صحافت کےشگوفے۔۔ارشد غزالی

مخصوص ایجنڈے اور ذہن سازی پر مامور کچھ دانش ور اور صحافی ہر چند دن بعد اپنی زنبیل سے نت نئی گھڑی ہوئی خبریں نکالتے ہیں کبھی حکومت کے جانے کی ،کبھی میاں صاحب کی واپسی کی، کبھی کرسی اور صوفے کے ساتھ ٹوپی پہننے اور اتارنے کی ،کبھی غیر ملکی دوروں کی ناکامی کی، کبھی سیاسی و عالمی تنہائی کی، کبھی حکومت اور اداروں کا پیج پھٹنے کی، مگر صحافت اور سیاست کے عمرو عیاروں کے مقابل جب سچائی اور دلائل کی جادوگری جلوہ دکھاتی ہے تو ان کا سارا پروپیگنڈہ ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے، ایسے میں جب انھیں حکومت کے خلاف اور کچھ نہیں ملتا تو ذاتیات پر کیچڑ اور غلاظت اچھال کر غیر صحافتی مہارت و تربیت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ردِ عمل میں خود ان کی طرف لوٹ جاتا ہے کہ اس حمام میں سب ہی کے دامن داغدار ہیں۔

پچھلے چند دنوں میں تحریک عدم اعتماد کے لئے جس اپوزیشن کے اکٹھے ہونے اور حکومتی اتحادیوں کو توڑنے کے دعوے کئے جاتے رہے بنیادی طور پر وہ کچھ پارٹیوں کی اپنی قیمت بڑھانے، کچھ کی سیاست میں  رہنے اور کچھ کی صرف آنیاں جانیاں تھیں، مگر چھوٹے میاں صاحب کے لئے عمران خان کا جانا فنا اور بقاکا معاملہ تھا کہ عدالتیں اور نیب تو “مینج” ہونا ممکن تھا ،مگر ایف آئی اے کا مقصود چپڑاسی والا کیس گلے میں اٹک چکا ہے جس کی ڈور کا سِرا خود وزیراعظم نے سنبھالا ہوا ہے کیونکہ یہ تحریک انصاف کے لئے بھی لائف لائن ہے کہ بڑے میاں صاحب اور ان کی دختر نیک اختر کے نا اہل ہونے کے بعد خاندان کو سنبھالنے اور ریلیف دلوانے کی واحد امید اور سہارا بھی چھن کر نااہل ہوگیا ،تو نون لیگ میں سے ہی کئی لوگ ضیاءالحق کے زمانے کے بغیر پہیوں اور باڈی کے نون لیگی ٹرک کو دانتوں سےکھینچنے کے لئے کھڑے ہوجائیں گے جو پارٹی کی تقسیم کے ساتھ ساتھ سیاسی نقصان کا باعث بھی بنے گا اور شریف خاندان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ٹمٹماتی امید کی آخری کرن چھوٹے میاں صاحب کے بعد ملکی سیاست میں نون لیگ کے پاس کوئی قابل ِذکر نام نہیں، جسے عوامی سطح پر اس حد تک پذیرائی حاصل ہو کہ وہ کھوئی ہوئی عظمت رفتہ بحال کروا سکےاور پارٹی کو واپس طاقت کی راہداریوں میں لے جا سکے ،اس لئے چوہدری برادران جیسے دیرینہ حریفوں سے لے کر ایم کیو ایم تک اور جہانگیر ترین سے لے کر گیٹ نمبر چار تک “تیرے آستاں کی تلاش میں ہر آستاں سے گزر گیا” مگر نتیجہ وہی دھاک کے تین پات ،صفر ہی رہا ۔اور ہر جگہ “بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے” کی  ذہن سازی اور پروپیگنڈے پر مامور صحافیوں اور نام نہاد دانش وروں کا شوروغل ہمیشہ کی طرح شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری تھا ،جو ہر بار کی طرح “صفحے” کے ایک ہونے کی سچائی کے بوجھ تلے دفن ہونا ہی تھا کہ سب کے بڑے ابو ٹوپی پہنیں یا اتاریں وہ لائف لائن بڑھاتے چلے جانے کو اس لئے بھی مجبور ہیں کہ چین کے حالیہ دورے اور روس کے آئندہ دورے تک اور دیگر اہم معاملات کے پیش نظر حکومت کے ساتھ قدم ملانا ملکی سلامتی اور استحکام کے لئے ضروری ہے اور خاص طور پر جب نہ تو اپوزیشن کے پاس اپنے نمبر پورے ہیں نہ ہی ان کی صفوں میں اتحاد ہے اور نہ ہی موجودہ حکومت کے ہٹائے جانے کے بعد معیشت اور ملکی بہتری کے لئے ان کی پٹاری میں کوئی معجزہ ،ایسے میں جب تین بار ماضی میں ڈسے جانے اور ہر بار بلیک میلنگ اور دھمکیوں کا بھی طویل ریکارڈ ہو تو مومنانہ فراصت یہی ہے کہ سب کو لالی پاپ ملنےکے آسروں پر رکھ کر وقت گزار دیا جائے۔

Facebook Comments

ارشد غزالی
Columinst @ArshadGOfficial

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply