وہ نیک لڑ کی تھی
صلح کل، پاکباز، بے داغ، بھولی بھالی
وہ اپنی معصوم
نیک چلنی میں لپٹی، لپٹائی باکرہ
اک غریب گھر کی کنواری کنیا
ذرا سے اونچے، امیر گھر میں بیاہی آئی
تو اپنے شوہر کے لڑ لگی
۔۔۔ اس کی نصف بہتر!
یہ رشتہ ٔ ازدواج بھی اک عجیب شے ہے
کہ آمنے سامنے کا رشتہ
مردو عورت کا ہے، مگر
چند اور رشتے بھی ہیں نمایاں
سسر بھی ہے، ساس بھی ہے، دیور بھی
جیٹھ بھی، بھاوجیں بھی، بچے بھی!
اور پھر اک
غریب گھر سے لِوائی آئی یہ نئی دلہن ؟
جونہی یہ بیت العروس سے
پہلے پندھرواڑے کےبعد نکلی
تو اس نےدیکھا
وہ سب کی خادم تھی، ’’ہاؤس وائف ‘‘ تھی ۔۔۔
فرض تھا اس کا خواہرانہ
یا مشفقانہ سلوک سب سے
یہ ایسا حق ِ نمک تھا جس کی
ادائی میں کچھ ذرا سی غفلت بھی سر کشی تھی
وہ منہ اندھیرے سے رات تک
گھر کے چولھے چوکے میں غرق رہتی
ہر ایک شب
اپنا ٹوٹتا جسم اس خدا کے سپرد کرتی
جو اس کا خاوند تھا،
مستبد، سختگیرر، آمر
جب آٹھ، نو سال یونہی گذرے
تو ایک کے بعد دوسری
دوسری کے پیچھے ،قطار اندر قطار
تین اور کنیائیں گھر میں آئیں
یہ نا مبارک سا ایک میزان بیٹیوں کا؟
تو اس نگوڑی کے بھاگ میں کیا
نرینہ اولاد ہی نہیں ہے؟
کہا سبھی نے ۔۔۔۔
وقار، ساکھ اور دبدبہ تو نہیں تھے پہلے بھی
بیسی کھیسی سی
کل کی دلہن پہ دورے پڑنے لگے
سراسیمگی کے، وحشت کے، خبط کے
رونے، چیخنے کے ۔۔ ۔

یہ کل کی دلہن
جو آج ہسٹیریا کی ماری ہوئی ہے بڑھیا
یہ ایک رفت و گذشت سی
عام سی کہانی ہے ہر محلے کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نظم ایک خاتون دوست کے ایما پر لکھی گئی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں