جنت سے نکالے ہوئے لوگ(2،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

سب مل ملا کر نتیجہ شدید سر درد اور طبیعت میں بے زاری اور چڑچڑاپن۔ گھر پہنچی تو نور بےچین، روئے جائے، روئے جائے۔ پیٹ کی مالش بھی کر دی، اسپنج باتھ بھی

دے دیا۔ الٹا لیٹا کر ہلکے ہاتھوں سے پیٹھ تھپتھپاتی رہی۔ سارے ٹوٹکے آزما لیے۔ بڑی مشکل سے شام چھ بجے اس کی طبیعت کچھ بحال ہوئی اور دودھ پی کے سو گئ۔ میں بھی وہیں آڑی ترچھی کب بےسدھ ہوئی خبر ہی
نہیں۔ آنکھ حسیب کے جھنجھوڑنے پر کھلی۔
کیا نشہ وشہ کرنے لگی ہو؟
کب سے اٹھا رہا ہوں۔
پہلے تو کچھ سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے؟
دن ہے کہ رات ہے؟
پھر ابھی انہیں تفصیل بتانے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ کہنے لگے، جلدی سے کھانا لگاو سخت بھوک لگی ہے۔ آج دن میں باس سے منہ ماری ہو گئ تھی، اس چکر میں لنچ بھی گیا۔ میں نے کہا کھانا تو پکایا ہی نہیں ہے۔ نور کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اسی کے ساتھ لگی رہی اور وہ سوئی تو میری بھی آنکھ لگ گئ۔

یہ سنتے ہی حسیب تو آپے سے باہر ہو گئے۔ کیا بدسلیقہ عورت ہے۔ انسان آرام کے لئے کماتا ہے اور یہاں آرام تو دور کی بات وقت پر کھانا بھی نصیب نہیں ہے ۔ گدھے کی طرح کام کرو اور مہارانی صاحبہ پلنگ توڑ رہیں ہیں۔ میں تو بے یقینی سے انہیں دیکھتی رہ گئی۔ جب ان کی بک بک میں وقفہ آیا تو میں نے کہا کہ کھانا آڈر کر دیجیے، یہ کوئی ایسی بڑی بات تو نہیں ہے۔
ہاں میں تو درخت سے درہم توڑ رہا ہوں نا؟
تم بیٹھی اڑاتی رہو۔ اس قدر فضول اور واہیات بولے اس دن حسیب کہ میں تو دنگ رہ گئ۔ یہ کوئی اور شخص تھا حسیب تو نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ کھانا آڈر نہیں ہو گا ،تم کو ہی پکانا ہے اور ایک گھنٹے کے اندر اندر پکانا ہے۔
اس تمام جھک جھک بک بک میں نور نے اٹھ کر پھر رونا شروع کر دیا۔ میں نے نور کو وہیں

بستر پر روتا چھوڑا اور کچن میں آ گئی۔ جلدی جلدی پلاو اور چکن پکایا . کمرے سے وقفے وقفے سے نور کے رونے کی آوازیں آتیں رہیں اور ٹی وی کا والیوم فل بلاسٹ پر تھا۔ اس شخص کی بےحسی اور اپنی بےبسی نے بلبلا کر رکھ دیا۔ کھانا ٹیبل پر لگا کر نور کو اٹھایا، معصوم بچی سسکیاں لے رہی تھی۔ حسیب کے لئے نفرت کی ایک شدید لہر میرے دل نے محسوس۔
نور کو فیڈ کرا کر کوٹ میں لیٹا یا اور میں نے باتھ روم کی راہ لی اور کپڑے سمیت شاور کے نیچے کھڑی ہو گئ اور باتھ روم کا ہر نل کھول دیا۔ دل بھر کر رو لیا، مگر نہ دل ہلکا ہوا نہ غبار نکلا ہاں البتہ سر کے درد میں ضرور افاقہ ہوا۔
توہین کے احساس نے جھلسا کے رکھ دیا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد حسیب کا موڈ بلکل نارمل
تھا۔ اس شخص کے مزاج کی افتادی نے حیران

کرنے کے ساتھ ساتھ ڈرا بھی دیا تھا۔ کھانا سمیٹ کر فرج میں رکھا۔ خود میں اتنا غم و غصہ کھا چکی تھی کہ نہ کھانا کھانے کی گنجائش تھی اور نہ خواہش۔

رات کروٹیں بدلتے گزر ہی گئ۔ فجر کی نماز کے بعد شدید بھوک کا احساس ہوا۔ تقریبا بائیس گھنٹے گزر گئے تھے بغیر کچھ کھائے پئے۔ اپنے لئے دو پراٹھے اور دو انڈوں کا آملیٹ بنایا اور دو کپ گرما گرم چائے پی۔ اس اثنا میں نور بھی اٹھ گئ اس کو فیڈ کیا چینج کیا اور ہم دونوں ماں بیٹی سمندر کی طرف نکل گئے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے بیچ پر بیٹھ کر سمندر کو تکتی رہی اور بخارات کی پھوار سے روح کی ٹکور کی، پاوں تلے ٹھنڈی ریت نے روح کی تپش کو ایسے سرد کیا گویا
روح تک آ گئ تاثیر مسحائی کی۔
اس سے کافی آسودگی محسوس ہوئی۔ گھر

پر حسیب ابھی ابھی اٹھے تھے اور نہایت چونچال موڈ میں تھے۔ مجھ سے کہا کہ ذرا ملباری کو چائے پراٹھے کا آڈر تو دے دو پلیز ۔ میں نے حسب فرمان آڈر دے دیا اور آملیٹ بھی بنا دیا ۔ ناشتے کے بعد کل کے رویے کی معذرت کرنے لگے۔
میں نے کہا ہم دونوں کا کل کا دن خراب تھا. ہم دونوں نے دن کا کھانا نہیں کھایا تھا مگر اس طرح آپے سے باہر ہونا تو بہت ہی نامناسب
رویہ تھا۔ ہم لوگ اکثر باہر سے کھانا آڈر کرتے ہیں، کل ایسی کون سی قیامت تھی کہ گھر میں کھانا پکنا ضروری تھا۔ خیر حسیب کی طرف سے معافی تلافی ہوتی رہی مگر دل پر خراش پڑ گئ تھی. دو سالہ ازدواجی زندگی کی پہلی گرہ..۔ ہماری پھوپھی کہتی تھیں کہ میاں کا بھات کھانا لوہے کا چنا چبانا ہے۔ اس وقت ہم لوگ الہڑ پنے سے ہنستے تھے کہ پھوپھی جان بھی کیسی بات کرتیں ہیں۔

اب احساس ہوا تھا کہ کتنا صحیح کہتی
تھیں۔ جب آپ کی عزت نفس کی دھجی اڑائی جاتی ہے تو اس تکلیف کو انسان بیان کرنے سے قاصر ہے۔ خیر یہ سب شاید شادی شدہ زندگی کے پیکج میں شامل ہے۔ sanity برقرار رکھنے کے لئے تھوڑی بےحسی لازم ہے اور لڑکیوں کو چاہئے رخصتی سے پہلے لاڈ، نخرے اور عزت نفس کو ایک لفافے میں ڈال کر سربمہر کر دیں اور اپنے بک شلف میں موجود سب سے موٹی کتاب کے نیچے دبا دیں۔ پھر شادی شدہ زندگی یقینا قدرے آسان ہو جائے گی۔ چلیں اب ماضی کی کتھا بند کرتے ہیں۔

تین بجے کے قریب حسینہ آ گئ۔ تم آج کیسے؟
میں حیران تھی۔ آج تو جمعہ ہے چھٹی کا دن ۔
آپا تین چھٹی کر لیا تھا نا ،اس لئے آج آ گئ۔
مگر تم کو ہوا کیا ہے حسینہ؟

ٹھہرو تم نے کھانا کھایا ہے؟ جواب اس کے چہرے پر ہی لکھا تھا۔ میرا سوال ہی احمقانہ تھا۔ جلدی سے اس کو کھانا دیا ۔ اس نے بہت بےدلی سے کھایا۔ وہ اس قدر ٹوٹی اور بکھری ہوئی تھی کہ سچ مانو تو کچھ پوچھتے ہو ئے ڈر لگ رہا تھا۔ کھانا کھا کے پلیٹ کچن میں رکھنے گئ تو وہیں سے آواز دے کہ پوچھا آپا بھیا چائے پئے گے؟
میں نے کہا بھیا ہر وقت چائے پی سکتے ہیں بنا دو۔ حسینہ نے حسیب کو چائے دی اور ٹرے میں اپنی اور میری کپ لیکر لیونگ روم میں آ گئ۔ چائے پی کر کہنے لگی آپا آپ دوسرا ماسی ڈھونڈ لو ہم اگلے مہینے واپس بنگلہ دیش جا رہا ہے۔ میں خاموش رہی۔ پھر خود ہی ایک ٹرانس کی کفیت میں بولنے لگی
اب کس کے لئے محنت کروں۔ روپالی تو بھاگ گئ۔ اس کے پیچھے ہم نے اپنا جندگی مٹی کر دیا اور وہ ایک چھوکرا کی محبت میں ماں کو

لات مار کے چلی گئ۔ ہم اس کو پڑھا لکھا کر ایک عجت کا جندگی دینے مانگتی تھی۔ کیا کیا رے روپی، تو نے کیا کیا رے؟
سوب کھلاس کر دیا۔ اب کیا ہو گا؟
دو سال کے بعد ایک بچہ لے کے پھر ماں کے درواجے پر ہوگا اور کیا ہو گا۔ آج کل کے چھوکرا لوک کا بس یہی چار دن کا عاشقی ماشکی ہوتا ہے۔ ہم روپی کو کتنا بولی کہ پڑھ لے ماں مونی پڑھ لے ۔ جندگی بن جاتی۔ ماں کی طرح گھر گھر جھاڑو برتن تو نئی کرتی۔ پر نئی، اپنے آپ کو اجاڑ لیئے نا، ناس پیٹی نے۔ میرا جندگی بھر کا کمائی کھاک میں ملا دئیے۔
ہم اب کیا کرے آپا، بولو اب ہم کیا کرے؟
حسینہ کا بلکنا نہیں دیکھا جاتا ہے۔ اس کا خواب بکھر گیا تھا۔ وہ ایک خواب جو اس کو مہمیز رکھتا تھا، جو اس کی زندگی کی وجہ تھا وہی خواب چکنا چور ہو گیا۔ اس کو تسلی دیتی بھی تو کیا دیتی؟

میں خود نہیں جانتی تھی کہ روپالی جس کے ساتھ گئی ہے وہ واقعی مخلص ہے بھی کہ
نہیں۔ یہ محبت ہے یا صرف جوانی کا ابال ہے؟
زندگی بھی کیسی کیسی مار دیتی ہے۔

پھر حسینہ چلی گئ۔ دوسری کام والی آ گئی ، دنیا کا کاروبار کب رکا ہے۔ زندگی کھٹی میٹھی ٹافی کی طرح گھلتی جا رہی تھی شاید یہی اس کا حسن ہے۔ ایک دن وہی ملباری والا رات میں چائے دینے آیا تو میں نے اسے تازہ کھانا پیک کر کے دے دیا اور ساتھ ہی دس درہم بھی۔ اس کی آنکھوں کی حیرانی نے مجھے حیران اور شرمندہ کر دیا۔ کیا وہ انسانیت سے اتنا مجروح و مایوس تھا؟
پھر میں اکثر اس کو کھانے کے لئے کچھ نہ کچھ دینے لگی۔ اب بھی اس کی آزردیگی اور بے زاری ویسے ہی تھی مگر سر جھکائے جھکائے سلام ضرور کر دیتا تھا۔ پھر ایسا ہوا

کہ رات میں اس جگہ دوسرا ڈیلوری مین آنے لگا۔ اس بات سے مجھے ذرا بےچینی ہوئی کہ وہ کہاں گیا؟
کیا ہوا اس کے ساتھ؟
اس کی اداسی نے میرے اعصاب میں اپنے پنجے گڑا دیے تھے اور میں واقعی اس کے بارے میں متجسس تھی۔ میری اس عادت سے حسیب کو سخت چڑ تھی، سو میں نے ان سے اس کا کھوج لگانے نہیں کہا۔
کل اسکول سے وآپسی پر اتفاق سے گل خان بلڈنگ کا چوکیدار مل گیا. اس سے ملباری کے ڈیلوری مین کے بارے میں پوچھا؟
وہ کہنے لگا باجی وہ تو ایک ہفتہ ہوا مر گیا۔ اس نے خودکشی کر لی۔ اس کا باپ بار بار پیسے کا تقاضہ کرتا تھا۔ اپنے باپ کی بات پورا کرنے کے لیے بیچارا دو دو نوکری کرتا تھا۔ صبح کنسٹرکشن سائیٹ پر اور رات میں ملباری ہوٹل میں۔ ہوٹل والا اس کے گاوں کا ہے

اس لیے اس کو رات میں ہوٹل میں سونے کی جگہ دے دیا تھا، مگر اس کے باپ کا پیسے کا ڈیمانڈ ہی ختم نہیں ہوتا تھا۔ اس کا باپ اس کو ہر وقت برا بھلا بولتا تھا. کہتا تھا کہ تم ہم سے پیسہ چھپاتا ہے. پورا پیسہ نہیں دیتا۔
تم باپ کا حق مارتا ہے، تم جہنم میں جائے گا۔ وہ بہت پریشان تھا۔ بیچارہ تو پیٹ بھر کر روٹی بھی نہں کھاتا تھا باجی۔ وہ بولتا تھا کہ وہ بس اب خوکشی ہی کر لے گا، زندہ تو باپ کے کام نہیں آ رہا۔ جب ہم حادثے میں مرے گا تو حکومت پیسہ دیےگی. چلو تب ہی باپ کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جائے گی۔ زندہ نہ سہی، مردہ بیٹا تو کام آوے۔
اس کا ایک چھوٹا بیٹا بھی ہے۔ اس کو یاد کر کے بہت روتا تھا۔ بس ہفتہ پہلے کام پر اس کو فورمین نے غصہ کیا اور گالی مالی بھی دیا بس وہ چھٹی منزل سے نیچے کود گیا۔ اب تو اس کا لاش بھی ڈیرہ غازی خان چلا گیا۔

مجھے تو چکر آ گیا۔ کس قدر سفاک دنیا ہے۔
کیسے ہیں ہم لوگ؟
انسان کو بےدست وپا کر کے اس سے جینے کا حق بھی چھین لیتے ہیں۔ اس کو اتنے کچوکے دیتے ہیں، اتنا زخم لگاتے ہیں کہ اس کو موت ہی راحت اور نجات دہندہ لگنے لگتی ہے۔
کیا ہم لوگ واقعی اشرف المخلوقات ہیں؟
یا اب گدھ سے بھی بدتر ہو گئے ہیں؟
گدھ بھی صبر سے اپنے شکار کی موت کا انتظار کرتا ہے۔ ہم لوگ تو زندہ انسان کو نوچ لیتے ہیں، گھائل کر دیتے ہیں۔ ان کو جیتے جی مار دیتے ہیں۔

میرے چارہ گر کو نوید ہو، صف دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چکا دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

از قلم
شاہین کمال
کیلگری

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply