مقتل سے براہِ راست (2 )۔۔محمد وقاص رشید

مقتل سے براہِ راست (2 )۔۔محمد وقاص رشید/زندگی بھی ایک کھلیان ہے جو بویا جائے گا اس سے مختلف کاٹےجانے کی توقع کا انجام وہی ہوتا ہے جو ہمارا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہاں جو بونے والے ہیں وہ کاٹنے والے نہیں اور جو کاٹنے والے ہیں انکے پاس بونے کا نہ شعور ہے نہ اختیار۔
ایک فرد کی زندگی کو دو دائروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک ذاتی حیثیت کا دائرہ کار اور دوسرا اجتماعی ۔ذاتی حیثیت میں کی گئی غلطیوں کا اثر بھی خود ہی پر پڑتا ہے لیکن اجتماعی حیثیت میں برتی گئی کوتاہی کا خمیازہ اوروں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ اہلِ مسند و منبر کی تو ذاتی زندگی بھی گاہے قوم پر اثر انداز ہوتی ہے اور انکے اجتماعی دائرہ کار کا سماج و ملت کی اجتماعی حیات پر کیا اثر پڑتا ہے یہ پڑھنے والے تمام پاکستانیوں سے بہتر کون جانتا ہے  اور سب سے بڑا قضیہ یہ ہے  کہ ہمارے ہاں اہلِ مسند و منبر کے ذاتی مفادات کی ہنڈیا پکتی ہی اجتماعی مفادات کے ایندھن سے ہے ۔

ہم پہلی نشست میں عشق اور عشقِ رسول ص کو انسانی نفسیات کی روشنی میں دیکھ چکے,یہاں اسے سماجی تناظر میں دیکھتے ہیں  اور اپنی تمہید کے مطابق رسول اللہ ﷺکے دور کے انکے حقیقی عشاق رض اور آج کے اپنے جیسے نعرہ زن عشاق میں تقابلی جائزہ لیتے ہیں۔

رسول اللہﷺ  جب تشریف لائے تو ہر وہ سماجی برائی وہاں موجود تھی، جو بڑے کرب سے کہنا پڑتا ہے کہ آج پاکستانی معاشرے میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ ان سے عشق کا صرف نعرہ نہ لگانے والوں نے اپنے آپ کو یوں عملاً پیغمبرِ اسلام کی تعلیمات کا پیروکار بنایا کہ بنی نوع انسان کی تاریخ ہی بدل گئی اور ایک ہم ہیں ۔آپ کے عشق کے دعو یدار ۔بلکہ لکھنے دیجیے کہ عشقِ رسول کے بیوپاری۔۔  آپ ﷺ  نے جس جس سماجی و اخلاقی برائی کے بارے میں شدید وعید فرمائی ہائے صد حیف کہ ہم نے اپنے عشق کے نعروں کو ہی ان برائیوں کی ڈھال بنا دیا ۔عشقِ رسول ﷺ میں جینا اور جینے دینا سیکھنا تھا۔ مرنے اور مارنے کی شعلہ بیانی کہاں سے در آئی۔آئیے دیکھتے ہیں کہاں سے آئی۔

سلمان تاثیر کو ایک ایسے شخص کا قتل کر دینا جس نے اسکی حفاظت کا حلف اٹھا رکھا تھا۔دینِ اسلام کے مرکزی ستون ایفائے عہد کی خلاف ورزی تھی،یہ سریعا قتلِ ناحق تھا،اوّل تو کسی بھی شخص کو بطورِ مدعی توہینِ رسالت کا الزام عائد کر کے خود ہی عدالت لگا کر سزائے موت سنانے اور خود ہی جلاد بن کر اس پر عمل کرنے کا اختیار اسلام یعنی سلامتی اور عدل و انصاف کا مذہب دے ہی نہیں سکتا۔ دوسرا خود کو حنفی مسلمان کہنے والے علما ہوں یا پیروکار اس سوال کا جواب دینے سے “بوجوہ” احتراز برتتے ہیں کہ کیا امام ابو حنیفہ کی تفہیمِ دین کے مطابق گستاخِ رسول ص کی سزا موت ہے ؟۔اگر اس بات کا واضح جواب دیا جائے تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ سلمان تاثیر کے اس طرح قتل کیے جانے کی کوئی توجیہہ ممکن نہیں اور پھر امام کی تعلیمات کے مطابق اپنے خلاف جاری مہم کے جواب میں ایک وضاحتی ویڈیو بیان میں کسی قسم کی توہینِ رسالت ص سے انکار اور محمد رسول اللہ سے عقیدت کے اظہار کے بعد تو سیاسی دکان میں “گستاخِ رسول کی ایک سزا،سر تن سے جدا” جیسے نعرے سجا کر لوگوں کو اکسانے والوں کے لیے بھی سلمان تاثیر کو گستاخِ رسول ﷺ قرار دے کر یوں اس بندوق سے قتل کر دیے جانے کی اعانت کی ذّرہ برابر گنجائش نہیں نکلتی تھی جس بندوق کو اسکی حفاظت میں حلفیہ طور پر اٹھا کر آپ اپنے بچوں کا رزق کماتے ہیں، لیکن سیاست میں گنجائش بنانے کے لیے اس بہیمانہ قتل میں اعانت کی گنجائش نکالنا اور اسے جوشِ خطابت کی آنچ پر اک زہر بنا کر لوگوں کے دلوں میں ڈال دینا مولانا صاحب کی سخت ترین زبان کا خاصہ تھا۔یہ زہر دلوں میں کیسے نفوذ کیا طالب علم کی زندگی سے دو واقعات ملاحظہ فرمائیں۔

ان دنوں میرے ساتھ سیمنٹ فیکٹری میں ایک بہت ہی اچھا دوست(نام ظاہر کیے بنا) کام کرتا تھا۔وہ میرا سب سے قریبی دوست تھا اور ہے۔ہم دونوں ایک دوسرے کے بڑے بے تکلف دوست ہیں،وہ مجھ سے تقریباً زندگی کے ہر شعبے سے متعلق گفتگو اور تبادلہ خیالات کرتا رہتا تھا،ہماری مذہب پر بھی بات چیت ہوتی تھی،میں نے ہمیشہ اپنے ہر نظریے کا اظہار اپنے دوست کے سامنے کھل کر کیا  اور خدا کا شکر کہ ان لوگوں میں سے ہوں جن کو محافل میں نظریاتی تشخص رکھنے کی وجہ سے ایک خاص توجہ اور محبت مل جاتی ہے، میں محبت کو بھی رزق سمجھتا ہوں اور مفلس وہ ہے جسکی جھولی محبت سے خالی ہو، دینے سے بھی لینے سے بھی۔

میری اس دن رات کی ڈیوٹی تھی اور میں نے سلمان تاثیر کے قتل کی مذمت کی ایک پوسٹ لگائی  ۔ میرے دوست نے میری پوسٹ دیکھی اور پلانٹ پر ہماری گفتگو شروع ہو گئی ۔اسکو میری پوسٹ پر اعتراض تھا۔ بات کا آغاز ہی اس نے بڑے الگ سی جوشِ خطابت سے کیا جو قطعی طور پر اسکا کم ازکم میرے سامنے خاصہ نہیں تھا ۔ میں ٹھٹھک گیا ۔ میں نے اس سے بڑی آہستگی اور پیار سے تھوڑا مسکراتے ہوئے اس جانب توجہ دلائی ۔پھر اس سے دو تین بنیادی سوال پوچھے  کہ امام ابو حنیفہ کی تعلیمات کے مطابق توہینِ رسالتﷺ   کی سزا کیا ہے ؟  سلمان تاثیر کی وضاحت کے بعد بھی کیا اسکی جان لینا نا حق نہیں ؟ اور کیا جس بندوق کو آپ نے حلف اٹھا کر حفاظت کے لیے اٹھایا ہو اسے اسی شخص کو ناحق قتل کر کے دین کی خدمت ہو گی ؟ اور معاشرے میں اگر آپ نے ایک قتل کی اعانت کر دی تو اہلِ علم کے اس خدشے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں کہ اس طرح تو ہر گلی محلے میں قتل ہونے لگیں گے اور دیس ایک مقتل بن جائے گا۔  پہلے سے کمزور تر ریاست کا نام و نشان ہی باقی نہیں رہے گا۔  تب آپ کیا کریں گے ؟

یہ سوالات اور نظریات اس سے پہلے میری منزلت کا باعث ہوتے تھے لیکن اس نے اور شدت اور درشتی سے انتہائی زہر آلود لہجے میں کہا جو کچھ بھی ہے بہرحال اس بارے میں ،میں کچھ نہیں سن سکتا۔  میں نے کہا جب تو سننا ہی کچھ نہیں چاہتا تو پھر بات کیوں کر رہا ہے۔ ۔ چھوڑ پھر، چائے منگوا،سگریٹ لگا ۔یہ بات میں نے ہنستے ہوئے کہی لیکن میرے ساتھ قہقہے بانٹنے والا میرا یار نہ ہنسا ۔ مجھے اب بھی اسکی خشمگیں نگاہیں یاد ہیں کہ میرے سامنے اس وقت میرا جگری یار نہیں بیٹھا تھا،ایک مذہبی جنونی بیٹھا تھا۔

دوسرا واقعہ بھی ایک عزیز و اقارب کی محفل کا ہے۔  تقریبا ً20،25 افراد کی ایک بیٹھک ہے  اور اس میں ایک آدمی بڑھ چڑھ کر ممتاز قادری کے حق میں بات کر رہا ہے۔ اسکے الفاظ تھے۔۔۔ عشقِ رسول ﷺ میں جان بھی قربان ہے ۔توہینِ رسالت ﷺ کوئی کرے گا تو ہماری غیرت گوارہ نہیں کرے گی ۔یہ بات کرتے ہوئے اسکی آواز بلند ہو جاتی ہے۔  وہ داد وصول کرنے کے مخصوص انداز میں سب لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے خاموش ہو جاتا ہے ساری محفل عش عش کر اٹھتی ہے، کوئی کہتا ہے بے شک۔۔ کوئی کہتا ہے واہ واہ۔۔۔ اسکی نگاہ یکسر مجھ تک پہنچتی ہے  اور وہ مجھے خاموش پا کر کہتا ہے کیوں وقاص بھائی آپ کا کیا خیال ہے ؟؟؟ ۔میں کہتا ہوں میں جو بات کروں گا آپ کو شاید پسند نہ آئے ۔ وہ مجھے آگے سے کہتے ہیں، نہیں کیا آپ کی غیرت گوارہ کرے گی ؟ ۔میں نے عرض کیا جنابِ والا بات یہ ہے کہ 20، 25 لوگوں میں جب یہ سوال کیا جائے گا کہ کیا ناموسِ رسالتﷺ  تمہاری غیرت کا مسئلہ نہیں ہے ؟؟ تو کون کافر انکار کر کے بے غیرت کہلوائے گا  لیکن سلامتی کے دین کا تشخص میری نام نہاد غیرت سے کہیں بڑا ہے، ایک انسان کی جان کو پوری انسانیت قرار دیتا دینِ اسلام کیا مجھے یوں اپنی غیرت پر کسی کی جان لینے کا ازن دیتا ہے؟ کیا قرآن میں کسی انسان کی جان لینے کی دو وجوہات یعنی جان کے بدلے جان اور فتنہ و فساد فی الارض کے بعد تیسری وجہ میری غیرت کیا ،میری طرف سے اضافہ نہیں ؟

اللہ اور رسول ﷺ واضح طور پر ایک عاقل اور بالغ مرد اور عورت کو نکاح کی اجازت دیتے ہیں۔۔ لیکن خدا اور رسول ﷺ  سے یہ حق اور اجازت پاکر اپنے حق کا استعمال کرتے ہیں تو غیرت ہی کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔ تو کیا میری نام نہاد جغرافیائی غیرت دینِ خدا سے متصادم نہیں ہو جاتی ؟ اور اگر خدا نے قیامت کے روز اسے واقعی میں اپنے دین سے متجاوز اور متصادم قرار دے دیا تو کیا ہو گا  ؟ ۔غیرت کی تو تعریف ہی اپنے محرکات کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے اسے اگر ایک انسانی جان لینے کی کسوٹی بنا دیا جائے اور وہ بھی کائنات کی سب سے مقدس ہستی جنابِ رحمت للعالمینﷺ کے نام پر تو اس سے سلامتی کے دین اور رحمت للعالمین ﷺ  کے تشخص پر کیا اثر پڑے گا  ؟

اس کے جواب میں با ریش شخصیت نے لا جواب ہوتے ہوئے مخصوص انداز میں مجھے کہا بھئی جو کچھ بھی ہے،آپ ہمارے لیے محترم ہیں  لیکن آپ جذباتی باتیں کر کے ہمارا ایمان متزلزل نہیں کر سکتے ۔ایک بار پھر واہ واہ اور بے شک کی آوازیں مجھے اپنی سماعتوں میں وہی ابلتا ہوا زہر لگ رہا تھا جو ان سالوں میں لوگوں میں انجیکٹ کیا گیا تھا  اور میں آسمان کی طرف نمناک آنکھوں سے ایک نگاہ ڈال کر رہ گیا جہاں ایک سکوت طاری تھا جو جانے کب سے جاری تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply