​تو موت خود ہی مر گئی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

سترہ جنوری کی رات حرکت قلب کچھ دیر کے لیے بند ہو گئی۔ میں بستر پر نیم بے ہوش ساکت پڑا رہا ، لیکن پھر ایک جھٹکےسےدل کی دھڑکن استوار ہو گئی۔ اس دوران میں ذہن ماؤف تھا

یہ موت بھی عجیب تھی

Advertisements
julia rana solicitors

کہ پاس تھی، قریب تھی
کھڑی ہوئی، رُکی ہوئی
(ہزار ساعتوں سے انتظار میں)
کہ اِذن کب ملے اُسے
عجوبگی ؟ زٹل؟ ٹھٹھول؟
نہیں، نہیں، نہیں، نہیں
کہ موت خود تھی مضطرب
کہ میری روح قبض ہو
تو اور آگے چل سکے
تھے اس کے سامنے مگر
ہراس، ہول، وسوسے
جو اک فصیل کی طرح
ڈٹے ہوئے تھے سر بسر
یہ خوف و بیم، خرخشے
بقا میں پائدار تھے
یہ چشم داشت جب ہوا
کہ ان سے افتراق کی
کوئی نہ آس تھی اُسے
حواس باختہ ہوئی
تو موت خود ہی مر گئی!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply