بے ضرر آئینی ترمیم، دو تہائی اکثریت لینے کا آسان نسخہ ۔۔اعظم معراج

پاکستان کی سینٹ قومی اور صوبائی اسمبلیوں ،بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان 1282میں سے 257خواتین،اقلیتیں اور ٹیکنوکریٹ کی نشستوں پر اگر براراست انتحابات کا نظام وضع کرلیا جائے تو آنے والے چند سالوں میں ایک سیاسی، معاشرتی وسماجی انقلاب برپا ہوسکتاہے ۔ خواتین، اور اقلیتں خود مختار بھی ہونگی۔ اور دو تین ناموں کے علاؤہ بھی قومی سطع کی سینکڑوں ہزاروں خواتین لیڈر بھی ابھر کر سامنے آئیں گی ۔
جویہ آئینی ترمیم لائیں گے۔ آگلے الیکشن میں دو تہائی اکثریت پائیں گے۔۔ ۔۔کیونکہ وہ اک استحصال کا نظام مکائیں گائیں۔۔یقین مانیئے وہ سماجی انقلاب لائیں گے۔اور مدتوں سیاسی مسحیا کہلائیں گے۔۔فارمولا اقلیتوں کو تو دوہرا ووٹ اور خواتین کے لئے اس سمیت دوسرے کئی آپشن بھی ممکن ہیں ۔ ۔۔۔بس مقصد کے حصول کے لئے درکار عرق ریزی اور تھوڑی سی نیک نیتی۔۔چاہئیے۔۔ آئینی ترمیم سے گھبرانا نہیں چاہئیے ۔۔چند گھرانے اپنے مفادات اور آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے ڈرانے سے بھی۔۔ تو یہ نیک کام کرلیتے ہیںِ۔۔ تو پھر کروڑوں خواتین اور لاکھوں اقلیتی شہریوں کی بہتری کے لئے بھی اک
” بے ضرر ترمیم ” بے ضرر پر زور اس لئے کے یہ کسی کے بھی مفادات سے متصادم نہیں کرلیں ۔ سوائے صرف چند گھرانوں کے ۔۔۔فائدے لاتعداد لیکن ان خاندانوں کا بھی ایسا نقصان نہیں ہونے والا کیونکہ پارٹی ٹکٹ تو وہ دیتے ہیں ۔۔لیکن اگر کوئی اقلیتی مرد قلندر یا انقلابی خاتون ان گھرانوں سے ہٹ کر اپنی سیاسی شناخت بنانا چاہے یا چاہے گی، تو اس کے پاس موقع تو موجود ہوگا۔ ۔۔۔۔ ویسے تو سینٹ کے انتخابات بھی برارارست کروانے کا بھی کوئی نظام بھی وضع ہونا چایئے کیونکہ جو خرید وفروخت سینٹ الیکشن دنوں میں ہوتی ہے ۔۔وہ بھی جمہوریت کے ساتھ ایک شرمناک مذاق ہوتا ہے ۔ لیکن مجال ہے ۔جو چاروں ریاستی ستونوں میں سے کسی ایک کے نمائندے نے اس پر کبھی بات بھی کی ہو، خصوصاً چوتھے غیر آئینی ستون کے نمائندوں کی بےحسی چپ ناقابل فہم ہے ۔اگر کوئی بھی سیاسی جماعت یا حکومت یہ بےظرر سا انقلابی قدم اٹھا لیے اور اسکی صحیح تشہیر کرلے تو خواتین کے کروڑوں اور اقلیتوں کے لاکھوں ووٹروں کی ہمدردیاں انکے ساتھ ہونگی ۔۔جوکہ لینڈ سلائیڈ وکٹری کی وجہ بن سکتی ہیں۔۔بس پہل کریں ۔نیک نامی ہی نیک نامی اور دو تہائی سے بھی بڑی فتح ۔۔اگر ان ترامیم پر عرق ریزی سے کام کرلیا جائے تو ہزاروں حوا زادیاں تنظیم سازی جیسے مکروہ طریقوں سے ایوانوں میں داخلے جیسے عمل سے اور پیسے والے اقلیتی سیٹیں خریدنے سے اور غریب اقلیتی سیاست بلکہ خود نمائی کے شوقین سگ گیری جیسے غیر انسانی فعل جسے صاف اردو میں خوشامد کہا جاتا ہے۔۔ سے اور معاشی دہشت گرد سینٹ کی نشستوں کے گھناؤنے کاروبار سے بچ سکتے ہیں ۔۔اور معاشرے میں حقیقی معاشرتی انقلاب لایا جاسکتا ہے ۔۔۔۔
آئیں اس بے ضرر آئینی ترمیم پر سوچ بچار کریں یہ شجر ممنوع نہیں آئین بنانے والوں نے معاشرے کے کمزور پسے ہوئے پسماندہ طبقات ، اقلیتوں کی بحالی کے لئے آئین کے پری ایمبل (تمہید)میں ہی اسے بیان کردیا تھا۔۔جوکہ کچھہ یوں ہے۔۔
Wherein adequate provision shall be made to safeguard the legitimate interests of minorities and backward and depressed classes.
ترجمہ’
“جس میں اقلیتوں اور پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے۔”
یقین مانیے اگر مختلف ادوار میں آئین کے اس پری ایمبل کی روح سے اقلیتوں اور خواتین کو دی گئی رعائیتی نشستوں کے لئے شفاف ،اورانصاف پر مبنی ایسا نظام وضع کر دیا جائے وہ لوگ بھی حصہ لیں جنکے نام پر یہ نشستیں مخصوص کی گئی ہیں۔۔اور جس سے استحصالی طبقات ان کمزور، پسے ہوئے پسماندہ طبقات کا استحصال بھی نہ کرسکیں اور ان رعایتی نشستوں کو لوگ خیراتی نشستیں سمجھنا اور کہنا بھی بند کردیں۔
ہاں موجودہ حکومت والے وزیر، مشیر یا انکے ہمدرد صاحب علم ،دانشور،اینکرپرسنز،لکھاری،یا دیگر ان پر اثر رسوخ رکھنے والے اگر انھیں یہ سادہ سی بات خود سمجھ کر انھیں سمجھا دیں تو ٹھیک ورنہ اپوزیشن تک یہ بات پہنچی۔اور ان میں سے کسی کو سمجھ بھی آ گئی، تو انھوں نے تو پریس کانفرنسوں یا جلسوں میں جھوٹے سچے وعدوں کی بنیاد پر ہی یہ ووٹ سمیٹنے کی کوشش کرنی ہے ۔۔لہذا جلدی کریں ۔۔حکومتوں کو اپوزیشن پر جو برتری حاصل ہوتی ہے۔۔۔ اسے مثبت استمال کرنے کا اس سے آسان نسخہ کوئی ہو نہیں سکتا۔جس طرح آپ لوگوں نے اوور سیز پاکستانیوں کو چند لاکھ ووٹوں کے لئے ووٹ کا حق دیا ہے۔۔ اسی طرح خواتین و اقلیتوں کے کروڑوں ووٹوں کے لئے یہ بھی کر گذریں ۔۔یقین مانیئے یہ کروڑوں یقینی ووٹوں کے ساتھ ساتھ یہ انقلابی ترمیم ملک، قوم ،معاشرے سماج میں ایسی تبدیلی لائے گی۔۔ جو کرنے والے کو تاریخ میں زندہ رکھنے کا سبب ہوگی ۔۔
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply