میرے آبائی علاقے میں ایک نیم خواندہ ، نان بائی نوجوان نہایت خوب صورت شاعری کرتا ہے، گاؤں جانا ہو تو وہ راستے میں پڑتا ہے، اکثر سلام دعا ہی ہوتی ہے، کبھی کوئی بہانہ بن جائے تو بیٹھک ہوجاتی ہے، ایسے موقعے پراس سے اس کے اشعار سننے کی فرمائش کرتا ہوں، اس دفعہ سردیوں کی چھٹیوں میں چند لمحوں کے لیے بیٹھے تو میری فرمائش پر ایک خوب صورت غزل سنائی۔ مطلع تھا:
ایک درویش میرے گاؤں میں
اسم پھونکے ہے آتماؤں میں
اس کی ایک اور غزل کے چند اشعار آپ کو اس کے غیر معمولی ٹیلنٹ کی داد پر مجبور کریں گے، کہتا ہے:
کیوں بناتا ہے بار بار مجھے
کوزہ گر چاک سے اتار مجھے
یوں نہ ہو تاب ہی نہ لائے کوئی
اس قدر کر نہ تاب دار مجھے
جاتے جاتے فقیر بستی سے
کر گیا مجھ پر آشکار مجھے
پسِ دیوار دیکھ سکتا ہوں
نظر آتا ہے آر پار مجھے
قیصر عباس قیصر کی خوب صورت شاعری میں سے کچھ اور بھی شئر کرنے کی کوشش کروں گا، ان شاء اللہ۔
کیا کہنے، بھئی۔
کلام کی پختگی اور روانی سے تو یہ نوجوان کسی طور پر ناخواندہ معلوم نہیں ہوتا۔ ڈھیروں داد!