عدم اعتماد کا شور ۔۔معاویہ یاسین نفیس

گذشتہ دو ہفتوں سے سیاسی حلقوں ، عوامی مقامات پر تحریک عدم اعتماد سے متعلق بحث جاری ہے۔
عوام کا ایک کثیر طبقہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو گھر بھیجے جانے کا خواہاں ضرور ہے مگر اپوزیشن میں سے چند سرکردہ قائدین دبے لہجوں میں اس تحریک کی مخالفت کرتے نظر آرہے ہیں۔

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ان حالات میں عوام عمران خان کی حکومت کو مزید برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہے۔بیڈ گورننس ، مہنگائی کے امڈتے طوفان نے عوامی حمایت سے اس حکومت کو یکسر محروم کردیا ہے۔صورتحال یہ ہے کہ حکومتی نمائندے بہی عوامی غیض وغضب سے بچنے کے لئے عوامی حلقوں میں جانے سے گریزاں ہیں۔

خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخاب کے پہلے مرحلہ میں عمران خان کی حکومت کے لئے جو عوامی غم و غصہ مشاہدہ میں آیا بلاشبہ اسی طرح کا غم و غصہ پنجاب سمیت پاکستان بھر میں پایاجارہاہے۔فرق یہ ہے کہ کے پی کے میں اسکا اظہار ہوچکاہے باقی صوبوں میں اظہار باقی ہے۔

اسی صورتحال کو کیش کرنے کی غرض سے پیپلز پارٹی اس آئینی طریقہ کار پرمصر رہی ہے کہ اس حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجاجائے،گو کہ اپوزیشن میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کو گھر بھیجے جانے پر اختلاف تھا اور ہے لیکن بہرحال تمام اپوزیشن جماعتیں فی الحال اس نقطہ پر یکجا ہوگئیں ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اس حکومت کو گھر بھیجنے کی کوشش کرکے دیکھ لیاجائے۔اپوزیشن نے نمبر گیم پورا کرلیا یا نہیں ،یہ تحریک کامیاب ہوگی یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔

وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے اور اسے ناکام بنانے کے سلسلے میں حزب اختلاف و اقتدار اپنے اپنے طور پر متحرک نظر آرہے ہیں اور فروری کا آخری اور مارچ کا پہلا ہفتہ سیاسی طور اہم ہے۔مجھے اس موقع پر نپولین کا وہ قول یاد آرہاہے جو اس نے آسٹرڈز کی لڑائی میں کہا تھا۔کہ “جب دشمن خود غلطیاں کررہاہو تو اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہیے۔”
یہ حکومت اور اسکے وزراء ہی اپنے تابوت میں خود آخری کیل ٹھوکنے کے لئے کافی ہیں۔میری دانست میں ایسے موقع پر جب اپوزیشن کے دو گروہوں نے الگ الگ طور پر حکومت کے خلاف لانگ مارچ کے پروگرامات ترتیب دئیے ہوئے ہیں ایسے حالات میں تحریک عدم اعتماد گھبرائی ہوئی حکومت کو نہ صرف وقتی طور پر غیر یقینی کی صورتحال سے نکلنے میں معاون اور مددگار ثابت کرے گا بلکہ اس کا نقصان بلاواسطہ طور پر ن لیگ کو بھی اٹھانا پڑسکتاہے ۔

پیپلز پارٹی 27 فروری کو لانگ مارچ کا آغاز کرنے جارہی ہے ، جبکہ ن لیگ نے دیگر اتحادیوں کے ساتھ 23 مارچ کی تاریخ دی ہوئی ہے۔
اس دوران اگر تحریک عدم اعتماد کے لئے پیپلز پارٹی نمبر گیم کے پورے ہونے کا دعوی کرتے ہوئے ایوان میں تحریک پیش کرنے پر زور دے تو سیاسی طور پر پی ڈی ایم اتحاد کو اسکا نقصان اٹھانا پڑیگا
اور اس تحریک کے ذریعے سیاسی فوائد پیپلز پارٹی سمیٹ کر سائیڈ پر ہوجائیگی۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں خفیہ ہاتھ کے عمل دخل کے امکان کو ہرگز رد نہیں کیا جاسکتا۔عوام کا ایک طبقہ اس ثاثر کو زائل تسلیم نہیں کریگا کہ تحریک عدم اعتماد اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر کامیاب یا ناکام ہوئی ہے۔اگر یہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو تحریک “ووٹ کو عزت دو” کہاں کھڑی ہوگی ؟
اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟
کیا اپوزیشن کی کوئی جماعت ان حالات میں حکومت لیکر پی ٹی آئی حکومت کی ساڑھے تین سالہ ناکامیوں کو اپنے نام کریگی؟

یہاں یہ بات بھی قابل غور ر
ہے کہ اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی،یہ ہوپائے  گی یا نہیں یہ تو آنیوالا وقت ہی بتائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اپوزیشن کو عوامی طور پر اس حکومت کے خلاف محاذ آرائی تخلیق کرنی چاہیے اور اسے پانچ سال کا ٹائم فریم مکمل کرنے دینا چاہیے تاکہ تبدیلی کے اس گھوڑے سے مکمل روح پرواز کرجائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply