• صفحہ اول
  • /
  • رپورٹ
  • /
  • اکابرینِ دارالعلوم کراچی سے ملاقاتیں (1)۔۔محمود احمد ظفر

اکابرینِ دارالعلوم کراچی سے ملاقاتیں (1)۔۔محمود احمد ظفر

شکارپور (صوبہ سندھ) میں “جامعۃالحسنین شکارپور” کے نام سے مولانا فرحان احمد سومرو کے زیر ِاہتمام معیاری دینی ادارہ قائم ہے۔ دارالعلوم کراچی سمیت مختلف معیاری دینی درسگاہوں (جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن، جامعہ فاروقیہ وغیرہ) کے فضلاء یہاں درس و تدریس، تعلیم و تعلم اور سیکھنے سکھانے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کافی عرصہ سے خواہش تھی کہ اکابرینِ دارالعلوم کراچی کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی کارگزاری/ رپورٹ پیش کرکے ان سے راہنمائی و سرپرستی فرمانے کی درخواست کی جائے۔

چنانچہ جامعۃالحسنین کے صدر کے ایماء پر مولانا انیس احمد اور بندہ نے ایک رپورٹ تیار کی، جس میں جامعۃالحسنین کا مختصر تعارف، تمام شعبہ جات، ادارے کی خصوصیات ، اساتذہ و طلبہ اور دیگر عملے کی تعداد درج تھی۔ اس کے ساتھ ایک درخواست بھی منسلک کی گئی ، جس میں اکابرینِ دارالعلوم سے سرپرستی و راہنمائی فرمانے کی گزارش کی گئی تھی۔ ایک خصوصی رپورٹ تھی جسے ہم نے مولانا زبیر اشرف عثمانی صاحب زیدمجدہم کے سامنے پیش کرنا تھا،اس میں سرپرستی فرمانے کی گزارش کی گئی تھی۔ دوسری عمومی رپورٹ تھی جِسے دیگر اکابرین دارالعلوم کراچی کے سامنے پیش کرنا تھا۔

چنانچہ اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تین رکنی ٹیم( مولانا فرحان احمد سومرو، مولانا انیس احمد اور بندہ راقم الحروف، فضلاء : جامعہ دارالعلوم کراچی) نے گزشتہ شب منگل بنام خدا سفرِ کراچی شروع کیا۔

منگل کی صبح آٹھ بجے کے قریب ہم کراچی میں تھے۔ مولانا انیس صاحب کے گھر مختصر Stay کیا (مولانا انیس صاحب کراچی کے رہائشی ہیں۔ لیکن ان کی قربانی ہے کہ بغرضِ تدریس شکارپور میں مقیم ہیں) موصوف کی جانب سے پُرتکلف ناشتہ پیش کیا گیا، ہم یہاں سے تازہ دم ہوکر جامعہ دارالعلوم کراچی کی جانب روانہ ہوئے۔ انڈس چورنگی سے دارالعلوم کراچی کا مینار دیکھ کر دل کی دھڑکن تیز ہو گئی  کہ اپنے اساتذہ/اکابرین کے سامنے پیش ہونا ہے اور اپنا مدعا ان کے سامنے رکھنا ہے۔ دل ہی دل میں دعائیں جاری تھیں کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوں۔ گیٹ پر ہماری گاڑی روک دی گئی، ہم نے اپنا کا تعارف کرایا کہ دارالعلوم کراچی کے فضلاء ہیں اور اکابرین سے ملاقات کی غرض سے حاضری ہوئی ہے۔ ہمیں با آسانی چھوڑ دیا گیا۔

ہم صبح ساڑھے دس دار العلوم میں داخل ہوچکے تھے۔ سب سے پہلے ہماری گاڑی کا رخ استاذ محترم شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدھم کے دفتر کی جانب تھا ، شیخ الاسلام صاحب کی مصروفیات کے پیش نظر ان سے ملاقات ہمارے سفر کا مقصد نہ تھا، اس لیے نماز ظہر کے بعد صرف زیارت پر اکتفا کیا۔ اگر کوشش کرکے مل بھی لیتے تو اندیشہ تھا کہ حضرت کو تکلیف نہ پہنچے۔ حضرت کے نام کا خط اور بطور ہدیہ جو شکارپور کی چند سوغاتیں لے آئے تھے وہ حضرت کے دفترمیں پہنچادی گئیں۔(اکابرینِ دارالعلوم کراچی کے خطوط میں جوابی لفافہ ضرور ڈالا کریں)

اس کے بعد ہمارا رخ دارالعلوم کے “دارالافتاء” کی جانب تھا جہاں حضرت مولانا مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب دامت برکاتہم سے ملاقات کرنا تھی۔

استاذ محترم مولانا مفتی عبد الرؤف سکھروی صاحب دامت برکاتہم اور دیگر اساتذہ/ مفتیانِ کرام سے ملاقات کی غرض سے ہم دار العلوم کے دلکش و دیدہ زیب دار الافتاء میں داخل ہوچکے تھے ۔
دار الافتاء کے استقبالیہ سے معلومات حاصل کرلی گئیں۔ ہمارے ساتھی مولانا انیس صاحب دارالعلوم کے متخصص فی الافتاء (2021) رہ چکے ہیں۔ ان کی دارالافتاء میں جان پہچان بھی تھی اور اکابرین/ مفتیانِ کرام سے ملاقات کا طریقہ کار بھی معلوم تھا اسلیے یہاں اکابر سے ملاقات میں زیادہ دقت پیش نہیں آئی۔

استقبالیہ کے ذمہ دار نے پرچی پر ہمارے نام اور سن فراغت لکھ کر مفتی عبد الرؤف سکھروی صاحب کی خدمت میں پیش کردیے کہ آپ سے ملاقات کی غرض سے آئے ہیں ۔ 10 یا 15 منٹ انتظار کے بعد مفتی صاحب نے ہمیں اپنے دفتر بلا لیا۔ دفتر میں داخل ہونے کے بعد حضرت کی نشت کے سامنے رکھی کرسیوں پر صرف سلام پر اکتفا کرکے بیٹھ ہی رہے تھے کہ حضرت نے خود ہی مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھائے، سو یہ سعادت بھی حاصل رہی۔ (اکابرینِ دارالعلوم کراچی سے ملتے وقت سلام میں پہل کریں۔ مصافحہ کرنے سے گریز کریں۔ ہاں اگر فرصت کا موقع ہے، اکابر مشغول نہیں ہیں یا خود ہی ہاتھ بڑھا رہے ہیں تو یہ سعادت بھی حاصل کرلیں۔)

سلام دعا اور مختصر تعارف کے بعد حضرت مفتی صاحب نے فرمایا بھئی مختصراً اپنے آنے کا مقصد بیان کرو ، دیکھ رہے ہو پیچھے تخصص کے طلبہ کی فتاویٰ چیک کرانے کے لیے لائن لگی ہوئی ہے، پھر میں اپنی بات آپ لوگوں کے سامنے رکھتا ہوں ۔

جامعۃ الحسنین شکارپور کے صدر مولانا فرحان احمد صاحب نے نہایت اختصار کے ساتھ اپنے دونوں اداروں کا تعارف پیش کیا، اور آنے کا مقصد بھی بتایا کہ اس حوالے سے حضرت کی راہنمائی ، نصائح ہمارے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوں گے۔

اس کے بعد حضرت نے ہمیں  چار چیزوں کی نصیحت فرمائی :

1- اخلاص

2- تقویٰ

3- توکل

4- صفائی ستھرائی
اور ہر ایک کی تفصیل بھی بیان فرمائی :

1-اخلاص : یعنی جو بھی کام کرو اللہ کی رضا کے لیے کرو، مقصد و محور خالق ہو ، مخلوق نہیں ۔

2-تقویٰ : گناہوں سے اجتناب، فرائض و واجبات کی ادائیگی۔ مدرسے کا مالیاتی نظام صاف و شفاف ہونا چاہیے۔ ایک ایک روپے کا حساب ہو۔ مدرسے کے مال میں خیانت سے بچیں۔ مدرسے کے نام پر جو صدقات، خیرات زکوٰۃ و عطیات ملیں انہیں صحیح صحیح طریقے سے اپنے مصرف میں خرچ کریں۔

3- توکل : اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہو۔ خالق سے مانگیں مخلوق سے نہیں۔ بھیک مانگ مانگ کر مدرسہ چلانا کوئی ضروری، فرض و واجب نہیں۔ عزت و وقار کے ساتھ چل رہا ہے تو فبھا۔ ورنہ تالا لگا دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

4-صفائی ستھرائی : مدرسے میں صفائی ستھرائی کا نظم بہت عمدہ اور معیاری ہونا چاہیے۔ کسی قسم کی کوئی گندگی نظر نہیں آنی چاہیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply