• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ماؤاسٹ پروپیگنڈہ اور حقائق: دو نکات(پہلا حصہ)۔۔شاداب مرتضٰی

ماؤاسٹ پروپیگنڈہ اور حقائق: دو نکات(پہلا حصہ)۔۔شاداب مرتضٰی

حیدرآباد میں بروز ہفتہ (12فروری 2022ء) تنقیدی تعلیمی فورم (کیریٹکل اسٹڈی فورم) سےاپنے ایک لیکچر میں، جس کا عنوان تھا “ٹراٹسکی ازم اور ماؤازم: ایک نظریاتی بحث”، کامریڈ سید عظیم نے اسٹالن کی دو غلطیوں اور ماؤزے تنگ کی دو خوبیوں کا زکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسٹالن ایک تو یہ بات سمجھنے میں ناکام رہا کہ سوشلزم میں طبقاتی جدوجہد جاری رہتی ہے ختم نہیں ہوتی اور دوسری یہ کہ سوشلزم کی تعمیر میں بالائی ڈھانچے (شعور، آئیڈیالوجی، کلچر ) اور پیداواری رشتوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ماؤزے تنگ نے ان دونوں اہم باتوں کو سمجھا اورچین میں انقلاب کو کامیابی سے پروان چڑھایا۔ درحقیقت ان کے یہ دونوں دعوے ہی غلط ہیں اور ان کی بنیاد تاریخی حقائق نہیں بلکہ ایساسطحی ماؤاسٹ پروپیگنڈہ پر ہے جو ماؤزے تنگ کے شخصیت پرستانہ عقائد پر مبنی ہے۔ کیسے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

پہلا نکتہ: سوشلزم میں طبقاتی جدوجہد

پہلے ہم اس دعوے کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعی اسٹالن اس بات کا ادراک کرنے میں ناکام رہا کہ سوشلزم میں طبقاتی جدوجہد جاری رہتی ہے ختم نہیں ہوتی؟ مارچ 1937ء میں سوویت کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کو اپنی رپورٹ میں اسٹالن نے کہا: “۔۔۔ہمیں اس گلے سڑے نظریے کو لازمی طور پر توڑ پھوڑ کر پھینک دینا چاہیے کہ ہر وہ پیش رفت جو ہم کررہے ہیں اس سے یہاں طبقاتی جدوجہد میں لازماًاتراؤ آنا چاہیے، ہم جتنی کامیابی حاصل کریں گے طبقاتی دشمن اتنا ہی سدھا ہوا بن جائے گا۔یہ نظریہ نہ صرف گلا سڑا ہے بلکہ خطرناک بھی ہے، کیونکہ یہ ہمارے لوگوں کو کاہل کرتا ہے، انہیں جال میں پھنساتا ہے، اورطبقاتی دشمن کو اس قابل کرتا ہے کہ وہ سوویت حکومت کے خلاف جدوجہد کو تازہ دم کرے۔اس کے برعکس، ہم جس قدر آگے بڑھیں گے، جس قدر زیادہ کامیابی حاصل کریں گے، شکست خوردہ استحصالی طبقوں کی باقیات کا غیض و غضب اسی قدر زیادہ ہو گا، وہ جدوجہد کی زیادہ تند و تیز شکلوں سے رجوع کرنے کے لیے اسی قدر زیادہ تیار ہوں گے، وہ سوویت ریاست کو اسی قدر زیادہ نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے، اور وہ اسی قدر زیادہ بدحواسی کے ساتھ جدوجہد کے ذرائع پر فنا کے قریب پہنچ جانے والوں کے آخری سہارے کی حیثیت سے جھپٹیں گے۔ یہ ہمیشہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ سوویت یونین میں شکست خوردہ طبقوں کی باقیات اکیلی نہیں ہیں۔ انہیں سوویت یونین کی سرحدوں سے باہر موجود ہمارے دشمنوں کی براہِ راست حمایت حاصل ہے۔ یہ سوچناایک غلطی ہوگی کہ طبقاتی جدوجہد کا دائرہ سوویت یونین کی سرحدوں تک محدود ہے۔ طبقاتی جدوجہد کا ایک سرا سوویت یونین کی سرحدوں کے اندر روبہ عمل ہے، لیکن اس کا دوسرا سرا ان سرمایہ دار ریاستوں تک پھیلا ہوا ہے جو ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ شکست خوردہ طبقوں کی باقیات اس بات سے آگاہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ اور اسی وجہ سے کہ وہ اس سے آگاہ ہیں، وہ اپنے جنونی حملے جاری رکھیں گی۔ یہی وہ سبق ہے جو تاریخ ہمیں سکھاتی ہے۔ یہی وہ سبق ہے جو لینن ازم ہمیں سکھاتا ہے۔”

یہ واضح ہے کہ اسٹالن سوشلزم میں طبقاتی جدوجہد کے جاری رہنے کے لیننی نظریے پر نہ صرف یقین رکھتا تھا بلکہ وہ اس بارے میں وقتاً فوقتاً پارٹی کو خبردار بھی کرتا رہتا تھا۔ 1948ء میں یوگوسلاویہ میں ٹیٹو کی ترمیم پسندی کے خلاف جدوجہد میں اسٹالن نے سوشلزم میں طبقاتی جدوجہد کے جاری رہنے کے نظریے کا اعادہ کیا۔ سرمایہ داری کی بحالی کے موضوع پر لینن اوراسٹالن کی تحریریں یہ واضح کرتی ہیں کہ چونکہ سوشلزم کے دور میں سرمایہ داری کی بحالی کا خطرہ موجود رہتا ہے اس لیے سوشلزم میں طبقاتی جدوجہد مختلف شکلوں میں جاری رہتی ہے۔

دراصل، حقیقت تو یہ ہے کہ یہ خود ماؤزے تنگ اور چینی کمیونسٹ پارٹی تھی جنہوں نے سوشلزم میں طبقاتی جدوجہد کے جاری رہنے کے لیننی نظریے سے انحراف کیا اور یہ نقطہ نظر اختیار کیا کہ سوشلزم میں طبقاتی جدوجہد ختم ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر، خروشچیف کی ترمیم پسندی کو سہارا دیتے ہوئے چینی کمیونسٹ پارٹی نے 1956ء میں اسٹالن پر تنقیدکرتے ہوئے کہا کہ: “طبقوں کے خاتمے کے بعد، طبقاتی جدوجہد کے شدید ہونے پر مستقل زور نہیں دینا چاہیے جیسا کہ اسٹالن نے کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ (سوویت یونین میں) سوشلسٹ جمہوریت کی صحت مند ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ اس معاملے میں اسٹالن کی غلطیوں کی ثابت قدمی سے درستگی میں سوویت کمیونسٹ پارٹی (خروشچیف کی ترمیم پسند قیادت میں) بالکل درست تھی۔”

ہر کوئی اس “تضادبیانی” کو دیکھ سکتا ہے کہ ایک جانب ماؤزے تنگ اورچینی کمیونسٹ پارٹی اسٹالن پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ سوشلزم میں طبقاتی جدوجہد کے جاری رہنے کو تسلیم کرنے میں “ناکام” رہااوردوسری جانب وہ خود اس بات کا اقرار بھی کرتے ہیں کہ اسٹالن نے سوویت یونین میں طبقاتی جدوجہد کو جاری رکھا جو کہ ان کے خیال میں ایک “غلطی “تھی کیونکہ سوویت یونین میں طبقے ختم ہوگئے تھے اور اس صورت میں طبقاتی جدوجہد پر زوردینے سے سوشلسٹ جمہوریت کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوئی جسے خروشچیف کی قیادت میں سوویت ترمیم پسندوں نے دور کیا!

صرف یہی نہیں بلکہ اس بات کی اور بھی شہادتیں دی جاسکتی ہیں کہ ماؤزے تنگ اورچینی کمیونسٹ پارٹی سوشلزم میں طبقاتی جدوجہد کے جاری رہنےکے مارکسی-لیننی نظریے سے بہت جلد ہی تائب ہوچکے تھے۔ مثال کے طور پر،جمہوریہ چین کے قیام کےبعد، ماؤزے تنگ کا خیال تھاکہ:”زمیندار طبقے اوربیوروکریٹک سرمایہ داروں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے ساتھ،مزدور طبقے اورقومی سرمایہ دار کے درمیان تضاد چین میں بنیادی تضاد بن چکا ہے۔ لہذا، اب قومی سرمایہ دار کو متضادرویے والا (Ambivalent)قرارنہیں دینا چاہیے۔” (ماؤزے تنگ: مزدور طبقے اورسرمایہ داروں کے درمیان تضاد بنیادی تضاد ہے، 6 جون 1952ء)

اس وقت ماؤزے تنگ کی لائن یہ تھی کہ چین میں طبقاتی جدوجہد ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اورقومی سرمایہ دار اورمزدور طبقے کے درمیان طبقاتی جدوجہد کی شکل میں جاری ہے۔

تاہم، یہی ماؤزے تنگ 5 سال بعد 1957ء میں، جب کہ سوویت یونین کی مدد سے چین میں سوشلزم کی تعمیر کا عمل ابتدائی مرحلے پرتھا، سرمایہ دار اورمزدور کے درمیان مخاصمانہ تضاد کے خاتمے کااعلان کرتے ہوئے کہتا ہے: “ہمارے ملک میں مزدور طبقے اورقومی سرمایہ دار کے درمیان تضاد عوام کے مابین تضاد سے تعلق رکھتا ہے(!)۔ مزدور طبقے اورقومی سرمایہ دارکے درمیان طبقاتی جدوجہد عمومی طور پر عوام کے مابین طبقاتی جدوجہد سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ ہمارے ملک میں قومی سرمایہ دار کا کردار متضاد رویے والاہے۔سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب کے دور میں قومی سرمایہ دار طبقہ ایک طرف انقلابی تھا اوردوسری طرف سمجھوتہ کرنے پر مائل تھا۔ سوشلسٹ انقلاب کے دور میں ایک طرف وہ منافع کی خاطر مزدوروں کا استحصال کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ آئین کی حمایت کرتا ہے اورسوشلسٹ تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ قومی سرمایہ دار اورمزدور طبقے کے درمیان تضاد، جو ظالم اورمظلوم کے درمیان تضاد ہے، اپنے آپ میں بذاتِ خود ایک مخاصمانہ (Antagonistic) تضاد ہے۔ لیکن، ہمارے ملک کے ٹھوس حالات میں اگر اس مخاصمانہ طبقاتی تضاد کو درست انداز سے برتا جائے تو اسے مخاصمانہ تضاد سے غیرمخاصمانہ تضاد میں بدلا جا سکتا ہے اورپرامن انداز سے حل کیا جا سکتا ہے۔” (ماؤزے تنگ: عوام کے درمیان تضادات سے درست انداز سے نپٹنے کے بارے میں، 1957ء)

کیا یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ چین میں سرمایہ داروں کے کردار کے بارے میں ماؤزے تنگ کا یہ دعوی طبقاتی جدوجہد کے مارکسی-لیننی نظریے سے سراسر انحراف پر مبنی ہے؟ اس میں سوشلزم کی تعمیر کے عمل کے دوران سرمایہ داروں اورمزدوروں کے درمیان تضاد کو مخاصمانہ تضاد نہیں بلکہ غیرمخاصمانہ تضاد قرار دیا گیا اور طبقاتی جدوجہد کو سرمایہ دار اورمزدور طبقوں کے درمیان مخاصمانہ جدوجہد کے بجائے ان کے درمیان دوستانہ، موافقانہ تعاون سے تعبیر کیا گیا اوریہ موقع پرست تصور پیش کیا گیا کہ سرمایہ داروں کو پرامن انداز سے، باہمی تعاون کے زریعے، سوشلزم میں منتقل کیا جاسکتا ہے ۔ کیا یہ اس پیٹی بورژوا خام خیالی کی عکاسی نہیں کرتا کہ سرمایہ داروں کے تعاون سے سوشلزم قائم کیا جاسکتا ہے؟

دراصل،اس دورمیں جب کہ چین میں سوشلزم کی تعمیر ابتدائی سطح پر تھی، ماؤزے تنگ کا خیال تھا کہ چین میں “سوشلزم تعمیر ہوچکا ہے” اور اس لیے چینی سرمایہ داروں کو طبقاتی جدوجہد کے بغیر، پرامن تعاون واشتراک کے ذریعے سوشلسٹ بنایا جا سکتا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے ماؤزے تنگ نے “دولائنوں” کے نظریے کے تحت نہ صرف سرمایہ داروں کی سیاسی پارٹیوں کو قائم رہنے دیا اورسیاسی اورمعاشی معاملات میں سرمایہ داروں اورمزدوروں کی مشترکہ، باہمی نگرانی کا نظام بھی متعارف کروایا بلکہ چینی کمیونسٹ پارٹی میں بھی سرمایہ داروں کو شمولیت اورنمائندگی کا موقع فراہم کیا۔ ماؤزے تنگ کا خیال تھا کہ “پارٹی (کمیونسٹ پارٹی) سے باہر، دوسری پارٹیاں وجود رکھتی ہیں، پارٹی کے اندر مختلف گروہ وجود رکھتے ہیں؛ ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے” حالانکہ خود اس کے اپنے الفاظ میں وہ بخوبی جانتا تھا کہ “(پارٹی کے اندر ) ہرگروہ کسی نہ کسی طبقے کا محاذہوتا ہے”۔ یہ حقیقت بھی ماؤزے تنگ اورچینی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے طبقاتی جدوجہد کے نظریے سے انحراف کرنے اورطبقاتی مصالحت و مفاہمت کے نظریے کو اختیار کرنے کی گواہی دیتی ہے جو کہ مارکسزم-لینن ازم کے اس اصول کے سراسر خلاف ہے کہ کمیونسٹ پارٹی مزدور طبقے کی پارٹی ہوتی ہے اوراس میں سرمایہ دار طبقے کے حامی گروہوں کی شمولیت کو فروغ دینے اوراس کا دفاع کرنے کے بجائے ان کے مستقل اخراج کے اورپارٹی میں ان کے داخل نہ ہوپانے کے اقدامات کو یقینی بنانا چاہیے۔ “ددلائنوں” کے اس پیٹی بورژوا تصور کو ماؤزے تنگ نے اس احمقانہ حد تک بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ “ایک ہزار سال” بعد بھی اور “کمیونزم کے دور میں بھی” دو لائنوں کا اختلاف “جاری رہے گا کیونکہ “تضادات کا اتحاد” جدلیات کا بنیادی قانون ہے۔

طبقاتی جدوجہد کے اس پیٹی بورژوا ر نقطہ نظراوراس پر مبنی پالیسیوں کے ساتھ کہ سرمایہ داروں کے تعاون و اشتراک سے سوشلزم تعمیر کیا جا سکتا ہے اورسرمایہ داروں کو پرامن انداز سے سوشلسٹ بنایا جا سکتا ہے، ماؤزے تنگ اورچینی کمیونسٹ پارٹی نے جو پالیسیاں اوراقدامات اٹھائے وہ مارکسزم-لینن ازم سے ان کے انحرافات کو تفصیل سے ثابت کرتے ہیں جن کے ذریعے چین میں معیشت کی مرکزی منصوبہ بندی کو ختم کیا گیا، ذرائع پیداوارکو ریاستی تحویل سے نجی تحویل میں منتقل کیا گیا، معیشت کو قدرکے قانون کے تابع کردیا گیا ، بھاری صنعت پر زراعت کو ترجیح دی گئی، منافع  اوراجناس کی پیداوار کو معاشی پیداوار اورتبادلے کی بنیاد بنایا گیا اور کسانوں کے ذریعے کمیونزم کے قیام کے تصورکو فروغ دیا گیا۔ تاہم ان کا ذکر علیحدہ سے کیاجائے گا۔

چنانچہ، یہ صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ چین میں سوشلزم کی تعمیر کے مرحلے پرماؤزے تنگ اورچینی کمیونسٹ پارٹی نے طبقاتی جدوجہد کے جاری رہنے کے مارکسی-لیننی نظریے سے انکار کیا اور اس کے لیے مارکسی-لیننی نظریے کے اس بنیادی اصول سے انحراف کیا کہ سرمایہ دار اورمزدور طبقوں کے درمیان تضاد ناقابل مصالحت ہے اوران کے درمیان طبقاتی جدوجہد ناگزیر ہے۔ دراصل، ماؤزے تنگ اورچینی کمیونسٹ پارٹی کا یہ انحراف سوویت یونین میں بخارن ،بوگدانوف اورخروشچیف کی اور یوگوسلاویہ میں ٹیٹو کی اسی موقع پرستی کا تسلسل تھا جس کے مطابق سرمایہ داراورمزدور طبقوں کے درمیان تضاد کو طبقاتی جدوجہد کے بجائے مفاہمت و مصالحت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے اورسرمایہ داروں کو باہمی تعاون کے ذریعے پرامن انداز سے سوشلزم میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ لہذا، یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں کہ اس موقع پرست مؤقف پرمبنی پالیسیاں چین سمیت ہرجگہ، ہرملک میں،انقلابی تحریک کو سوشلزم کے بجائے سرمایہ داری کی جانب لے گئیں۔ اپنے جوہر میں یہ سرمایہ دارانہ نقظہِ نظر ہے جسے انقلابی لفاظی کے غلاف میں لپیٹ کر عوام کو دھوکہ دینے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی ماؤزے تنگ جو چینی انقلاب (سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب) کے موقع پر طبقاتی جدوجہد کے نظریے پر قائم تھا لیکن سوشلزم کی تعمیر کے مرحلے میں اس سے تائب ہوگیا تھا، وہ ایک بار پھر، چندسال بعد ،چین میں ثقافتی انقلاب کے دور میں ،اپنی نفی کرتے ہوئے ،طبقاتی جدوجہد کے نظریے کی طرف واپس لوٹتا ہے اور یہ اعلان کرتا ہے کہ چین میں بنیادی تضاد عوام کے مابین تضاد نہیں بلکہ سرمایہ دار اورمزدور کے درمیان تضاد ہے، کہ چین میں سرمایہ دارعناصر چینی کمیونسٹ پارٹی اورحکومت پر غلبہ حاصل کرتے جارہے ہیں ۔چین کا ثقافتی انقلاب ماؤزے تنگ اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی سابق پالیسیوں “آگے کی جانب ایک عظیم چھلانگ ” اور “سینکڑوں پھول کھلنے دو”یا “دولائنوں” کی موجودگی سے پیدا ہونے والے اثرات کا ردعمل تھا ۔ ان پالیسیوں کی نتیجے میں منطقی طور پر چین میں پارٹی، حکومت اورمعیشت پر سرمایہ دارانہ عناصر غلبہ حاصل کر رہے تھے۔

ایک اورنہایت دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی نے طبقاتی جدوجہد کے بارے میں اسٹالن پر بے بنیاد الزام تراشیوں پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ ماؤزے تنگ کی شخصیت پرستی میں وہ اس احمقانہ حد تک چلی گئی کہ اس نے سوشلزم میں طبقاتی جدوجہد کے جاری رہنے کے نظریے کا خالق ہی ماؤزے تنگ کو قرار دے ڈالا حالانکہ مارکسزم-لینن ازم سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ لینن نہایت وضاحت سے یہ نظریہ بہت پہلے پیش کرچکا تھا اور اسٹالن متعدد مواقعوں پر اس کا اعادہ کرچکا تھا۔ مثلا ًلن بیاؤ نے کہا کہ ماؤززے تنگ کے طفیل “پہلی باربین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کے نظریے اورعمل میں، واضح طور پر اس بات کی نشاندہی ہوئی کہ طبقات اورطبقاتی جدوجہد تب بھی موجود رہتے ہیں جب ذرائع پیداوار کی ملکیت کی سوشلسٹ منتقلی بڑی حد تک مکمل ہوچکی ہو، اوریہ کہ (تب بھی) مزدور طبقے کو انقلاب جاری رکھنا چاہیے۔” تاہم، خود ماؤزے تنگ اس حقیقت کو 57-1956ء میں فراموش کرچکا تھا اوراس حوالے سے اسٹالن پر یہ تنقید بھی کرچکا تھا۔

کامریڈ سید عظیم اور دیگر ماؤاسٹ احباب ماؤزے تنگ کے خیالات اور اس کی قیادت میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی پالیسیوں کے ان مستقل تضادات اورانحرافات کی وضاحت کیسے کریں گے جن میں سرمایہ دار اورمزدور طبقوں کے درمیان تضاد چند سالوں تک بنیادی اورمخاصمانہ تضاد رہتا ہے، پھر عوامی اورغیرمخاصمانہ بن جاتا ہے اورپھرسے چند سالوں بعد بنیادی اورمخاصمانہ تضاد بن جاتا ہے؟ چند سالوں تک سرمایہ داروں کے خلاف طبقاتی جدوجہد کی ضرورت موجود رہتی ہے، پھر ختم ہوجاتی ہے اورپھر چند سالوں بعد دوبارہ پیدا ہوجاتی ہے؟ قومی سرمایہ دار پہلے طبقاتی دشمن ہوتا ہے، پھر قومی دوست بن جاتا ہے اورپھر سے چند سالوں بعد طبقاتی دشمن کا روپ دھار لیتا ہے؟ پہلے سرمایہ داروں کے تعاون و اشتراک سے سوشلزم کی تعمیر کی جاتی ہے اور پھر سرمایہ داروں کے خلاف طبقاتی جدوجہد کی جاتی ہے اوراس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی پر سرمایہ داروں کے نمائندے غلبہ حاصل کرلیتے ہیں اور 30 سالہ “سوشلزم” کے باوجود چینی کو معاشی ترقی کے لیے امریکی سامراج کے سرمائے کی ضرورت پڑتی ہے؟ کیا یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ یہ مارکسزم-لینن ازم یا اس کی “ترقی” نہیں ، جیسا کہ ماؤازم کا دعوی ہے، بلکہ نری موقع پرستی ،مارکسزم-لینن ازم سے انحراف اور اس کی پیٹی بورژوا توڑ مروڑ ہے، اورچین میں جو ہوا وہ اس کا منطقی نتیجہ تھا؟

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply