حضور کب تک، افسانوی مجموعہ “گونجتی سرگوشیاں پہ ایک تبصرہ “۔۔صباح کاظمی

ان گونجتی سرگوشیوں نے کہنے سے زیادہ بولنے پر اُکسایا ،کہا کہ وہ سب بول دو جو ہم جیسی کروڑہا عورتیں ہونٹوں میں دبائے دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں۔ اس کتاب کی تخلیق میں ان سات حساس لیکن نڈر لڑکیوں نے حصہ ڈالا ہے۔ ان کی جرات کو ہم سلام پیش کرتے ہیں اور آرزو کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے۔

کتاب میں موجود بہت سی کہانیاں اور جملے رکنے اور رک کر سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کم سنی کی شادیاں، چھوٹے بچوں سے زیادتی ، مذہب کی جبری تبدیلی، عورت کے احساسات سے کھلواڑ، ہیجڑوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک، عورت کا زندگی اور مردانہ معاشرے کو دیکھنے کا زاویہ۔ عورتوں کے گوں نا گوں مسائل کے ساتھ ساتھ ماہواری کے حوالے سے زندگی کو اجیرن بنا دینے والا معاشرتی رویہ جب سامنے آتا ہے تو دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک افسانے میں برقع پوش خاتون نقاب اور دستانے پہنے جب خریداری کے دوران اپنے شوہر کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے فون نمبر والی پرچی کسی کو پکڑاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑی جاتی ہے اور مصنفہ اسے لعن طعن کرنے کے بجائے یا اسے گناہ گار و بدکار قرار دینے کی بجائے اس کے عمل کو قید بےجا سے رہائی پانے کی سعی قرار دیتی ہے تو قاری کے دماغ میں کئی نئے در وا ہو جاتے ہیں۔

نسائی ادب بین الاقوامی طور پر اپنا الگ وجود رکھتا ہے چند لوگ کہتے ہیں کہ ادب کی صنفی تقسیم درست نہیں اچھی بات ہے لیکن اگر خواتین ادباء اپنی صنف کے متعلق لکھتی ہیں یا اپنے جذبات و مشاہدات کو ایک عورت ہونے کی حیثیت سے بیان کرتی ہیں تو یقین مانیں وہ جو لکھیں گی وہ حقیقت سے قریب تر ہو گا۔

ہمیں غور کرنا ہوگا کہ خواتین کی تعلیم اور خواتین کے شعور کو جگانے والے ہر عمل اور راستے پر ہمیشہ پہرے کیوں بٹھائے جاتے رہے ہیں؟ انسانی سماج نے ہمیشہ عورت کو پردوں میں چھپا کر کیوں رکھنا چاہا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ زمانے کے سقراطوں اور افلاطونوں نے عورت کو ہمیشہ اپنی نظر سے دیکھا اور اپنے دماغ سے ہی سمجھنا چاہا؟
اور ان کے تخیل نے انہیں عورت کے لب و رخسار و گیسو کے وہ وہ رنگ کھلائے کہ وہ سب کچھ تیاگ کر بدن کے سونے، آنکھوں کے ہیرے اور لبوں کے یاقوت کے بے بہا خزانے کو چھپانے میں جت گئے۔

اور ان میں سے ہر ایک دوسرے مرد کو چور لٹیرا اور رقیب مان کر اس خزانے پر ناگ بن کر پہرا دینے لگا۔بیچاری عورت نے آنکھ جھپکی اور اس اللہ کے ولی کو سدرہ تک فرشتے تیر نظر کا شکار ہوتے دکھائی دیئے۔ عورت کا سانس چاہے دمے سے ہی پھولا مگر اسے اس زیروبم میں تحت الثریٰ ہلتے دکھائی دیئے۔ راہ چلتی کسی مسافر عورت نے رک کر رستہ پوچھا اس مہاشے پر شش جہت تنگ ہو گئے۔ دنیا کی تمام کتابیں اٹھا کر دیکھ لیجئے مرد نے سب سے زیادہ عورت پر ہی لکھا ہے۔ کبھی مذہب کے پیچھے چھپ کر اور کبھی روایت کی آڑ لے کر عورت کو ایک سمجھ نہ آنے والی پہیلی بنا دیا ہے۔ ساتھ ہی کچھ عورتوں کو رشتوں کا لبادہ پہنا کر ایک طرف بٹھا دیا اور باقی سب سے ہمہ وقت برسر پیکار ہو گیا۔ جس عورت تک پہنچنے کی راہ اس کے تخیل نے دکھایا اسے محبوبہ بنا لیا اور جو کسی دوسرے مرد کے قریب بیٹھی نظر آئی اسے فاحشہ قرار دے دیا۔ عورت نے وفا نبھائی مرد نے اسے زندان کی زنجیریں پہنائیں۔ عورت نے خدمت گزاری میں جان دے دی مرد کو اس میں بھی سازش دکھائی دی۔

جی چاہتا ہے ان مردوں سے خصوصا اپنے معاشرے کے مردوں سے بنِتی کروں کہ عالی جاہ! اپنے آلودہ فہم کے جالے اتاریئے۔ اپنے شعور کو جلا بخشییے۔ حضور دنیا نے چاند تارے سرکر لئے اور آپ کی ساری صلاحیتیں عورت کے سر پر اگے بالوں کو ڈھکنے میں ہی لگی ہوئی ہیں۔
حضور کب تک یہ عورتیں اپنی بیٹیوں کو اپنے آنسو اور آپ کے بیٹوں کو خون جگر پلاکر پالتی رہیں گی؟

عالی جاہ آخر یہ روایت رسم و رواج کا وظیفہ کب تک چلے گا اور یہ غیرت غیرت کا الاپ آپ کب تک کرتے رہیں گے کب تک سارے معاشرے کی عزت کی گٹھڑی عورت کے کندھوں پر رکھے رہیں گے۔
کب تک اپنی پگڑی اس کے گلے سے باندھ کر اسے گھسیٹتے پھریں گے حضور اب بس کر دیں اس کی گردن آزاد کردیں اس کا ہاتھ تھام کر اسے اس کے پاؤں پر کھڑا ہونے میں اس کی مدد کریں۔ آپ دونوں کو قدرت نے ایک دوسرے کی مدد کرنے اور ایک دوسرے کی قوت بڑھانے کے لیے پیدا کیا ہے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے نہیں اور ہاں یہ گوشت اور کتے والی مثال دینا تو بند کیجیے۔ سر! خود کو اتنا تو نہ گرائیے کہ مولانا حالی اس دور میں ہوتے تو کہہ اٹھتے
“کتوں” سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

جناب اب بس بھی کیجیئے، جانے بھی دیجئے آخر کب تک یہ عورتیں اپنے زیر جامے آپ سے چھپا کر دھوئیں گی اور پردوں میں رکھ کر سکھائیں گی۔ آپ کو یہ کس نے سکھایا ہے کہ الگنی پر لٹکتی انگیا کو دیکھ کر آپ کے جذبات مشتعل ہو جانے چاہئیں؟ یقین مانیں ایسی لغویات سکھانے والوں کی گردنیں ناپنے کا وقت آ پہنچا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اُٹھیے۔  اس سامری کے طلسم کو توڑ دیں اور اپنے گروی رکھے ہوئے شعور کو ان جادوگروں سے آزادی دلوائیں۔ اس کو اپنے جیسا انسان مان لیں اور اپنی زندگی آسان کر لیں عالی جاہ بِنتی کرتی ہوں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply