• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دامن کو ذرا دیکھ(چوبیس آیاتِ قرآنی کے اخراج کا مطالبہ)۔۔آخری حصّہ ،چہارم/پروفیسر سیّد عاصم علی

دامن کو ذرا دیکھ(چوبیس آیاتِ قرآنی کے اخراج کا مطالبہ)۔۔آخری حصّہ ،چہارم/پروفیسر سیّد عاصم علی

اس پورے خطبے میں ظلم کی تعریف، عدل کی تعریف، استحصال کی تعریف، ملکیت و وراثت کی تعریف وغیرہ کہیں نہیں ملتی۔ البتہ تصور قتل کی تبدیلی کے ساتھ شری کرشن ارجن کو کشتری کا فرض یعنی جنگ کرنا یاد دلاتے ہیں، دھرم اور عزت کی بربادی کا احساس دلاتے ہیں، بدنامی اور بزدلی کے طعنے سے ڈراتے ہیں، موت کی صورت میں جنت کی خوشخبری اور فتح کی صورت میں شہرت،دولت اور حکومت کا لالچ دیتے ہیں، مگر اِس دنیوی زندگی میں عدل و انصاف و مساوات قائم کرنیکی کوئی تلقین نہیں کرتے۔ نسل پرستی، اونچ نیچ اور عیش و عشرت کو تج دینے کی تلقین بھی نہیں ملتی، بلکہ فرماتے ہیں کہ تو”اپنے لئے شہرت حاصل کر، اپنے دشمنوں پر فتح پاکر دولت سے بھری ہوئی حکومت حاصل کر (۳۳: ۱۱)“۔ خاص طور سے قتل کی نئی فلسفیانہ تعبیر سے موجودہ انسانی زندگی (یعنی روح و جسم کی یکجائی)کی اہمیت سرے سے ختم ہوتی محسوس ہوتی ہے اور قتل بچوں کا کھیل بن جاتا ہے۔ اوریہی وہ فلسفہ ہے جس نے بعض انسانوں کو بعض دوسرے انسانوں کی زندگی سے کھلواڑ کرنے پر جری کر دیا ہے۔ اور وہ بلا جھجھک انکے بوسیدہ کپڑے اتار کر،انکی ارواح کو ‘حیات ابدی’ سے ہمکنار کرکے، اپنے ‘عارف حقیقت’ ہونے کا ثبوت دینے میں لگے ہیں۔ پس نہ وہ ’قاتل‘ کہلاتے، نہ’قیدو بند‘ کی صعوبت اٹھاتے، نہ’افسوس‘ کرتے ہیں۔بلکہ گورو یاترائیں نکالتے ہیں۔
غیر مذہب والوں کو تو چھوڑیئے، خود اپنے ہم مذہب لوگوں کیلئے ہندوؤں کے استحصالی طبقے (یعنی غیر ملکی آریہ جو اپنے منہ سے خود کو اعلیٰ ذات کہتا ہے)نے گوتم دھرم شاستر (چھ سو سے چار سو قبل مسیح ) اور منوسمرتی (بارہ سو سے پانچ سو قبل مسیح) میں جو ظالمانہ ترین احکامات گڑھے ہیں اسکے سامنے ہٹلر کی یہود سوزی اور یہودیوں کی عرب کشُی اور عیسائی یوروپیوں کی ریڈ انڈین کشُی لڑکو ں کا کھیل معلوم ہوتی ہے۔واضح ہو کہ لفظ ’آریہ‘ بذات خود نسل پرستانہ اور متکبرانہ ہے۔ اسکا مطلب ہے ‘اعلیٰ یا اشرف انسان’۔ )یعنی وہی خبط جو آریہ ہٹلر اور قدیم ایرانیوں کو بھی تھا) ۔یعنی آریوں کے علاوہ باقی انسان ’اناریہ‘ یعنی ادنیٰ اور غیر شریف اور بدمعاش ہیں۔ لفظ ’اناڑی‘اِسی اناریہ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ دنیا کے وحشی ترین ممالک میں بھی کمزوروں پرشاید ہی اتنے مظالم ڈھائے گئے ہوں جتنے شودروں اور آدی باسیوں پر شانتی پریمیوں کے اس دیش میں ہندو مذہبی شریعت کی بنیادپر مسلسل ڈھائے جاتے رہے ہیں ۔ قرآن نے تو اصطلاحی ” کافر” انکو قرار دیا ہے جو ایک ایشورکی پوجاکرنے والے بھکتوں (مسلمانوں)اور ایکیشورواد (اسلام) کو نیست و نابود کرنے کیلئے جنگ و جدال پر اتر آئے ہوں اور انہی لوگوں سے محدود دفاعی جنگ کرنے کا حکم بھی ہے،باقی امن پسند غیر مسلموں سے نہیں۔ (یہ مسلمانوں کی سخت زیادتی ہے کہ وہ تمام غیر مسلموں کو بے احتیاطی کے ساتھ کافر کہہ دیتے ہیں،جبکہ قرآن تو یہ کہتا ہے کہ خود مسلمان بھی کفر و شرک کے مرتکب ہو سکتے ہیں) مگرہندو شریعت تو خودہندو دھرم ماننے والوں کے پر امن اور زبردستی خادم بنائے گئے طبقے کے ساتھ بدترین اور سفاکانہ ظلم کا حکم صادر کرتی، برہمن کی جابنداری کرتی اوربرہمن پرستی کی ترغیب دیتی ہے۔ مثال کے طور پر چند ہی اشلوک دیئے جا رہے ہیں:
۱۔ ”تمام پدارتھوں(اشیاء) میں جاندار افضل ہیں۔ جانداروں میں ذی شعور حیوان سب سے افضل ہیں۔ ان سب سے افضل انسان ہے۔ اور انسانوں میں سب سے افضل برہمن ہے۔“(منو سمرتی، ۹۶: ۱)
۲۔ ”پرمیشور نے خزانۂ د ھرم کی حفاظت کے واسطے بصورت براہمن نزول فرمایا ہے۔دنیا میں جسقدر اشیاء ہیں۔وہ سب برہمن کی ملکیت ہیں۔ چونکہ برہمن برہما جی کے مکھ (منہ)سے پیدا اور جنم سے افضل ہے۔اسلئے وہ ان تمام اشیاء کا مالک ہے۔” (منو سمرتی، ۹۹۔۱۰۰: ۱)
۳۔ ”برہمن کھشتری ویش کو چاہیے کہ وہ تدبیر کے ساتھ اس ملک ] آریہ ورت [میں رہیں۔ شودر لوگ بھوک پیاس کے مارے جہاں مرضی ہو مارے مارے پھریں۔“ (منو سمرتی، ۲۴: ۲)
۴۔ ”شودروں کے سے نام والی لڑکی سے شادی تک نہ کرنی چاہئے“۔ (منو سمرتی، ۹: ۳)  یعنی جسکا نام شودروں جیسا ہو ،چاہے وہ خود شودر نہ ہو۔ 
۵۔”شودر کی لڑکی کو اپنے پلنگ پر بٹھانے سے براہمن نرک (دوزخ) میں جاتا ہے۔۔۔” (منو سمرتی، ۳:۱۷)
۶۔ ”جس گاؤں میں شودر کا راج ہے اور جس میں اَدھرمی، پاکھنڈی، چانڈال آدمی ] یعنی نیچ غیر آریہ [فساد کرتے ہوں اس گاؤں میں نہیں رہنا چاہئے۔” (منو سمرتی، ۶۱: ۴)
۷۔”شودر کے لیے ایک ہی دھرم پربھونے ٹھہرایا یعنی صدق دل سے ان تینوں ورنوں(برہمن، کشتری، ویش) کی خدمت کرنا۔” (منو سمرتی، ۱:۹۱)
۸۔ ”شودر عورت کا منہ چومنے والے یا شودر عورت کے منہ کی ہوا لگنے سے یا ا س سے پیداشدہ اولاد کی کبھی شدھی نہیں ہو سکتی ۔ ایسے براہمن کا پرائشچت (توبہ) شاستر میں نہیں ہے (یعنی وہ پیدائشی اور ابدی ناپاک ہیں)۔” (منو سمرتی، ۱۹: ۳)
۹۔”سور سونگھے سے ، مرغا پر کی ہوا دینے سے ، کتا دیکھنے سے، شودر چھونے سے ناش (برباد)کرتا ہے۔”(منو سمرتی، ۳:۲۴۱)
۱۰۔ ”شودروں کو نہ عقل کی بات بتائے، نہ انکو یگیہ کا بھوجن دے، نہ انکو دھرم کا اپدیش دے، نہ انکو برت بتاوے۔“(منو سمرتی، ۸۰: ۴)
۱۱۔”شودروں کے پاس وید منتر نہ پڑھے۔”(منو سمرتی، ۹۹: ۴)
۱۲۔ ”جو شخص شودر کو دھرم کا اپدیش کرتا ہے۔ یا پرائشچت(توبہ) کرواتا ہے۔ وہ مع اس شودر کے جہنم کے سب سے نچلے طبقے (اسَمبَرَت)میں جاتا ہے۔“ (۸۱: ۴)
۱۳۔ ”اگر کوئی شودرکسی برہمن، کھتری یا ویش کو گالی دے تو اسکی زبان کاٹ ڈالنی چاہیے، اسلئے کہ شودر کی پیدائش ہی ناپاک ہے۔”(منو سمرتی، ۲۷۰: ۸)
۱۴۔ ”اگر کوئی شودر کسی برہمن یا کھتری کو اسکا نام لیکر بلائے تو اسکے حلق میں بارہ انگل( ایک فٹ )لمبی لوہے کی جلتی ہوئی میخ ٹھونک دینی چاہیے۔”(منو سمرتی، ۲۷۱: ۸)
۱۵۔ ”اگر کوئی شودر کسی برہمن کو دھرم کی بات کہے یا نصیحت کرے تو راجہ کو چاہیے اس شودر کے منہ اور کان میں ابلتا ہوا تیل ڈال دے۔”(منو سمرتی، ۲۷۲: ۸)
۱۶۔ ”اگر شودر لاٹھی یا ہاتھ سے مارے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے، اگر لات مارے تو اسکا پاؤں کاٹ دینا چاہیے۔“(۲۸۰: ۸)
۱۷۔ ”اگر کوئی شودر کسی دوئج (برہمن، کشتری یا ویش) کے برابر بیٹھے تو اسکی کمر میں داغ دیکر گاؤں سے باہر نکال دینا چاہئے یا اسکے چوتڑوں کو اسطرح تھوڑا سا کاٹ ڈالنا چاہئے کہ وہ مرنے نہ پاوے۔ بدن پر تھوکے تو دونوں ہونٹھ چھید ڈالے اور پیشاب کرے تو عضو تناسل کو کاٹ ڈالے اور براز کرے تو مقعد کو کاٹ ڈالے۔“
(منو سمرتی، ۲۸۱:۸۔۲۸۲)
۱۸۔”اگر کوئی انتیج (چانڈال یا انتہائی شودر) کسی دوئج کو مارے تو جس عضو سے وہ مارتا ہے اسکا وہ عضو کاٹ ڈالنا چاہئے۔یہ منو کا قانون ہے۔ ۔ “(منو سمرتی، ۲۷۹: ۸)
۱۹۔ ”اگر وہ (دوئج کے) بال پکڑے تو اسکے دونوں ہاتھ کاٹ ڈالے۔ اگر وہ پاؤں ، داڑھی، گردن، یا خصیوں کو پکڑے۔ تو بھی اسکے دونوں ہاتھ کاٹ ڈالنے چاہئے، یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ اسکو تکلیف ہو گی۔“(منو سمرتی، ۲۸۳: ۸)
۲۰۔”اگر شودر کسی آریہ عورت کے ساتھ مجرمانہ مجامعت کرے تو اسکے عضو تناسل کو کاٹ ڈالا جائے اور اسکی تمام ملکیت ضبط کر لی جائے۔” (گوتم دھرم شاستر، ۱۲:۲)۔ واضح ہو کہ اگر برہمن یہی عمل کسی شودر عورت کے ساتھ کرے تو اسکی یہ سزا نہیں ہے۔
۲۱۔ ”اگر شودر ہاتھ یا لاٹھی سے مارے تو اسکا ہاتھ کاٹ دیا جاوے۔ اگر لات مارے تو اسکا پاؤں کاٹ دینا چاہئے۔“ (منو سمرتی، ۲۸۰: ۸)
۲۲۔ “جو ہنسا اس دنیا میں وید کے حکم کے موافق ہے اسکو ہنسا یعنی جان کشی (جان کا مارنا) نہ جاننا چاہیے کیونکہ وید ہی سے دھرم نکلا ہے۔”(منو سمرتی، ۵:۴۴ )
۲۳۔ ”برہمن جب چاہے غلام شودر کا مال و دولت چھین لے۔ کچھ تذبذب نہ کرے۔ کیونکہ شودر کے لیے مال جمع کرنا ممنوع ہے ۔ وہ جو دولت فراہم کرے اس دولت کا مالک اسکا سوامی ہے۔ “(منو سمرتی، ۴۱۷: ۸)
۲۴۔”شودر سمرتھ بھی ہو مگر دولت جمع نہ کرے کیونکہ شودر دولت پا کر براہمن ہی کو تکلیف دیتا ہے۔” (منو سمرتی، ۱۰:۱۲۹)
۲۵۔ ”شودر کے لیے دوئجوں کا کوئی دھرم نہیں ہے۔ انکو دوئجوں کے سنسکاروں کی بھی اجازت نہیں ہے۔ وہ دھرم سے بالکل دور رہیں۔“ (منو سمرتی، ۱۲۶: ۱۰)
۲۶۔”شودروں کو ……وید منتروں کے پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہی انکے لئے تعریف کی بات ہے۔“(منو سمرتی، ۱۲۷: ۱۰)
۲۷۔ “اب اگر کوئی شودر ارادتاً ویدوں کا پاٹھ سنُ لے تو اسکے کانون کو پگھلے ہوئے ٹین یا لاکھ سے بھر دیا جائے۔ “(گوتم دھرم شاستر، ۲:۴ )
یہ محض نظری بات نہیں ہے بلکہ”والمیکی رامائن”۔(دیکھو آخری حصہ ‘اُتۤر کانڈ’) کےمطابق بھگوان شری رامچندر جی نے ‘شمبوک’ کو خود اپنے ہاتھوں صرف اس جرم میں ذبح کردیا تھا کہ اس نے آڑ میں چُھپ کر ویدوں کا پاٹھ سن لیا تھا ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان احکام پر سختی سےعمل ہوتا تھا۔ چنانچہ آگے دیکھیے:
۲۸۔ “اگر شودر ویدوں کی عبارات کو پڑھے تو اسکی زبان کاٹ ڈالی جائے۔” (گوتم دھرم شاستر،۱۲:۵)
۲۹۔”اگر شودر (ویدوں کی) ان عبارتوں کو یاد کرے تو اسکے جسم کو دو ٹکڑوں میں کاٹ دیا جائے۔”(گوتم دھرم شاستر، ۱۲:۶)
۳۰۔ ”شودر غلامی سے خواہ آزاد بھی ہو جائے مگر وہ خدمت خلق کے کام سے نہیں چھوٹ سکتا کیونکہ برہما نے اسکو پیدا ہی اس کام کیلئے کیا ہے۔” (منو سمرتی، ۴۱۴: ۸)
۳۱۔”۔۔۔براہمن اور کشتری اور ویشیہ کی سیوا شودروں سے کر ائے۔” (منو سمرتی، ۸:۴۱۰)
۳۲۔”عورت کے ساتھ بھوجن نہ کرنا اور جس وقت عورت کھاتی ہو یا چھینکتی ہو یا جما ہی لیتی ہو یا سکھ سے بیٹھی ہو تو اسکو نہ دیکھنا چاہئے۔” (منو سمرتی، ۴:۴۳)
۳۳۔”عورت نا بالغ ہو یا جوان یا بڈھی ہو۔ گھر میں کوئی کام خود مختاری سے نہ کرے۔” (منو سمرتی، ۵:۱۴۷)
۳۴۔ “عورت لڑکپن میں اپنے باپ کے اختیار میں رہے اور جوانی میں اپنے شوہر کے اختیار میں اور بعد وفات شوہر کے اپنے بیٹوں کے اختیار میں رہے۔ خود مختار ہو کر کبھی نہ رہے (۳: ۹)۔۔۔۔ کیونکہ عورتیں خود مختار ہونے کے لائق نہیں ہیں۔”(منو سمرتی، ۵:۱۴۸)
اونچ نیچ کے اس ظالمانہ نظام کی جڑیں ویدک دھرم یا ہندو مذہب میں اتنی گہری ہیں کہ اسکے بغیر اس دھرم کی ساری عمارت زمین بوس ہو جاتی ہے۔ اس نظام کو ہم ایک سماجی برائی کہہ کر نظر انداز یوں نہیں کر سکتے کہ اسکا مخرج برہما خود ہے۔ اس بےرحم نظام نے مذہبی اصولوں کے برخلاف نہیں بلکہ عین انکے سبب رواج پایا۔”گیتا” میں شری کرشن ذات پات کے نظام کی توثیق و تائید ان الفاظ میں کرتے ہیں:
۱۔”مختلف صفات اور اعمال کی تقسیم کی بناء پر چار ذاتوں کا ظہور مجھ ہی سے ہوا۔ مجھے انکا موجد سمجھ، گو میں غیر متحرک اور ختم نہ ہونے والا ہوں۔” (گیتا،۱۳: ۴)
۲۔”اے پارتھ!جو کوئی میری پناہ میں آتے ہیں خواہ گناہ انکی گھٹی میں کیوں نہ ہو اور خواہ وہ عورت ہو، ویشیا (طوائف) ہو یا شودر، وہ اعلیٰ مراتب کو پہنچتے ہیں۔”(گیتا، ۳۲: ۹)۔ خیال فرمائیں کہ اس فرمان ِکرشن میں عورت ، طوائف اور شودر کو ایک جیسا غلیظ مانا گیا ہے۔
۳۔”اے دشمنوں کو خوفزدہ کرنے والے!برہمن، کشتریہ، ویشیہ اور شودر کے فرائض کو اپنی فطرت سے پیداشدہ خواص کے بموجب تقسیم کر دیا گیا……خدمت کرنا شودر کا فطری فرض ہے…… جو فرائض پیدائش کی بنا پر متعین ہوئے ہوں اگر ان میں کوئی خرابی بھی ہو تو انکو ترک نہیں کرنا چاہئے۔”(گیتا، ۴۸۔۴۱: ۱۸)
اب ذرا ایک نظر تمام انسانوں کی ایک ہی اصل (uni-origin) اور انکی مساوی حیثیت کے متعلق قرآن کے ارشادات بھی دیکھتے چلیے جو نہ صرف مردوزن بلکہ تمام انسانوں کے درمیان عدم مساوات کی جڑ کاٹ دیتا ہے اور انکو برابر عزت و احترام کا مستحق قرار دیتا ہے:
۱۔اے لوگو! ڈرتے رہو اپنے رب سے جس نے پیدا کیا تم کو ایک جان سے اور اُسی سے پیدا کیا اُسکا جوڑا اور پھیلائے اُن دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں۔ (النساء:۱)۔
واضح ہو کہ ایک ہی مؤنث جان (یعنی نفس ) سے نَر اور مادہ پیدا کئے۔ اور ان سے لا تعداد مردو زن پھیلا دیے۔ قرآن کے مطابق آدم سے حوا کو پیدا نہیں کیا گیا۔ بلکہ ایک ‘مؤنث نفس’ سےاولین انسان اور اسکا جوڑا بنایا گیا ۔ قرآنی بیان میں “مذکر” کی تقدیم اور “مؤنث ” کی تاخیر کا تصور غیر موجود ہے، بلکہ جس ایک نفس سے ان دونوں کو پیدا کیا گیا وہ “مؤنث” ہے (خلق منھا زوجھا، النساء: ۱، یعنی ‘پیدا کیا اس مؤنث سے اسکا مذکرجوڑا’، نہ کہ خلق منہ زوجتہٗ) ۔ قرآن میں لفظ حوا سرے سے آیا ہی نہیں۔ یہ آدم کی پسلی سے حوا کو پیدا کرنے کا عقیدہ یہودیوں کی بائبل میں ہے ، قرآن میں نہیں، جسکو افسوس نادانی سے تفسیر کے ذریعے مسلمانوں میں پھیلا دیا گیا۔ چنانچہ عورت کی پیدائشی تحقیر کا تصور جو ہندو دھرم (یا بائبل ) میں ہےقرآن میں موجود ہی نہیں۔ چونکہ اسی متحد الاصل جوڑے سے جملہ نسل انسانی پھیلائی گئی، اسلیے پیدائشی شرافت یا رذالت کا تصور قرآن کے لئے اجنبی ہے۔
۲۔اے لوگو! بیشک ہم نے تمکو پیدا کیا ایک نَر اور ایک مادہ سے اور بنائے تمھارے گروہ اور قبیلے تا کہ آپس کی پہچان ہو۔ یقیناً اللہ کے نزدیک بڑی عزت کا مستحق وہی ہے جو سب سے زیادہ خداسے ڈرنے والا ہے، اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔ (الحجرات: ۱۳)
۳۔اور جو جیسی کمائی کریگا وہ اسی کے ذمے پڑیگی، اور بوجھ نہ اٹھائیگا ایک شخص دوسرے کا۔(الانعام: ۱۶۴)
۴۔ سو جس نے کی ذرہ برابر بھلائی وہ دیکھ لیگا اُسے اور جس نے کی ذرہ برابر بُرائی وہ دیکھ لیگا اُسے (قیامت کے دن)۔ (الزلزال:۸۔۷)
رسول اکرم ﷺ نے ان آیاتِ قرآنی کی عملی تصدیق اپنے آخری خطبۂ حج میں یہ کہہ کر کی کہ ”حسب و نسب کے تمام امتیازات میرے ان قدموں کے نیچے ہیں“ (اور یہ کہتے ہوئے آپؐ نے اپنے قدموں کو روندا)۔ آپ ﷺ نے مزید تاکید کی کہ ”کسی عربی کوعجمی پراور کسی عجمی کو عربی پر، کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پرکوئی فضیلت حا صل نہیں، سوائے تقویٰ کی بنیاد کے“۔جان لو کہ ”تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے“۔ (صحیح الالبانی)
اسلام میں فضیلت کی بنیاد محض تقویٰ (برہمچریہ) ہے، مگر آریہ دھرم میں ‘تعظیم’ برہمن کے علاوہ اورکس کے لیے ہے اس موضوع سے “یجر وید” کا تقریباً پورا سولھواں ادھیائے بھرا ہوا ہے، جس میں چند مثالیں کچھ اسطرح کی بھی ہیں:
“دشمنوں کے رلا دینے والے پیدل فوج کے مالک کے لئے تعظیم۔ کمان کو پورے طور پر کھینچ کر دوڑنے والے کے لئے تعظیم ۔۔۔ فتح کرنے والے کے لئے تعظیم۔ ٹکڑے ٹکڑے کرنے والی فوج کے مالک کے لئے تعظیم۔ شمشیر زن بہادر کے لئے تعظیم۔ چوروں کے مالک کے لئے تعظیم۔ چل پھر کر چوری کرنے والے گٹھ کترے کے لئے تعظیم۔ جنگلوں کے مالک کے لئے تعظیم۔ تلوار رکھنے والے۔ تیر انداز ڈاکوؤں کے مالک کے لئے تعظیم۔ مسلح مار دینے والے۔ خفیہ چوروں کے مالک کے لئے تعظیم۔ خنجر رکھنے والے۔ رات کو پھرنے والے۔ سیندھ لگانے والے چوروں کے مالک کے لئے تعظیم۔ ۔۔۔سب طرف سے زخمی کرنے والے اور قتل کرنے والے آپ کے لئے تعظیم۔ اچھے لشکروں کے ساتھ تم تباہ کرنے والے کے لئے تعظیم۔۔۔۔عیاروں کے لئے اور عیاروں کے مالک آپ کے لئے تعظیم۔۔۔۔آگے بڑھ کر مارنے والے اور دور کے دشمنوں کو مارنے والے کے لئے تعظیم۔ مارنے والے اور کثرت سے مارنے والے کے لئے تعظیم۔”( یجر وید، ۱۶: ۱۹۔۲۴ اور۴۰ ۔ع ح و)
چنانچہ اگر دو باتیں ذہن میں رکھی جائیں کہ “گوتم دھرم شاستر”، “منوسمرتی”، “گیتا” اور “وید” جیسے گرنتھ قرآن سے بہت پرانے ہیں اور دوسر ے یہ کہ ہتھیارسازی، تشدد، خونریزی، استحصال، نسل پرستی (racism)، انسان و حیوان کی قربانی اور ظلم و سفاکیت کی روایت کی جڑیں پراچین (قدیم) بھارتی دھرم اور کلچر میں گہری اتری ہوئی ہیں تو معمولی شُدبُد کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ دنگوں، سیناؤں، بربریت، زندہ جلانے اور اذیت پہنچانے کا سر چشمہ انہی پراچین مقدس کتابوں کے منتر اور اشلوک ہیں، نہ کہ قرآن کی کوئی چوبیس آیات۔ یہ اسلئے کہ قرآن کے نزول سے پہلے اس پر عمل ممکن نہیں۔ اگر کوئی مغربی مستشرق یا غیر مسلم اسکالر (جو قرآن کو منزل من اللہ نہیں مانتا) ویدوں اور قرآن کا موازنہ کرنے بیٹھ جائے تو ان چوبیس آیات کے متعلق یہ نتیجہ نکالے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ قرآن پر ویدوں کا ہلکا سا اثر ہے۔آریہ ورت میں شر، فساد،بت پرستی اور ہنسا قرآن سے ہزاروں برس پہلے سے موجود تھی اور یہاں سے نکل کرکل ُ دنیا میں پھیل چکی تھی، جسکا سد باب کرنے اور اپنا بچاؤ کرنیکے لئے ان قرآنی آیات کا نزول ہوا۔اور جب تک ایکیشور واد اور ایکیشور وادیوں کے جانی دشمن موجود رہیں گے ان آیات کا relevance بھی باقی رہیگا۔
اخراج کا مطالبہ کرنے والوں میں سے ایک شخص آنجہانی گری راج کے بیان کا یہ پہلو امید افزا تھا کہ وہ اپنے گرنتھوں کی اصلاح کیلئے تیار ہیں، لیکن اِسکو اُنھوں نے قرآنی آیات کے اخراج کے ساتھ مشروط کر کے زیادتی کی ۔ انکو تو اپنے گرنتھوں کی اصلاح کرنا ہی چاہیے اسلئے کہ تمام ودیائیں بقول پنڈت سرسوتی انہی سے نکلی اور دنیا میں پھیلی ہیں۔ اگر آپ ہنسا، نسل پرستی، اور بھید بھاؤکے ”ایک ارب چھیانوے کروڑ کئی لاکھ اور کئی ہزار برس“ پرانے سوت (source) کو ہی بند کر دیں گے تو رفتہ رفتہ پوری دنیا سے یہ آپ سے آپ مٹ جائیگا۔ اور جب جارحیت نہیں رہیگی تو ان سے بچاؤکی آیات قرآن میں رہیں یا نہ رہیں انکا کوئی استعمال ہی نہیں ہو گا۔ مسلمانوں کی مشکل یہ ہے وہ اگر چاہیں بھی تو قرآن سے ایک حرف نہیں نکال سکتے، نہ اسمیں ایک حرف بڑھا سکتے ہیں، اگر کوشش بھی کریں تو کامیاب نہیں ہو سکتے ،کہ انکے عقیدے کے مطابق یہ رشیوں منیوں کے ملفوظات نہیں بلکہ اِیش بانی (کلام الٰہی) ہے جسکی حفاظت کا ذمہ مسلمانوں کا نہیں بلکہ یہ ایشور نے خوداپنے اوپر لیا ہے۔ بفرض محال، اگر ہندوستانی مسلمان آپکی بات مان بھی لیں تو باقی دنیا کے مسلمان تو نہیں مانیں گے۔ مزید یہ کہ کل آپ کوئی دوسرا اور پرسوں تیسرا مطالبہ لیکر کھڑے ہو جائیں گے۔اور یہ تان یہیں پر آکر ٹوٹے گی کہ مسلمان پہلے “محمدی ھندو” ہو جائیں پھر پورے ہندو۔ اسلئے اسطرح کا مطالبہ فضول ہے۔
علاوہ ازیں، اس بظاہرمعصوم پیشکش میں دام بھی ہے۔ فرض کیجئے کہ ایک اژدہا گئو ماتا سے کہے کہ ”ہے ماتا!آپ تو پوتر ہیں، پوجیہ ہیں، ہماری ماتا ہیں، پھر یہ آپ کے سر پر سینگ کیوں؟ وہ بھی دودو؟ سینگ تو ہنسا کا پرتیک (مظہر) ہیں، ممتا کی دیوی کے ٹھیک سر کے اوپر دونوکیلے، ڈراؤنے سینگوں کا کیا کام؟آپ اگر ان سینگوں کو توڑ ڈالیں تو میں بھی آپکا بھکت ہوجاؤں، اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ میری بات مان لیں تو میں بھی اپنا کس بل نکال سیدھا ہو جاؤں،آپکو جکڑنے اورنگلنے کا وِچاربھی دل میں نہ لاؤں “۔فرض کیجئے یہ کہہ کر اژدہا واقعی سیدھا ہو کر شرافت سے لیٹ جائے۔ گائے بیچاری سمجھے کہ یہ اب سدھر گیا تو میں بھی اپنے سینگ توڑ ڈالوں۔ وہ جا کر اپنے سینگ پتھر پر دے مارے۔ تو اسکے نتیجے میں صرف اتنا ہو گا کہ گائے کے سینگ تو کبھی واپس آئیں گے نہیں، البتہ اژدہے کے کس بل ایک لمحے میں واپس آ جائیں گے، وہ بے بس گائے کو آن واحد میں جکڑ کر اسکی ہڈی پسلی توڑ دیگا اور نگل لےگا۔ یہ اژدہا اسلام کی گائے کو بھی وہیں پہنچانا چاہتا ہے جہاں ماضی میں بدھ مت، جین مت اور سکھ مت کو پہنچا چکا ہے،یعنی اپنے پیٹ میں۔یہ اسلام کو بھی اپنا شکمی مذہب بنانے پرتلاہے۔ گائے اپنی فطرت سے شریف ہے۔ اسکے سینگ ہیں ضرور، مگروہ خواہ مخواہ سب کو مارتی نہیں پھرتی الا یہ کہ اسکا دماغی توازن خراب ہوگیا ہو۔ وہ ان سینگوں کا استعمال اسی وقت کرتی ہے جب خطرہ ہو۔ قرآن کی یہ آیات گئو ماتا کے سینگ سمان ہیں۔ یہ اسلئے نہیں ہیں کہ مسلمان خواہ مخواہ غیر مسلموں کو مارتے پھریں الا یہ کہ انکا دینی ذہنی توازن خراب ہو جائے، جیسے بعض انتہا پسند گروہوں کا بعض ملکوں میں ہو گیا ہے اور وہ معصوم انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ کر اپنی جہنم اور مسلمانوں کی رسوائی کا سامان کر رہے ہیں۔ ان آیتوں کا استعمال اسی وقت فرض ہے جب مسلمانوں کو جارحیت کا نشانہ بنایا جائے صرف اس بنیاد پر کہ وہ مسلمان ہیں انکو قتل کیا جائے، انکے گھراور کاروبار تباہ کئے جائیں، انکی آبادیا ں جلا کر راکھ کر دی جائیں اور جان،مال وعزت کی حفاظت کا جو عہد ان سے کیا گیا ہے اسکو بار بار توڑا جائے۔اور اسی سیاق میں ان آیات کی اطلاقیت قیامت تک باقی رہیگی۔ جس طرح تیز، نکیلے، شان سے اوپر اٹھے ہوئے سینگوں کی موجودگی کے باوجود ہندو بھائیوں کیلئے گئو ماتا ممتا کی دیوی اور پوجیہ (قابل پرستش) ہی رہتی ہیں اسی طرح ان آیات کی موجودگی کے باوجود قرآن مقدس اور پاک ہی رہتا ہے۔ایشور کے انتم سندیش (آخری پیغام) قرآن میں سے کسی آیت کو نکالنے کا مطالبہ کرنا اتنا ہی احمقانہ ہے جتنا گئو ماتا کو مقدس ماننے کےلیے پہلے انکے سینگ کٹوا نے کا مطالبہ کرنا۔
مسلمانوں کو ان آیات کے معاملے میں شرمندہ ہونے یا دفاعی پوزیشن اختیار کرنیکی ضرورت نہیں بلکہ معترضین پر یہ جتلانے کی ضرورت ہے کہ وہ پہلے خود اپنے گھر کو درست کریں اور پچھلے صفحات میں ہم ثابت کرچکے ہیں کہ انکے اپنے گھر کی حالت کیسی شرمناک ہے۔اس معاملے میں انکو پریشان ہونیکی ضرورت یوں بھی نہیں کہ انھیں خدا نے اسلام اور قرآن کی”حفاظت” کیلئے پیدا نہیں کیا، بلکہ اسلام اور قرآن کو انکی ہدایت کیلئے نازل کیا ہے۔ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اس نے خود اپنے اوپر عائد کیا ہے اور اسی سبب وہ ابتک محفوظ بھی ہے۔ ورنہ دوسروں کا کیا ذکر، خود مسلمان اسکو اپنے اپنے مسالک (سنیت، شیعیت، وہابیت، دیوبندیت وغیرہ) صحیح ثابت کرنے کیلئے بدل چکے ہوتے (معنوی تحریف کے مرتکب تو بہرحال وہ پھر بھی ہوتے ہیں)۔ اور اسلام کو کوئی خطرہ یوں درپیش نہیں ہوسکتا کہ یہ دراصل کائنات اور انسان کی داخلی فطرت کا نام ہے۔ یا بالفاظ دیگر جن الٰہی اصولوں پر کائنات کا کل کاروبار جاری و ساری ہے اسی کو قرآنی اصطلاح میں اسلام کہتے ہیں اور اسکو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا۔ خطرہ دراصل آپکے مسالک کو لاحق ہوتا ہے نہ کہ اسلام کو، اور ان مسالک کو (جنکی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں) خدا اور اسکے رسول ﷺ نے شروع نہیں کیا تھا، نہ شروع کرنیکی ہدایت دی تھی۔ بلکہ فرقہ سازی قرآن کے نزدیک شرک ہے۔ اس فرق کو ملحوظ رکھنے سے کہ”آپ قرآن کی خدمت یا حفاظت پر مامور نہیں ہیں بلکہ وہ آپکی ہدایت کیلئے اترا ہے“ دو مختلف عملی رویے مرتب ہوتے ہیں۔ بصورت اول، آپ قرآن پر عمل پیرا ہونے کے بجائے اسکی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں بے نتیجہ نچھاور کرتے رہیں گے۔ اور بصورت ثانی، قرآن پر عمل پیرا ہوکر اپنی دنیا اور عاقبت سنوارسکیں گے۔ قرآن اگر آپکی تہذیب و ثقافت کی رگوں میں خون بن کر دوڑے تو محفوظ رہیگا، آپکے خون سرخ کے نالیوں میں بہنے سے نہیں۔
٭٭٭٭٭٭(ختم شد)٭٭٭٭٭٭

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply