گھڑے کی مچھلی۔۔ربیعہ سلیم مرزا

بچے اسکول گئے تو گھر سمیٹتے سماٹتے گیارہ بج گئے ۔
اپنے لئے چاء بنائی۔ دوسرے گھونٹ پہ ہی یاد آگیا
“مجھے تو نہانا تھا ۔؟
کپ وہیں چھوڑکر غسلخانے جاکے ٹونٹی کے نیچے ہاتھ رکھا ۔شکر ہے ۔۔پانی ہلکا گرم تھا ۔
“چائے پیتے پیتے نہانے جوگا ہو ہی جائے گا ”
واپس آکر چائے کے دو گھونٹ پئے تو یاد آیا، مرن جوگا شیمپو نہیں ہے ۔سعید کو دس بار کہو تب کوئی شئے آتی ہے ۔
چائے کا ایک لمبا گھونٹ لیا ۔پرس میں سے دس کا نوٹ نکالا، اور دروازہ کھول کر گلی میں جھانکا ۔
کوئی بچہ نظر آجا ئے تو دو ساشے شیمپو منگواؤں ۔
کرونا کے دنوں میں گلی جنجال پورہ بنی رہتی تھی ۔اب دور دور تک کوئی بچہ دکھائی نہیں دیا ۔۔۔
دل چاہا۔۔ دو فرلانگ پہ شیخ کی دکان ہے ۔ایک منٹ میں لوٹ آؤں گی ،مگر چوڑ چپٹ گھر چھوڑ کر جانے کو دل نہ چاہا ۔
واپس مڑنے ہی لگی تھی کہ آواز آئی
“تازی مچھی ”
آواز کی طرف دیکھا، سائکل پہ پھیری والا تھا۔۔۔
سعید کو کتنی بار کہا کہ دھند پڑ رہی ہے ۔بچوں کو مچھلی کھائے کتنے دن ہوگئے ۔
“دریائی مچھی “پھیری والے نے پھر آواز لگائی
مجال ہے جو کوئی چیز وقت پہ آجائے ۔میرا اپنا مچھلی کھانے کو اتنا جی چاہتا تھا، چنانچہ رک کر سائکل والے کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگی،
مجھے کھڑی دیکھ کر وہ تیز تیز سائیکل گھسیٹتا آگیا،
“کیا بھاؤ لگائی ہے مچھلی “؟
“باجی، فارمی ڈھائی سو تے دریائی موٹا دانہ تن سو ”
اتنا کہہ کر اس نے سائکل دیوار کے ساتھ ٹیکی اور پیچھے بندھے چھابے سے کپڑا ہٹادیا ۔
“یہ فارمی رہو ہے ڈیڑھ ڈیڑھ ،دو دو کلو کا دانہ ہوگا “اتنا کہہ کر اس نے تکڑی اٹھائی ۔۔۔۔
“کتنی کردوں “؟
“دریائی کون سی ہے ۔۔۔؟میں نے چھابے میں یونہی جھانک کر پوچھا تو اس نے سائیکل کے درمیان والی چلونگھی میں سے ایک دو دانے نکال کر چھابے میں رکھے، اچھے تھے،
“ان کے ڈھائی سو لگا، دونوں تول دے ،کتنے کلو کے ہوجائیں گے “؟
میں نے پوچھا تو اس نے تول دئیے،
گیارہ سو کے بنے ہیں ۔اس نے ایک سیکنڈ میں ترازو نیچے کرلیا ۔
آٹھ نوکلو کا ترازو اٹھاتے اس لمبے تڑنگے کے بازو کی مچھلیاں نکل آئیں ۔
“آپ اندر سے برتن لے آئیں، میں صاف کرتا ہوں ۔”اس نے کہا تو میں اندر سے پیسے اور برتن لینے کیلئے مڑی۔
“مچھلی تلنی ہے کہ پکانی ہے ،اس کے حساب سے ٹوٹے کروں “اس نے پیچھے سے آواز لگائی
“فرائی کرنی ہے ”
میں نے مڑے بغیر جواب دیا ۔
کچن میں پلاسٹک کا بڑا باؤل نکال رہی تھی کہ کیبنٹ کے شیشے میں مچھلی والے کو کھڑا دیکھ کر میرا سانس رک گیا ۔
وہ عین میرے پیچھے کھڑا تھا،
مچھلی کو چھیلنے کاٹنے والی ٹیڑھی کٹاری اس نے سیدھی میری گردن پہ رکھ دی
“چل کڑے اتار ”
میرے تن بدن میں تو جیسے جان ہی نہیں رہی۔میں نے چپ چاپ بایاں کڑا اتارا۔داہنے ہاتھ والا تنگ تھا ۔میں نے جلدی سے لیمن میکس لیکوڈ ہاتھ پہ مل کر وہ بھی اسے دے دیا ۔
میں چاہتی تھی بس جلدی سے یہ چلا جائے ۔
وہ کڑے لے کر مڑا، ابھی وہ ڈیوڑھی
تک ہی پہنچا تھا کہ باہر سے کسی کی آواز آئی ۔۔۔
“اے مچھی والا کدھر ہے ”
مردانہ آواز سن کر میں تیزی سے مچھلی والے کے پیچھے بھاگی ،
مچھلی والا سائکل چھوڑ کر بھاگ نکلا ۔باہر مہروں کے لڑکوں کو دیکھتے ہی میں چیخی
“میرے کڑے ”
دونوں لڑکے اس کے پیچھے بھاگے ۔
میری چیخ سن کر آپا حمیداں سب سے پہلے نکلی، پیچھے پیچھے ایک دو اور نکل آئیں ۔میں تھڑے پہ ہی ڈھے گئی ۔
پانچ منٹ میں ساری گلی اکھٹی ہوگئی ۔
لڑکے خالی ہاتھ واپس آگئے ۔
میں نے سعید کو فون کرکے ڈکیتی کا بتایا تو اس نے کہا ۔۔۔
“میں آرہا ہوں “۔لڑکوں نے مچھلی والے کا سائیکل ہماری ڈیوڑھی میں کھڑا کردیا ۔
مچھلی کی بساند سارے گھر میں پھیل گئی ۔سعید بھی دوگھنٹے میں پہنچ گیا،اس کے ساتھ ستار کونسلر بھی تھا ۔طے ہوا کہ تھانے ٹپانے جانے کی ضرورت نہیں ۔
بچے بھی اسکول سے آئے تو حیرانی سے ڈیوڑھی میں کھڑے سائکل کو دیکھنے لگے۔
میں نے چار پانچ بجے بچوں کے ہاتھ دو دو دانے ۔۔۔ مچھلی پورے محلے میں بانٹ دی ۔۔
دوسرے دن دس بجے دروازہ بجا تو میں نے پہلے جھری میں سے جھانک کر دیکھا ۔
“حفیظاں تھی “میں نے سکھ کا سانس لیا، دروازہ کھولا ،تو وہ آتے ہی چڑھ دوڑی
“ناں ۔مجھے صرف دو مچھلیاں دیں “؟
“سارے گھروں میں دو دو ہی بھیجی ہیں “میں نے موڑھے پہ بیٹھتے ہوئے کہا ۔
“دیکھ صائمہ، مجھے دو مچھلیاں اور دے، نہیں تو سارے محلے کو بتادوں گی “اس کے چہرے پہ کمینی سی مسکراہٹ تھی …
“کیا بتادے گی، یہی کہ کڑے سونے کے نہیں تھے ،آٹھ سو کے منیاری والے سے خریدے تھے “۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply