بحرین میں انقلابی تحریک کے گیارہ برس۔۔علی احمدی

بحرین پر 1975ء سے آل خلیفہ رژیم کا قبضہ ہے اور اس وقت سے لے کر آج تک آل خلیفہ رژیم انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کرنے میں مصروف ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں آل خلیفہ کا نام آل سعود رژیم کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ ان دونوں کا مشترکہ پہلو پرامن عوامی احتجاج کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال ہے۔
بحرین میں اہل تشیع پر حکومتی ظلم و ستم
بحرین پر حکمفرما ٹولہ قبائلی سوچ اور منطق رکھتا ہے جس کی بدولت اس نے مقامی شیعہ آبادی کو طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت شدید امتیازی سلوک کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ اگرچہ اہل تشیع اس جزیرہ نما خلیجی ریاست کے اصل باسی ہیں۔ درحقیقت بحرین میں صورتحال باقی ممالک سے برعکس ہے۔

باقی ممالک میں اقلیتی آبادی کے ساتھ امتیازی سلوک اختیار کیا جاتا ہے جبکہ بحرین میں ایک اقلیتی حکمران ٹولہ اکثریت پر مبنی شیعہ آبادی کو ظلم و ستم اور امتیار رویے کا نشانہ بنا رہا ہے۔ یاد رہے بحرین کی آبادی کا 75 فیصد سے زیادہ حصہ اہل تشیع پر مشتمل ہے۔ البتہ بحرین کے دیگر شعبے بھی مشابہہ صورتحال کا شکار ہیں کیونکہ ہر شعبے میں آل خلیفہ رژیم نے انتہائی تعصب آمیز اور یکطرفہ پالیسیاں اپنا رکھی ہیں۔ 1990ء کے عشرے سے اب تک ملک میں شدید بیروزگاری پھیلتی جا رہی ہے اور فروری 2011ء میں شروع ہونے والی انقلابی تحریک کا ایک بڑا سبب یہی بیروزگاری تھا۔ مختلف ذرائع کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بحرین میں بیروزگاری کی شرح 15 فیصد سے زائد ہے لہذا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں حکومت سے ناراضگی بڑھتی چلی جائے گی۔

آل خلیفہ کی آمریت، بحرین میں عوامی انقلاب کی بڑی وجہ
بیروزگاری سے پیدا ہونے والے مسائل اور مشکلات نے بحرینی عوام کو شدید متاثر کیا ہے۔ اس کا اہم ترین اثر ان کی آمدن میں کمی ہے۔ بحرین کے غریب دیہاتی علاقوں میں عوام کی معیشتی اور سماجی مشکلات اور   صحت کے شعبے میں مشکلات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایسی صورتحال کے نتیجے میں یہ دیہات ویرانے بنتے جا رہے ہیں اور وہاں کے باسی نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس وقت تمام حکومتی عہدوں پر آل خلیفہ خاندان کا قبضہ ہے اور عوام کو حکومتی معاملات سے تقریباً بے دخل کر دیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ شدید کرپشن کی صورت میں ظاہر ہوا ہے اور حکومتی عہدیدار عوامی دولت کی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔

دوسری طرف آل خلیفہ رژیم اسلامی اقدار سے بھی دور ہوتی جا رہی ہے جس کے باعث عوام میں اس سے شدید بیزاری پائی جاتی ہے۔ یہی آمریت اور استبداد عوام کی جانب سے احتجاج اور انقلابی تحریک کے آغاز کا باعث بنا تھا جس کا عروج 14 فروری 2011ء کے دن دیکھا گیا۔ اس انقلابی تحریک میں عوام کی جانب سے پیش کردہ چند اہم مطالبات ملک میں سیاسی تبدیلیاں اور اصلاحات انجام دینے، جیل سے سیاسی سرگرم رہنماوں کی آزادی، جلاوطن کئے گئے مخالف سیاسی رہنماوں کو ملک واپسی کی اجازت دینے اور دیگر ممالک کے افراد کو بحرین کی شہریت دیئے جانے کے سلسلے کو روکنے پر مشتمل تھے۔ البتہ بحرینی عوام کی انقلابی جدوجہد کی تاریخ اس سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ اس بارے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اس انقلابی جدوجہد میں اہل تشیع کے ساتھ ساتھ بحرین کے اہلسنت شہری بھی شامل ہیں۔

بحرینی عوام کو کچلنے میں امریکہ اور سعودی عرب کا کردار
بحرین پر حکم فرما آل خلیفہ رژیم نہ ہی ملک کے اندرونی معاملات میں اور نہ ہی علاقائی اور بین الاقوامی امور میں آزاد فیصلے اختیار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ حقیقت یہ ہے کہ آل خلیفہ رژیم امریکہ اور سعودی عرب سمیت مغربی اور عرب ممالک کی کٹھ پتلی حکومت ہے۔ جب آل خلیفہ رژیم نے خود کو عوام کی انقلابی جدوجہد کے مقابلے میں عاجز اور ناتوان محسوس کیا تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے مدد کی درخواست کی۔ یوں 15 مارچ 2011ء کے دن امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کے دورہ بحرین کے ساتھ ساتھ سعودی سکیورٹی فورسز بھی عوامی جدوجہد کو کچلنے کی غرض سے بحرین میں داخل ہو گئیں۔ کچھ ہی دن بعد متحدہ عرب امارات نے بھی اپنی سکیورٹی فورسز بحرین بھیج دیں۔ یوں عوام کی انقلابی تحریک کو طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی گئی۔

بحرین کا عوامی انقلاب جاری ہے
ستمبر 2020ء میں آل خلیفہ رژیم نے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا معاہدہ کیا۔ اس اقدام نے بحرینی عوام کے اندر غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ آل خلیفہ کی آمرانہ رژیم کے خلاف پہلے سے جاری عوامی انقلابی تحریک مزید شعلہ ور ہو گئی۔ آل خلیفہ رژیم اگرچہ بیرونی استعماری طاقتوں کے سہارے اپنا اقتدار باقی رکھنے کی تگ و دو میں مصروف ہے لیکن تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ کسی بھی خطے میں غیر جمہوری طاقت عوامی طاقت کا زیادہ عرصے تک مقابلہ نہیں کر سکتی اور آخرکار زوال اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ اس کا واضح ثبوت مصر، لیبیا اور یمن جیسے عرب ممالک میں قابل مشاہدہ ہے۔ ان ممالک پر حکمفرما آمرانہ حکومتیں امریکہ اور مغربی طاقتوں کی حمایت کے باوجود عوامی انقلاب کے سمندر میں بہہ گئے اور تاریخ کی کوڑے دانی کی نذر ہو گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply