حکومت اور اپوزیشن مہربانی فرمائیں ۔۔آصف محمود

عمران خان اگر چاہیں کہ حزب اختلاف کا وجود ہی ختم ہو جائے، گلیاں سنجیاں ہو جائیں اور ان گلیوں میں صرف وفاقی وزراء پھرا کریں، تنقید کرنے والا کوئی نہ ہو اور ہر سو مرحبا مرحبا کی آوازیں ان کا استقبال کریں تو ظاہر ہے یہ ممکن نہیں اور اگر حزب اختلاف یہ چاہے کہ وہ باریاں لے لے کر اقتدار سے لطف اندوزہوتی رہے اور جمہوریت کی آڑ میں خاندانی آمریت مسلط کر دے لیکن کوئی گستاخ اس نا مبارک بندوبست کو چیلنج کرنے والا نہ ہو اور عمران خان کی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے اور وہ صرف ورلڈ کپ اور پی ایس ایل میں کمنٹری کیا کریں تو ظاہر ہے یہ بھی ممکن نہیں۔ جب کوئی ایک گروہ کسی دوسرے گروہ کا خاتمہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتا تو کیوں نہ ان سے درخواست کی جائے کہ ملک کو درپیش مسائل کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کو ” ناگزیر برائی” سمجھ کر ہی برداشت کر لیں ۔

انتہا پسندی صرف یہ نہیں ہوتی کہ کوئی مذہبی گروہ قانون ہاتھ میں لے لے، اہل سیاست بھی اگر ایک دوسرے کے وجود کی کامل نفی پر اتر آئیں تو یہ انتہا پسندی ہوتی ہے۔ کہ عمران خان اور ان کے وابستگان کے نزدیک پاکستان کی ہر برائی کے ذمہ دار نواز شریف اور آصف زرداری ہیں، یہ ماضی کے حکمرانوں کی ہجو کہتے ہیں تو اس شان سے کہتے ہیں گویا پاکستان کی ساری تاریخ میں نواز شریف اور آصف زرداری کے علاوہ اور تو حکمران آیا ہی نہیں اور اب جتنے بھی مسائل ہیں ان دو کے پیدا کرہ ہیں۔ یہی حال حزب اختلاف کا ہے۔ انہیں باہمی اختلاف اب بھول چکے ہیں کہ کس نے کس کو کس چوک میں کس رخ پر کس وقت کتنے عرصے کے لیے گھسیٹنا تھا اور کس نے کس کا پیٹ کہاں سے پھاڑ کر لوٹی دولت نکالنا تھی۔ انجمن مفادات باہمی اور باریان باہمی کے مفاد کو ایک شخص نے چیلنج کیا اور یہ مشترکہ دکھ میں اکٹھے ہو گئے۔ چنانچہ ان کے نزدیک پاکستان کی ہر خرابی کا ذمہ دار عمران خان ہے اور یہ ایسے تاثر دیتے ہیں جیسے عمران خان سے پہلے تو لاڑکانہ سے شہد کی ایک نہر نکل کر لاہور کی طرف آتی تھی اور لاہور سے شہد کی نہر ڈیرہ اسماعیل خان کی جانب بہتی رہتی تھی۔ حکومت کے نزدیک حزب اختلاف میں شر کے سوا کچھ نہیں اور حزب اختلاف کے خیال میں عمران خان میں کسی خوبی کا کوئی امکان موجود نہیں۔

یہ دونوں گروہ انتہا پر جا کھڑے ہوئے ہیں اور دونوں کا اپنا اپنا سچ ہے جو ان کے مفادات کے عین مطابق ہے۔ مفاد کی خاطر دونوں جھوٹ بولتے ہیں اور مستقل مزاجی دونوں میں ایسی شاندار ہے کہ جھوٹ پکڑے جانے پر ازرہ مروت بھی ان میں سے کوئی نادم نہیں ہوتا۔ دونوں جہاں کھڑے ہیں ڈٹ، کر کھڑے ہیں۔ اخلاقی اقدار سے بے نیازی بھی دونوں گروہوں میں ایک جیسی ہے۔ گفتگو کے آداب دونوں کے ہاں اجنبی ہو چکے ہیں۔ ہر صف ز بان بکف ہے اور ہر صف کا لشکری جب بولتا ہے تو سماعتیں چٹخنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہر گروہ کا بیانیہ سطحی ہے اور ہر ایک کے ہاں مقدر کا سکندر وہی ہے جو قیادت کی مدح سرائی میں مبالغہ آمیزی کی انتہاء کو چھو لے۔ دونوں گروہوں کا طرز بیاں مانند شعلہ دہکتا ہے۔ الفاظ کا انتخاب ہو یا متن کا، ہر دو گروہ ذوق، دلیل اور شائستگی کے تکلفات سے بے نیاز محسوس ہوتے ہیں۔ نامہ اعمال بھی قریبا ایک جیسا ہی ہے۔ ان میں کوئی ایک بھی اب ایسا نہیں جسے اخلاقی اعتبار سے کسی دوسرے پر ڈیڑھ پائو کی برتری حاصل ہو۔ سب نے وعدے کیے اور سب نے پامال کیے۔ کسی نے شرح بیان کرتے ہوئے کہہ دیا وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے اور کسی نے کہہ دیا یو ٹرن لینا تو اچھے لیڈر کی شان ہوتی ہے۔ انتخابی وعدے سبھی کے نزدیک اقوال زریں کی بے روح مشق کے سوا کچھ نہیں۔ وعدوں کی پامالی پر نادم ہونے کے تکلفات سے سبھی یکساں درجے میں بے نیاز ہیں۔ عذر گناہ سبھی کا ایک جیسا ہے۔ کوئی ایک گروہ اب ایسا نہیں جو یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ تو تقویٰ اور دیانت داری کے جزیرے پر خیمہ زن ہے اور اس کے سوا باقی سب چور ہیں۔ دونوں کے اجزائے تراکیبی بھی ایک جیسے ہیں۔ دونوں کا مطلوب و مقصود بھی ایک ہے۔

دونوں گروہوں کے سرکردہ افراد ایک جیسے سماجی اور معاشی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ عام آدمی پر پارلیمان کے دروازے دونوں نے بند کر رکھے ہیں۔ دونوں کی خواہش ہے رانجھا ان سے راضی ہو جائے اور صرف ان سے ہی راضی رہے۔ ان میں سے اقتدار کسی بھی گروہ کے پاس ہو، طاقت چند گھرانوں کے پاس ہی رہتی ہے۔ یہی گھرانے کبھی اِس طرف آ جاتے ہیں کبھی اُس جانب چلے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب کوئی فرق ہی نہیں تو اختلاف کیسا؟ اقتدار کے دستر خوان سے فیض یاب ہی ہونا ہے تو اس دعوت طعام کے کچھ اصول ہی بنا لیجیے۔ کم از کم ملکی سلامتی کے معاملات پر تو مل بیٹھیے اور کوئی اشتراک عمل کی صورت نکال لیجیے۔ ملک کی معیشت جس حالت میں ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ سیاسی عدم استحکام میں معیشت ٹھیک ہو ہی نہیں سکتی اور یہاں ہر مارچ میں مارچ کے اعلان ہو رہے ہوتے ہیں ا ور ہر ستمبر کو ستم گر قرار دیا جا رہا ہوتاہے۔ نظام تعلیم سے لے کر نظام قانون تک شدید اور فوری اصلاحات کا متقاضی ہے۔ فارن پالیسی کا آملیٹ بن چکا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ا س ساری خرابی کا ذمہ دار عمران خان ہے تو یہ بات انصاف پر مبنی نہیں ہو گی۔ یہ سب کا نامہ اعمال ہے جو ہمیں اس نہج تک لے آیا ہے۔ عمران نے تو آج خرابی کی ہو گی، آج تک جو قرض لیا گیا سوال یہ ہے کہ وہ کہاں گیا؟ ملک میں ڈھنگ کا ایک ایسا منصوبہ بتا دیجیے جو اس قرض سے بنایا گیا ہو اور جو آج زر مبادلہ کمانے کے کام آ سکے۔ مسلم لیگ ن کا آخری بجٹ دیکھ لیجیے۔ یہ بجٹ مسلم لیگ ن نے مئی 2018میں پیش کیا تھا۔ عین اس وقت جب ان کی حکومت ختم ہونے میں چند ہی دن رہ گئے تھے۔ اس سوال کو تو چھوڑ ہی دیجیے کہ مئی میں ہی جس حکومت کا خاتمہ ہو رہا تھا اس حکومت نے اسی مہینے اگلے پورے سال کا بجٹ کیوں پیش کر دیا تھا۔ ذرا یہ دیکھ لیجیے کہ وہ بجٹ تھا کیسا؟ بجٹ میں لکھا ہے کہ اس سال کے اخراجات پورے تب ہوں گے جب حکومت 13 ارب ڈالر قرض لے گی۔ یاد رہے کہ یہ اس وقت تک ایک سال میں لیا جانے والا پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا قرض تھا۔ اس بجٹ میں بیرونی قرض اور سود کی ادائیگیوں کے لیے مختص رقم دفاعی بجٹ سے بھی ز یادہ ہو چکی تھی۔ معیشت اگر عمران نے تباہ کی ہے تو ن لیگ ایسا بجٹ کیوں چھوڑ گئی تھی؟ حقائق کو سمجھنے کے لیے گروہی عصبیت سے بالاتر ہو کر ملک کا سوچنا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ اس بھاری پتھر کو کوئی اٹھا پائے گا؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply