بائیک برادری اور انسانیت۔۔حسان عالمگیر عباسی

بھارہ کہو سے فیض آباد پہنچانے پہ بائیک برادری کا احسان مند ہو گیا ہوں۔ بہارہ کہو سے کچھ آگے کو نکل جائیں تو فیض آباد تک بائیں جانب غالباً تیل کی دکان ایک سے زیادہ نہیں ہے اور وہ بھی راول روڈ کی جانب اندر کر کے ہے۔ کل تین لیٹر پیٹرول مری میں ڈلوایا اور بھارہ کہو پہنچا اور میرا ماننا ہے کہ تین لیٹر کے بعد اگر بائیک پہ کم کم نکلو تو مری سے آنے کے بعد بھی دو تین دن سکون سے نکل جاتے ہیں لیکن حیرانی ہوئی جب بنی گالہ روڈ پہ بائیک ‘میں نہ مانوں’ پہ اتر آیا۔ خیر جھٹکوں کی مدد سے لیک ویو پہنچا تو وہاں ایک حادثہ پیش آیا ہوا تھا۔ بائیک والے سے سوزوکی والا طے کر رہا تھا کہ انھیں چوٹیں آئی ہیں یا نہیں ،بائیک البتہ زخمی ہے تو کتنے میں فیض آباد تک لے جا سکتا ہے۔ کتنے میں کی بحث میں جتنے میں جیت گیا کیونکہ بندوں کے گوڈے شاید جواب دے رہے تھے اور وہ جلد پہنچنا چاہتے تھے۔ خیر ان کا نقصان نہ ہونے کے برابر تھا۔ انھیں اپنے کسی کام کا نہ پاکے چل دیا اور طے کیا کہ آج بائیک کے کان پکڑ کے چلتے رہنا ہے اور چلتا گیا۔

لیک ویو سے آگے نکلا تو ایک بائیک والے صاحب آکے رک گئے اور کہنے لگے کہ بیٹھو وہ سائیلنسر پہ پاؤں کی ٹھوکر کی مدد سے پہنچا دیں  گے ،لیکن یہ اسکیم ناکام ہو گئی کیونکہ ان کی مشق نہیں تھی۔ میں نے کہا سر آپ لیٹ ہو رہے ہیں چلے جائیں ہم چل کے ہی پہنچ جائیں گے۔ وہ نہ مانے اور بوتل کی تلاش میں لگ گئے اور بالآخر بوتل کی جگہ چیٹوز (Cheetos) کا ریپر مل گیا جسے بھر دیا گیا اور ٹینکی کا حلق خشکی سے آزاد ہو گیا۔ وہ انسانیت کہتے سمجھاتے چلے گئے۔

بائیک نے بہت زیادہ ساتھ نہیں دیا اور پھر جھٹکوں پہ آ گیا کیونکہ میں نے بھائی سے زیادہ کی درخواست نہیں کی تھی۔ ڈھوکری ٹیکسی سٹینڈ سے آگے کہیں بائیک نے تو جواب دے دیا لیکن اگلے ہی لمحے انسانیت کا ایک اور علم بردار سوال کرنے پہنچ آیا اور ‘کیسے مدد کر سکتا ہے’ کے نظریے کا پاس رکھتے ہوئے بائیک سے اترا اور بوٹل ڈھونڈنے لگا۔ کسی نے جوس ووس پی کے وہیں ایک طرف دن میں گلاس پھینک دیا تھا جس پہ ہماری نظر پڑ گئی۔ اس نے گلاس بھرا اور اس دوران وہ بھی انسانیت کے رہنما اصولوں سے روشناس کراتا رہا۔ اتفاق رائے کے بعد اس کا بھی شکریہ ادا کیا اور وہ جدا ہو گیا۔

فیض آباد سے پیچھے کر کے بری  امام روڈ تک پہنچ گیا ،جہاں ایک بار پھر بانوے چھیاسی نے ہمت کھو دی۔ جواب دینے پہ بطور سزا اس کے کان کھینچتے ہوئے گھسیٹ رہا تھا کہ ایک سوزوکی والا آکے رک گیا اور پوچھنے لگا کہ کیا ایشوز چل رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ ٹینکی پیاسی ہے تو وہ ڈرائیونگ سیٹ سے اتر گئے اور سوزوکی ڈالے پہ بائیک ڈال دیا۔ انھوں نے بھی انسانیت کا پاس رکھتے ہوئے یہ رویہ اپنایا۔ فیض آباد پہنچا اور ایزی پیسہ کیش کرایا اور بائیک نے ایک لیٹر پانی گھٹک لیا۔ مزید پیاسا تھا لیکن کل جب ہیڈلائنز سن رہا تھا تو بائیک ساتھ ہی کھڑا تھا اور اسے بھی علم ہے کہ خان صاحب کی حکومت باقی حکومتوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہے۔

جب سکستھ روڈ کی طرف چل دیا تو نوجوان بائیکرز نے انسانیت کے ناطے بتایا کہ بائیک کی ٹوٹی لیک کر رہی ہے تو علم ہوا کہ اس وجہ سے آج کا دن خواری کے نام رہا چونکہ رات گر گیا تھا، لیکن یہ تو بہانہ تھا۔ دراصل آج انسانیت کا درس بانٹنے اور اس پہ عمل کرنے والوں سے ملاقات کا دن تھا۔ یہاں دو باتیں انتہائی اہم سمجھتا ہوں:

1: تینوں دیہاڑی دار تھے۔ ایک بائیکیا چلاتا ہے جو کہہ رہا تھا کہ جتنا لینا ہے لے لو وہ پھر ڈلوا لے گا اور کہنے لگا کہ کل کلاں اس کے ساتھ بھی ایسا ہو گیا تو کیوں نہ پہلے ہی انویسٹمنٹ کر لی جائے۔ دوسرا غالباً کریم بائیکر تھا کیونکہ اس کے ہیلمٹ نے ایسا ہی بتایا جو فرما رہا تھا کہ مشکل آنی جانی شئے ہے اور سکندر تو وہ ہے جسے خدا اس وقتی عارضے کا عارضی یا مستقل حل بنا دے۔ تیسرا تو کمال حد تک متاثر کر گیا کیونکہ سوزوکی روک کر پوچھا اور خود باہر آکے ڈالے کو کھولا اور بائیک ڈالنے اور اتارنے میں مدد فراہم کی۔ اترتے ہی پوچھا کہ لوگ تو کہتے ہیں معاشرہ برا ہے تو کہنے لگا کہ فرد کی جمع افراد ہے اور افراد کا مطلب معاشرہ ہے لہذا فرد کو ٹھیک ہونا چاہیے اور جو ایسا کہتا ہے وہ دراصل خود ٹھیک نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

2: ان تینوں نے میرے رنگ، نسل، قوم، مذہب، مسلک، زبان سے بالاتر ہو کر صرف انسانیت کے لیے ایسا کیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply