خدا کرے ناطق کبھی آسودہ حال نہ ہو۔۔عامر حسینی

الجھنوں کے ساتھ جیتے دیکھیں گے تو اس بات کا امکان پیدا ہوگا کہ آپ اس کی فردیت ، اس کی یکتائی ، اس کے چھوٹے چھوٹے دکھ سکھ ، اس کی جنسی زندگی سچائی اور جھوٹ ، اس کی خوشی اور غم کو دیکھ اور دکھا سکیں ۔ یہ زندہ سنساریوں کے کام ہیں جو زندہ انسانوں کے بیچ سانس لیتے ہیں تبھی تو وہ ایسا فکشن تخلیق کرلیتے ہیں جو پڑھنے والے کو جکڑ لیتا ہے اور اسے قاری کو تلاش کرنے کے لیے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہیں مارنی پڑتیں۔
وارث علوی فکشن کا المیہ

“ناول کہانی بیان کرنے کے ہرمُسَلَّمَہ تصور کو منہدم کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔”

رحمان عباس

“ناول جتنا زیادہ ڈسکس ہوتا ہے، اتنے پہلو سامنے آتے ہیں۔ ناول کا فن امکانات کا فن ہے۔”

رحمان عباس

علی اکبر ناطق سے میرا پہلا تعارف غائبانہ تھا اور ان کی نظم گوئی کے حوالے سے تھا۔ یہ غائبانہ تعارف آصف فرخی کے رسالے “شہر زاد” سے ہوا- آصف فرخی نے علی اکبر ناطق کی نظموں کو شائع کیا اور ان کی دل کھول کر داد دی ۔ پھر فہمیدہ ریاض نے بھی ان کی نظموں کی بہت تعریف کی اور تو اور شمس الرحمان فاروقی بھی ان کے مداح نکل آئے جس کی سچی بات ہے کہ مجھے اتنی خوشی نہیں ہوئی ۔ میرا دل کرتا تھا کاش شمس الرحمان فاروقی اپنی شعری بوطیقا کو علی اکبر کے فکشن پہ لاگو کرتے اور بطور فکشن نگار ان کو رد کردیتے۔ اس کے بعد علی اکبر ناطق اپنے لفظوں کے نشتر شمس الرحمان فاروقی پہ چلاتے تو ہمیں ایک زبردست “نثری ہجو” پڑھنے کو ملتی ۔

میں شاعر علی اکبر ناطق کو جانتا تھا اور میری کم علمی یا بے خبری کہیے کہ میں فکشن نگار ناطق کو اس وقت بھی نہیں جان پایا جب اس کا شہرہ آفاق ناول “نولکھی کوٹھی ” سانجھ پبلیکیشنز” لاہور سے شائع ہوئے کافی عرصہ گزر چکا تھا اور پھر اسے عکس پبلیکیشنز لاہور نے شائع کیا اور انہوں نے ان کے افسانوں کے دو مجموعے بھی چھاپے۔ انہی دنوں میری کتاب”کوفہ: فوجی چھاؤنی بننے سے سیاسی سماجی تحریکوں کا مرکز بننے تک” شائع ہوئی تھی ۔ناطق کو وہ کتاب پڑھنے کو ملی اور انھوں نے اس کتاب پر اپنا تبصرہ فیس بک پہ لکھا اور بات یہاں سے شروع کی “عامر حسینی کون ہیں، کیا ہیں یہ تو میں نہیں جانتا اور نہ ہی ذاتی طور پہ ان سے واقف ہوں مگر ان کی کتاب بتاتی ہے کہ ابتدائی اسلام اور ابتدائی مسلم معاشروں کی تاریخ پہ ان کا علم شاندار ہے” ۔ فیس بک پہ ان کا یہ تبصرہ میں نے عکس پبلیکیشنز کے پرانے دفتر واقع جوہر ٹاؤن کے گیسٹ روم میں پڑھا تھا ۔ رات کے دس بجے تھے اور اس گیسٹ روم میں سامنے ایک اسٹول پہ ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” اور ان کے افسانوں کا مجموعہ “قائم دین ۔” کے نسخے پڑے تھے۔ میں نے “نولکھی کوٹھی ” کا ایک نسخہ اٹھایا اور پڑھنا شروع کردیا اور اس کے بعد پڑھتا چلا گیا اور صبح کے پانچ بجے تک اس ناول کی قرآت ختم کرلی ۔ ناول کی لینڈ اسکیپ اوکاڑا، گوگیرہ ، فاضلکا سے میں اچھے سے واقف تھا اور اس لینڈ اسکیپ کو لیکر بار بار میرے ذہن میں شوکت صدیقی کے ناول “جانگلوس” کی لینڈ اسکیپ گردش کرتی رہی۔ مجھے “نو لکھی کوٹھی ” پڑھ کر اپنے آپ پہ شدید غصّہ آیا اور مجھے سانجھ پبلیکیشنز کے مالک کی یاد بھی آئی کہ جب کبھی لاہور میں ان کی دکان میں آتا تو وہ مجھے ناطق کے ناول “نو لکھی کوٹھی” پڑھنے کو کہتے لیکن میں ٹال جاتا- اب افسوس ہوا کہ ان کو کیوں ٹالتا رہا۔

ناطق سے میری پہلی ملاقات عکس پبلیکیشنز کے ٹیمپل روڈ پہ میاں چیمبرز میں بنے دفتر میں ہوئی اور وہیں ناطق نے مجھے اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔

اس کے بعد میری ناطق سے ملاقات لاہور کی ایک دور دراز کالونی میں ہوئی جہاں انھوں نے اپنا دفتر اور رہائش اکھٹی رکھی ہوئی تھی ۔ ان دنوں وہ امام علی علیہ السلام پہ اپنی کہے قصیدوں کی کتاب مرتب کرنے میں لگے تھے جو بعد ازاں “در عدالت علی (ع س) ” کے نام سے شائع ہوا۔ اور اس ملاقات کے بعد بھی کئی ملاقاتیں ہوئیں ۔میں اسلام آباد میں ان سے ملا اور پھر وہ ملتان آئے تو ان سے ملاقات ہوئی ۔

ناطق سے ملنے کے بعد مجھے بڑی شدت سے یہ احساس ہوا کہ وہ پیٹی بورژوازی کلاس کے “زمانہ ساز” اوسط درجے کی ذہانت رکھنے والے ادیبوں میں سے نہیں ہے جو کئی سطحوں پہ زندگی گزارنے کے ماہر ہوتے ہیں ۔”ّ پنڈی گئے تو پنڈی داس جمنا گئے تو جمن داس”۔اور وہ جو محسوس کرتا ہے، دیکھتا ہے ، سمجھتا ہے اسے ہی بیان کردیتا ہے ۔ اسے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈر اپنے محسوسات چھپانے پہ مجبور نہیں کرتا۔ آؤٹ سپوکن ہے وہ ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ادیبوں اور نقادوں کی کسی مخصوص لابی میں اپنے آپ کو سمو نہیں پاتا۔

میں جن دنوں ناطق سے ملا تو مجھے معاصر ادیبوں سے یہ گلہ رہتا تھا کہ ان کے ناول اور کہانیاں ہمارے سماج کے آشوب کا احاطہ نہیں کرتیں۔ پاکستان میں شدت پسندی، بیوروکریسی،جبری گمشدگیاں، منشیات، استحصال، ٹارگٹ کلنگ، معاشی مسائل، فیکٹریوں میں مزدوروں کا استحصال، ذخیرہ اندوزی، محبت، ہوس، گروہی اختلافات، زمین کے جھگڑے، غربت، انتقام، کرپشن، مقدمے، قتل، اور فلمی دنیا اور این جی اوز، بلاسفیمی اور نسلی و مذہبی شناختوں پر منظم کمتر بنانے اور نسل کشی جیسے مظاہر ان کے فکشن میں جگہ نہیں پارہے۔ میں نے برملا یہ گلہ ناطق سے بھی کیا اور اسے کہا کہ اس ملک میں 25 ہزار سے زیادہ پاکستانی شہری جن میں زیادہ تر مختلف شعبوں کے ماہر دماغ تھے جن میں  200 سے زائد ڈاکٹر تھے اپنی شیعہ شناخت کے سبب مارے گئے لیکن اتنی بڑی ٹریجڈی پہ ہمیں سوائے مسعود اشعر کے ایک افسانے کے دوسرا افسانہ یا کہانی پڑھنے کو نہ ملی ۔ ناطق نے میری بات کو غور سے سنا اور ایک لمبی “ہوں۔۔۔” کرکے رہ گیا۔ بات آئی گئی ہوگئی اور پھر 2020ء میں مجھے اس کے دوسرے ناول “کماری والا” کے چھپنے کی اطلاع ملی ۔ میں نے بک کارنر والوں سے یہ ناول منگوایا اور تین دنوں میں اس ناول کو پڑھ کر ختم کردیا۔ یہ ناول عصری حسیت سے بھرا پڑا تھا اور ان تمام عصری موضوعات کو چھوتا تھا جن کی طرف میں نے اس نشست میں اشارہ کیا تھا۔

کماری والا ناول کا مرکزی کردار “ضامن علی ” ہے جو اس ناول کی کہانی کا “راوی ہے۔ اور وہ اس کہانی کو ہمیں فلیش بیک کی تکنیک کے ساتھ کہانی سناتا نہیں بلکہ سینمائی فلم کی طرح دکھاتا ہے ۔ ہمارے ہاں عام طور پہ کہا جاتا ہے کہ اردو کے معاصر فکشن نگاروں نے اپنے فکشن میں سینمائی تکنیک کو استعمال نہیں کیا جس کے سبب فلم اور ڈرامے نے ناول کی بڑے پیمانے پہ پذیرائی کے امکان کو دھندلا دیا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں پاکستان کے معاصر فکشن نگاروں میں علی اکبر ناطق اور ہندوستان میں رحمان عباس اور محسن خان نے فکشن میں سینمائی تکنیک کے استعمال کو مہارت سے برتا ہے اور انہوں نے نام نہاد جدیدیت پرستوں کی نام نہاد لسانی تشکیلات کے گورگھ دھندے میں پلاٹ اور کہانی کو دفن نہیں کیا، اسی لیے ان کے پڑھنے والوں میں ادب کے فہم کی مختلف سطحیں رکھنے والے قارئین کی بہت بڑی تعداد شامل ہے۔ اور یہ عصر حاضر کے ایسے اردو ادیب ہیں جن کے ناولوں کی طلب بازار میں پاپولر ادب لکھنے والوں سے کم نہیں ہے۔

“کماری والا” ناول اگرچہ “نولکھی کوٹھی” جتنا بڑا ناول تو نہیں ہے اور نہ ہی یہ شہرت کے اس مقام پہ ہے جو مقام “نولکھی کوٹھی ” کو ملا لیکن اپنی اشاعت کے فوری بعد اس نے بھی بہت بڑی تعداد میں قارئین کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اس ناول پہ تاثراتی اور تنقیدی مضامین کی بہت بڑی تعداد ویب سائٹس پہ موجود ہے۔ جبکہ کئی ادبی رسالوں میں اس پہ مضامین شائع ہوئے ہیں۔ ہندوستان کے معروف شہر لکھنؤ سے ہمارے بزرگ دوست قاضی ذکریا نے “کماری والا” کو شائع کیا ہے اور اس کا ہندی ترجمہ بھی زیر طبع ہے۔

ناول کی تہذیبی جگہ پنجاب کے دیہات ہیں لیکن ناطق ساتھ ساتھ ہمیں اسلام آباد اور کراچی جیسے میٹروپولٹن شہروں کی زندگی سے بھی روشناس کراتا ہے۔ کماری والا کا موضوع ، ٹریٹ منٹ اور زبان کا استعمال اسے معاصر ناولوں میں اہم مقام عطا کرتا ہے ۔ وقت / زمان کی رو اس ناول کی اہم خاصیت ہے جو کرداروں کی داخلی اور خارجی دنیا کو اتھل پتھل کرتی رہتی ہے اور ان کی حقیقتوں کی کایا کلپ کرتی ہے۔ ناول کا راوی “ضامن علی ” بھی وقت کی رو میں بہتا ہوا کیا سے کیا ہوجاتا ہے اور ترقی کا نیولبرل سرمایہ داری ماڈل جب شہروں سے ہوتا ہوا گاؤں اور چکوک میں پہنچتا ہے تو یہ کیسے ماحول سے عدم مطابقت کے سبب دیہات کی ایکولوجی کو تباہ کرتا ہے اور کیسے زرعی رقبے کنکریٹ کے جنگل میں بدلتے ہیں اس ناول میں ہمیں یہ ترقی معکوس صاف نظر آتی ہے۔ ناول کی ابتداء میں ہمیں کیسے ہریالی نظر آتی ہے جو آخر میں پیپل کے درخت کے زرد پتوں میں بدل جاتی ہے۔

معروف نقاد شاہد صدیقی اس ناول کے تنقیدی جائزے کے تحت کیا خوب لکھتے ہیں

“گاؤں کے ہرے بھرے درخت جو پرندوں کی آماجگاہ تھے ڈیولپمنٹ کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ یہ عروج سے زوال کا عبرت انگیز سفر ہے۔ ناول کی کہانی کا آغاز سربلند درختوں اور ہرے بھرے کھیتوں سے ہوتا ہے اور اختتام پیپل کے ان زرد پتوں پر ہوتا ہے جن سے جواں مرگ شنرا کی قبر ڈھک گئی ہے۔ لیکن اسی پیپل کی ایک شاخ پر کہیں سے اڑتی ہوئی سرمئی چڑیا آ کر بیٹھ جاتی ہے جو اپنی آواز اور جاذبیت میں شنرا سے کم نہیں۔ یہ چڑیا در اصل امید کا استعارہ ہے جس سے زندگی قائم اور جینے کی آرزو باقی ہے۔ امید اور رجائیت کا یہی استعارہ اس ناول کا پیغام ہے۔”

بڑے ناول پر سامنے آنے والا ردعمل ہزار طرح کا اور ہزار سمت ہوتا ہے ۔امر واقعہ یہ ہے کہ بسا اوقات ایک بڑا ناول اپنے تخلیق کار کے ادراک کی حدود سے بھی آگے نکل جاتا ہے ، یا نکلنے کی کوشش کرتا ہے

پروفیسر شاہد کامران “

Advertisements
julia rana solicitors

کماری والا بڑے اور چھوٹے ناول کے درمیان کی چیز ہے۔ لیکن اس پہ بھی ردعمل ہزار طرح کا اور ہزار سمت ہے۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply