں کے خلاف اگنی سے پرارتھنا کریں کہ:
۱۹ “… ۔ دشمنوں سے دولت کے جیتنے والے، غیر آریوں کو مارنے والے آپکو بہادروں کی فوج راج دھرم کی تعلیم سے منور کرے۔” ( یجروید، ۱۱:۳۴ ،ع ح و)
۲۰۔”۔۔۔تمام علوم کا جاننے والا،سوریہ کی طرح دشمنوں کو مارنے اور دشمنوں کے شہروں کو تہس نہس کرنے والے، آپ کو منور کرتا ہے، ویسے ان آپکو سب عالم لوگ علم اور حکمت سے ترقی دیں۔” ( یجروید، ۱۱:۳۳)
۲۱۔ “اے اگنی ،دشمن گروہوں کو زیر کرو اور دشمنوں کو دور کرو اے ناقابل شکست بے دینوں کو قتل کرو۔ “( یجروید، ۹:۳۷۔ ع ح و)
۲۲۔ “یہ اگنی ہمیں دولت دے اور جنگ میں دشمنو ں کو قتل کرتے کرتے آگے بڑھے۔ یہ اگنی جنگوں کو جیتے خوراک حاصل کرنے کیلئے ، یہ دشمنوں کو جیتے بہت خوش ہو کر۔”( یجروید، ۴۴:۷۔ع ح و)
آگے دیکھئے! اگر اتفاق سے شیر وغیرہ یا زنجیریں سر دست میسر نہ آسکیں تو ایسی صورت میں اذیت کیونکر پہونچائی جائے، یہ مشکل بھی ویدوں نے آسان کر دی ہے:
۲۳۔ “۔۔۔وہ جس سے ہم دشمنی کریں اور جو ہم سے دشمنی کرے ہم اسکو ان پانی اورہواؤں کے ایذا رساں منہ میں ڈال دیں، ویسے تم لوگ بھی ڈال دو۔”۔( یجروید، ۱۵:۱۸)
یعنی انکو کنویں، تالاب، دریا یا سمندر میں ڈبوڈبو کر ماریں مگر کسی صورت زندہ بچ کر نہ جانے دیں۔چنانچہ،گجرات کے قتل عام میں گھروں میں پانی بھر کر اور اس میں کرنٹ دوڑا کر مذہبی نعروں کی گونج میں تڑپا تڑپا کر لوگوں کو مارا گیا تھا اور یہ واقعہ کسی وحشی دور کا نہیں بلکہ اسی اکیسویں صدی کا ہے۔ اب یہ کس قسم کی مذہبی تعلیمات کا نتیجہ تھا آپ درج بالا منتر کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں۔

اب ذرا بعض اُن آیاتِ قرآنی کی اخلاقیات بھی ملاحظہ کرتے چلیں جن کے اخراج کا مطالبہ ہے:
۱۔ اور لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو لڑتے ہیں تم سے۔ مگر کسی پر زیادتی مت کرو۔بیشک اللہ ناپسند کرتا ہے زیادتی کرنے والوں کو۔ اور ان سے لڑو جہاں پاؤ اور نکال دو انکو جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا۔اور فتنہ پردازی لڑنے سے زیادہ بری ہے۔ اور نہ لڑو ان سے کعبے کی مسجد کے پاس جب تک کہ وہ خود ہی تم سے وہاں نہ لڑنے لگیں۔ لڑو ان سے یہاں تک کہ باقی نہ رہے فساد اور حکم ہوجائے اللہ کا۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو۔کسی پر زیادتی جائزنہیں سوائے ظالموں کے……پھر جس نے تم پر زیادتی کی تم اس پر زیادتی کرو جیسی کہ اس نے زیادتی کی، اور ڈرتے رہو اللہ سے اور جان لو کہ اللہ ساتھ ہے پرہیز گاروں کے۔ (البقرۃ ۱۹۴ ۔۱۹۰)
۲۔…… اور کفار تو ہمیشہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ تم کو پھیر دیں تمہارے دین سے اگر قابو پاویں ……(البقرۃ ۲۱۷)
۳۔ اور لڑتے رہو ان سے یہاں تک کہ نہ رہے فساد اور ہو جائے حکم سب اللہ کا۔ پھر اگر وہ باز آ جائیں تو اللہ انکے کام کو دیکھتا ہے۔ اور اگر وہ نہ مانیں تو جان لو کہ اللہ تمھارا حمایتی ہے، کیاخوب حمایتی ہے اور کیا خوب مددگار۔ (الانفال ۴۰ )
۴۔اور کیا وجہ ہے کہ تم الله کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے واسطے اپنے ہاں سے کوئی حمایتی کر دے اور ہمارے واسطےاپنے ہاں سے کوئی مددگار بنا دے۔(النساء۷۵)
۵۔ اور تیار کرو ان سے لڑائی کے واسطے قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے، کہ اس سے دھاک پڑے اللہ کے دشمنوں پر اور تمھارے دشمنوں پر اور دوسروں پر انکے سواجن کو تم نہیں جانتے اللہ انکو جانتا ہے……اور اگر وہ جھکیں صلح کی طرف تو تم بھی جھکو اسی طرف اور بھروسہ کر واللہ پر بیشک وہی ہے سننے والا جاننے والا۔اور اگر وہ چاہیں کہ تم کو دغا دیں تو تم کو کافی ہے اللہ…… (الانفال ۶۲)
۶۔اور اگر بت پرستوں میں سے کوئی تم سے پناہ مانگے تو اسکو پناہ دیدویہاں تک کہ وہ سن لے کلام اللہ کا۔پھرپہنچادو اسکو اسکی امن کی جگہ، یہ اسواسطے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے۔ (التوبۃ ۶)
۷۔سو جب تک وہ تم سے سیدھے رہیں تم ان سے سیدھے رہو بیشک اللہ کو پسند ہیں احتیاط والے۔ (التوبۃ ۷)
۸۔ کیا تم نہیں لڑتے ایسے لوگوں سے جو توڑیں اپنی قسمیں اور فکر میں رہیں کہ رسول کو نکال دیں اور انھوں نے پہلے چھیڑ کی تم سے۔کیا ان سے ڈرتے ہو سو اللہ کا ڈر چاہئے تم کو زیادہ اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ پس لڑو ان سے تا کہ عذاب دے اللہ انکو تمہارے ہاتھوں اور رسوا کرے اور تم کو ان پر غالب کرے…… (التوبۃ ۱۴)
اسی کے ساتھ قرآنی آیات میں یہ تاکید بھی برابر جاری ہے:
۹۔ تم کہو، اے اہل کتاب آؤ ایک بات کی طرف جو برابر ہے ہم میں اور تم میں …… (آل عمران ۶۴)
۱۰۔ اور تمھارے لئے کسی قوم کی دشمنی، جو تم کو کعبے والی مسجد سے روکتی تھی، تم کو اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ اس پر زیادتی کرنے لگو۔ اور آپس میں مدد کرو نیک کام پر اور پرہیزگاری پر۔ اور مدد نہ کرو گناہ پر اورظلم پر، اور ڈرتے رہو اللہ سے…… (المائدۃ ۲)
۱۱۔اے ایمان والو! اٹھ کھڑے ہوا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو انصاف کی۔ اور تمھاری جانب کسی قوم کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف کو چھوڑ دو۔ انصاف کرو کہ یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ سے۔ اور ڈرتے رہو اللہ سے، اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کرتے ہو۔(المائدۃ ۸)
یہ تو ظاہر ہے کہ ان تمام آیات میں ایکیشور وادیوں (مؤحدین)کو جنگ کا حکم دیا جارہاہے، مگر کس سے اور کس صورت میں اور کس حد تک؟۔ اُن لوگوں سے جو مؤمنین کے جانی دشمن ہوں، انکے عقیدے کو دنیا سے مٹا دینا چاہتے ہوں، انکا قتل عام کرتے ہوں، انکی بستیاں اجاڑتے ہوں اور انکے گھروں سے انکو نکال دیتے ہوں، عام بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہوں، بظاہر صلح اور آشتی کا عہد کرتے ہوں اور بباطن عہد شکنی کرتے ہوں اور فتنہ اندازی کے مواقع کی تلاش میں رہتے ہوں اور ایکیشور وادیوں اور ایکیشور واد (توحید)کی بیخ کنی پر ہمہ وقت کمر بستہ اور آمادۂ جارحیت ہوں، اورسب سے بڑھ کر یہ کہ لڑائی میں ہمیشہ پہل کرتے ہوں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اسی شدت سے یہ قرآنی تاکید بھی برابر جاری ہے کہ ان پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی انھوں نے تم پر کی اس سے زیادہ نہیں، اور اگر وہ فتنہ وفساد سے باز آجائیں تو تم بھی فوراًہاتھ روک لواس لیے کہ یہ دھرم، pietyاور برہمچریہ (تقویٰ و پرہیزگاری) کا تقاضا ہے۔ ہر حال میں عدل پر قائم رہنے کی تاکید برابر جاری ہے۔ مزید بر آں لڑائی میں پہل کرنیکی ترغیب ہمیں کہیں نہیں ملتی، اور الٹا لٹکا کر جلانے اور ڈبو کر مارنے اور درندوں سے پھڑوا ڈالنے کا تو نام و نشان نہیں۔ ویدوں والی جانبداری اور انتہا پسندی یہاں نہیں بلکہ بات میں توازن اور عدل کا عنصر حاوی ہے۔محدود ، دفاعی جنگ کا مقصد بھی فتنے کو فرو کرنا اور عدل قائم کرنا ہے،ملک گیری اور عیش کوشی نہیں۔چنانچہ جیسے ہی فتنہ تھم جائے ہاتھ روکنے کا حکم ہے۔صلح کی طرف جھکنے کی ترغیب ہے خواہ اسمیں دغا کا اندیشہ ہی کیوں نہ ہو۔ کیاسنگھی دانشوروں کے خیال میں فسادی حملہ آوروں کے متعلق قرآن کو یہ حکم دینا چاہئے تھا کہ اے ایمان والو! جب وہ تمھیں قتل کرنے آئیں تو خود ہی اپنی داڑھیاں اٹھا کر گردنیں سامنے کردینا، تمھارے گھروں سے تم کو نکالیں تو تم خود ہی گھر خالی کر کے باہر کھڑے ہو جانا، اور اگر تمھاری بستیوں میں آگ لگائیں تو تم فوراً ماچس، گیس کے سلنڈر اورپٹرول لا کر دے دینا؟
ویدوں میں دیگر مذاہب و نسل کے لوگوں کو تہس نہس کرنے اور انکی آبادیوں کو جلا کر راکھ کر دینے کا موضوع باربار آتا ہے، اور اسکی ایک عملی مثال رامائن میں بھی ملتی ہے یعنی مریادا پرشوتّم (مثالی انسان) شری رام چندر جی نے ایک ذاتی نوعیت کے جھگڑے کی بنیاد پر نہ صرف راون اور اسکے فوجیوں کو تہِ تیغ کیا بلکہ لنکا کے خوبصورت اور ترقی یافتہ ملک کو مع اسکے تمام باشندوں کے جلا کر راکھ کر آئے، در آنحالیکہ لنکا کے لاکھوں معصوم بوڑھے، عورتیں اوربچے راون کے عمل میں شریک نہیں تھے ۔ یوں وہ دلخراش المیہ پیش آیا جس کو “لنکا دَھَن” (دھن یعنی سپرد آتش کرنا) کہا جاتا ہے اور جسکا ہر سال دسہرے میں لنکا کو علامتی طور پر جلا کر ڈرامائی اعادہ کیا جاتا ہے۔ ذرا یادداشت تازہ کریں کہ مکہ پیغمبر اسلام ﷺکے جانی دشمنوں کا گڑھ تھا اور ان دشمنوں سے آپکی لڑائی عقیدے اور نظریات کی تھی، ذاتی نہیں۔ لیکن جب آپ ﷺ کو مکہ پر فتح نصیب ہوئی تو آپؐ نے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی معاف فرما کر رحمت للعالمین ہونے کی عملی مثال قائم کر دی۔ یہاں تک کہ دشمنوں کے سردار ابوسفیان، اسکی بیوی ہندہ، اور بیٹے معاویہ کو بھی معاف کر دیا، اور جب ان تینوں نے اسلام قبول کرنے کی پیشکش کی تو اسکو بھی گوارا کر لیا۔مزید برآں اسکے گھر کو دارالامان قرار دے دیا۔(واضح ہو کہ ہندہ نے آپ ؐ کے چچا حضرت حمزہؓ کی نعش کا مثلہ کیاتھا اور انکا کلیجہ کچا چبایا تھا اور ابو سفیان نے فتح مکہ سے پہلے آپؐ کی اہانت اور ایذا رسانی میں یہاں تک کہ جان لے لینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی صرف اس ضد میں کہ آپؐ ایکیشور وادکی بات کیوں کرتے ہیں)۔ اسکے برعکس شری رام چندر جی کی لڑائی ملکی، سیاسی، نظریاتی ، اخلاقی یا مذہبی نہیں تھی بلکہ ایک گھریلو معاملے پر تھی اور پھر لنکا کے تمام باشندے راون کے جرم میں شریک نہیں تھے، اسلئے اسکو ملنے والی سزا کے مستحق بھی نہیں تھے۔ لیکن غالباً ویدوں کی مندرجہ ذیل تعلیم کے سبب ہی ان سب کو برباد کردیا گیاہو گا۔ ملاحظہ ہو:
۲۴۔ ”اے طاقتور اور روشن ضمیرعالمِ انسان!جس طرح ہم لوگ روز بد اطوار لوگوں کے شہر کو آگ کی مانند مارنے والے تجھ خوبصورت ودّوان کو سب طرح سے دھارن کریں، اسی طرح تو ہم کو دھارن کر“۔ (یجروید۔۲۶: ۱۱)
۲۵۔ ”اے راجہ! جس طرح حفاظت کرنے والے عالم کا پاک شاگرد سکھ دینے والی آگ وغیرہ پدارتھوں کو حاصل کر کے ویدوں کے علم کو جاننے والا ہو کر۔۔۔ دشمنوں کو مارنے والا اور دشمنوں کے شہروں کو تباہ کر کے آپ کے جاہ و حشمت کو دوبالا کرتا ہے اسی طرح دیگر ودّوان لوگ بھی آپ کو ودّیا اور رونے سے ترقی دیں“۔ (یجروید۔۳۳: ۱۱)
گویا دوسرے مذاہب والوں کی بستیوں میں آگ لگاکر راکھ کر دینا اور انکو تباہ و برباد کرنا’روشن ضمیر انسانوں‘ اور ویدوں کے عالموں کا “فرض منصبی” ہے۔ ہمارے دیش میں غالباًاسی لئے گزشتہ اورموجودہ صدی میں روشن ضمیری اور فرض شناسی میں خاصا اضافہ ہو ا ہے اور اب تویہ روشن ضمیری اپنی انتہاؤں کو پہنچتی معلوم ہوتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، بلکہ کچھ منتر یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگر اخلاقی قید سے بے پروا ہو کر اور ہر جائز و ناجائز طریقے سے دیگر مذاہب والوں کا قتل عام کیا جائے تو اس سے ابدی راحت میسر آتی ہے:
۲۶۔ ”۔۔۔اے الوہیت کی خواہش رکھنے والے انسان!۔۔۔ جس طرح بھی دشمنوں کو ہلاک کیا جاسکے اسی قسم کے کاموں کو کر کے ابدی راحت سے زندگی بسر کر“۔ (یجروید۔ ۱:۲۸)
۲۷۔ ”اے عالم انسان! جس طرح میں خدا کے ویدی کلام کی مدد سے بد کرداروں کی گردن کاٹتا ہوں… ویسے تو بھی کر“۔ (یجروید۔ ۵:۲۳)
اسکے برخلاف، قتل کے بارے میں قرآن کا فرمان یہ ہے:
“جو کوئی قتل کرے ایک جان کو بلا عوض جان کے یا بغیر فسادکے ملک میں تو گویا قتل کر ڈالا اس نے ساری انسانیت کو اور جس نے زندہ رکھا ایک جان کو تو گویا زندگی دے دی ساری انسانیت کو…… “(المائدۃ ۳۲)
واضح ہو کہ یہ قرآنی وعید ایک انسانی جان کے بارے میں ہے نہ کہ ایک مسلمان کی جان کے۔ اس آیت کی مزید تائید میں رسول اکرمؐ ﷺ نے عین جنگ کے دوران بھی شہریوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں، اور معذوروں کے قتل سے ، املاک کی بے دریغ تباہی سے، فصلوں کے جلانے سے اور جانوروں کےبے دریغ قتل سے منع فرما دیا۔ کسی کی جان قانونی طور پر لینا صرف ایک صورت میں جائز رکھا گیا کہ قتل کا ارتکاب کیا گیا ہو یا فساد پھیلا کر بہت سی جانوں کو خطرے میں ڈالا گیا ہو۔ چونکہ فساد پھیلانا کثیر تعداد میں زندگیوں کو اتھل پتھل کردیتا ہے ا س لیے اسکو خدا اور رسول سے دشمنی کے مترادف گردانا گیا ہے اور جیسا جرم شدید ہے ویسے ہی اسکی سزا شدید ۔
راحت ابدی حاصل کرنے اور روشن ضمیر بننے کا یہ فر ض وید مقدس نے عورتوں پر بھی اسی طرح عائدکیا ہے جس طرح مردوں پر۔ بلکہ عورتوں کی ذمہ داری کچھ زیادہ ہی بڑھی ہوئی ہے۔ اسلیے کہ مرد تو آس پاس کے دشٹوں کو مارتے ہی رہتے ہیں مگر عورتوں کو دور دراز کے مقامات کا طویل سفر طے کر کے وہاں رہنے والے غیر ہندوؤں میں سے ایک کو بھی مارے بغیر نہیں چھوڑنا ہو گا۔ قتل عام کرنے کا حکم عورتوں کوبایں الفاظ ملتا ہے:
۲۸۔ ”اے تیر اندازی میں ماہر، ویدوں کے ماہر کی تربیت یافتہ ، اے سپہ سالار کی استری! تو میدانِ جنگ کی خواہش کرتی ہوئی دور دراز کے علاقوں میں جا کر دشمنوں سے لڑائی کر اور انکو مار کر فتح حاصل کر۔ تو ان دور دیش میں ٹھہرے ہوئے دشمنوں میں سے ایک کو بھی مارے بغیر مت چھوڑ“۔ (یجروید۔ ۱۷:۴۵)
چنانچہ ہم نے ٹی وی اسکرین پر دیکھا تھا کہ گجرات کے قتل عام میں ویدک یا ہندو خواتین (جن میں اچھے گھرانوں کی بھی شامل بتائی گئیں) کس طرح بڑھ چڑھ کرلوٹ مار میں حصہ لے رہی تھیں۔
وید مقدس کے مطابق غیر مذہب والوں یا بد اطوار لوگوں کی تباہی و بربادی میں اور انکے قتل عام میں پرماتما کو بھی اتنی ہی روچی ہے جتنی کہ اسکے بھگتوں کو۔ یہ دعائیں ملاحظہ ہوں:
۲۹۔ ”اے جگدیشور (رب العالمین)! ……میں بدکردار دشمنوں کی ہلاکت کیلئے ۔۔۔آپکو اپنے دل میں قائم کرتا ہوں“۔ (یجروید۔۱:۱۷)
۳۰۔ ”ہے پرمیشور!۔۔۔ میں دشمنوں کی ہلاکت کیلئے آپ کو دل کے مرکز میں قائم کرتا ہوں ……بار بار اپنے دل میں قائم کرتا ہوں“۔ (یجروید۔۱:۱۸)
۳۱۔ اے ورُن! آپکی سلطنت میں ہم لوگوں کیلئے پانی اور اناج وغیرہ نباتات سریشٹ متِر(پکے دوست) کی مانند ہوں۔ اور جو ہم لوگوں سے دشمنی رکھتا ہو، یا جس سے ہم لوگ دشمنی رکھتے ہیں، اسکے لئے جل اور اناج سب کے سب دکھ دینے والے دشمن کی مانند ہوں“۔ (یجروید۔ ۶:۲۲)
یعنی ویدوں کو ماننے والا دشمنی کرے یا نہ ماننے والا، دونوں صورتوں میں ویدوں کو نہ ماننے والے کو ہی اُن چیزوں سے محروم کر دینے کی دعا مانگی جارہی ہے جو خدا اپنے بد سے بد تر بندوں بلکہ حیوانات کو بھی عطا کرتا ہے۔ اس تنگ نظری اور تُھڑ دِلی والی دعا کے نتیجے میں، جو پرماتما گویا خود بندوں کو سکھا رہا ہے، مندرجہ ذیل ظالمانہ رویہ ہی پیدا ہو سکتا ہے:
۳۲۔ ”مجھ کو چاہئے کہ کوشش کر کے بد اطواراور بد کردار انسان کی بیخ کنی کروں۔ اور جو دان دھرم وغیرہ سے خالی، ظالم بدکردار دشمن ہیں، …انکی صریحاً بیخ کنی کروں“۔ (یجروید۔۱:۷)
۳۳۔”تم اے اندر اور پروت دیوتا ہمارے آگے لڑنے والو، تم اس شخص کو جو ہم پر فوج کشی کرے اسکو مارو۔ ہتھیار کے ساتھ اسکو مارو۔۔۔ کچلنے والا ہمارے دشمنوں کو چاروں طرف سے کچل دے اے بہادر سب طرف سے انکو کچل دے۔ “ (۸:۵۳۔ع ح و)
۳۴۔”جو ہم سے دشمنی کرے اور جو ہم سے ہتک آمیز دشمنی کرنے والا شخص ہے اور ہم کو مارنا چاہتا ہے ان سب کو بھسم کرو۔” (۱۱:۸۰۔ع ح و)

  ۳۵۔ “چیر ڈال، پھاڑ ڈال، ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ اُدھیڑ ڈال، تباہ کردے، اسکو پوری طرح تہس نہس کر دے۔ انگرسی! تباہ کردے اس بدبخت رذیل کو جو برہمنوں کو دکھ دیتا ہے۔” (اتھرو وید، کانڈ ۱۲، سوتر ۵، منتر۵۲)

۳۶  ۔”اگنی اس قابل نفرت بدمعاش کو جلا ڈالے، جسکو تو نے ذبح کر دیا ہو، روند ڈالا ہو۔” (اتھرو وید، کانڈ ۱۲، سوتر ۵، منتر۶۱)
۳۷۔(دیانند کے بقول وید کا انکار کرنے والے کو) “تو چیر ڈال، پھاڑ ڈال، ریزہ ریزہ کر دے۔ اچھی طرح قیمہ بنا دے۔ جھلسا دے، جلا دے، جلا کر خاک کردے۔ آپ اس برہمن کے بدخواہ کو کاٹ ڈالیں، بوٹی بوٹی کر دیں،خوب  اچھی طرح کاٹیں۔ جلائیں، اور زیادہ جلائیں، خوب اچھی طرح جلائیں۔”(اتھرو وید، کانڈ ۱۲، سوتر ۵، منتر۶۲)

۳۸ ۔”آپ خداؤں کی توہین کرنے والے، فرائض سے لاپروا، برہمن کو نقصان پہونچانے والے پاپی مجرم کے سر اور کندھوں کو سینکڑوں نوکوں والے، انتہائی تیز دھار چُھرے جیسے ہتھیار سے چھید ڈالیں،اسکے شانوں کی ہڈیوں اور سر پرشدید ترین ضربیں ماریں۔ اسکے بالوں کو کاٹ ڈالیں اور اسکی کھال کو ادھیڑدیں۔ اسکی ہڈیوں پر کے گوشت کو بوٹی بوٹی کاٹ ڈالیں اور اسکے عضلات کے بندھنوں کو کچل ڈالیں۔اسکی ہڈیوں کو کوٹ کر سرمہ بنا دیں اورانکو کوٹ کر گودا باہر نکال دیں۔ اسکے سارے اعضاء، جوڑ جوڑ اور بند بند کو اکھاڑ دیں۔” (اتھرو وید، کانڈ ۱۲، سوتر ۵، منتر۶۴۔۷۱)

ویدمقدس کی ان تمام آیات کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہندُتواکے احیاء کے اس کل یُگ میں انسانی جانوں کو بے دریغ تلف کرنے، انکی املاک اور بستیاں تباہ کرنے اور انکو زندہ آگ میں جھونکنے ، انکی بیخ کنی کرنے، اور انکو بدترین ایذائیں دیکر مارنے پر اتنا زور کیوں ہے۔ اگر سنگھی دانشور کہیں کہ یہ قرآن کی چوبیس آیات کی وجہ سے ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن تو اس دیش میں صرف ایک ہزار سال پہلے آیا (اور دنیا میں صرف چودہ سو سال پہلے) جبکہ لڑائی دنگے، چھوت چھات،ستی،بد ترین تشدد، انسانی و حیوانی قربانی اور فتنہ و فساد کی روایت یہاں نا معلوم مدت سے قائم چلی آتی ہے۔ تمام بڑی بڑی لڑائیاں جیسےشری رام چندر جی اور راون کی لڑائی (“رامائن”) جس میں پورے ملک لنکا کو مع اسکے لاکھوں باشندوں کے آگ میں بھون دیا گیا، شری کرشن کی برپا کردہ کورو اور پانڈو کی کُرکشیتر والی لڑائی (“مہابھارت”) جس میں کہا جاتا ہے کہ صرف اٹھارہ دن میں ایک ارب چھ کروڑ ساٹھ لاکھ بیس ہزار لوگو ں کو تہِ تیغ کردیا گیا، علاوہ ازیں، دیگرمقدس ہندو کتابوں میں مذکور اَن گِنت دوسری لڑائیاں جو بھگوانوں کے بیچ بھی ہوئیں اور انسانوں کے بیچ بھی،سب کی سب اسوقت ہوئیں جب دنیا میں قرآن نام کی کوئی کتاب نہیں پائی جاتی تھی اور نہ حضرت محمدﷺکے پیروکار ہی موجود تھے اورنہ خود آپؐ ہی دنیا میں تشریف فرما ہوئے تھے۔ مزید برآں، مختلف ہندو راجاؤں کے درمیان مستقل چلتی رہنے والی لڑائیوں کا ایک پورا سلسلہ ہے۔مثلاً سرسوتی جی “ستیارتھ پرکاش” (ترجمہ۹۳۴ ۱) میں ہندو تاریخِ کشت و خون درج کرتے ہیں جسکا سلسلہ انکے بقول تقریباً چارہزار سال کو محیط ہے:
”راجہ کشیمک کے وزیر اعظم وشروا نے راجہ کشیمک کو مار کر ……راجہ ویر سال سین کو ویر مہاپردھان نے مار کر ……راجہ آدتیہ کیتو مگدھ کے راجہ کو پریاگ کے راجہ دھن دھر نامی نے مار کر……راجہ راج پال کو اسکے باجگذار مہال پال نے مارکر……راجہ وکرم آدتیہ نے راجہ مہال پال کو مار کر……راجہ وکرم آدتیہ کو سمدر پال یوگی پیٹھن نے مار کر ……راجہ ملکھ چند نے راجہ وکرم پال کو مار کر……راجہ دامودر سین نے اپنے امراء کو بہت ستایا اسلئے اسکے مشیر دیپ سنگھ نے راجہ کو مار کر……پرتھوی راج چوہان نے جیون سنگھ کو مار کر……راج کیا“۔اور درمیانی وقفوں میں ان ’مارنے والوں‘کی نسلوں نے راج کیا۔ (ص ۳۷۸۔۳۷۵)۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

پہلی قسط کا لنک

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply