میں لبرل نہیں ایک نارمل مسلمان ہوں ۔۔محمد ہاشم خان

اس کالم کو میں نے جو عنوان دیا ہے ابھی اس پر گفتگو نہیں کروں گا۔ فی الحال تو ان اسباب و عوامل پر کچھ اجمالی روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا جو اس عنوان اور اس کالم کا محرک بنے ہیں۔ کرناٹک میں حجاب والے معاملے میں طالبہ مسکان خان کے ردعمل کو مختلف زاویے سے دیکھا گیا ہے اور اب تک دیکھا جا رہا ہے۔ اب تک جو مخلوط رد عمل سامنے آئے ہیں وہ کچھ یوں ہیں۔ شیر دل شیرنی نے اسلام کی غیرت کو مٹنے نہیں دیا۔ شیرنی کی طرح دہاڑتی ہوئی داخل ہوئی اور گیدڑوں کی صفیں چیر کر آگے نکل گئی۔ ایک حلقے نے مسکان کے ردِ عمل اور شاہین باغ احتجاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’مردو! شرم کرو، جو کام تم نہیں کر پارہے ہو وہ خواتین اور لڑکیاں کر رہی ہیں۔‘ حجاب کے معاملے میں جو کام پورے ہندوستان کے مسلمان نہیں کر سکے تھے وہ اکیلے اس شیر دل بچی نے کر دیا۔

دوسرا ردِعمل پڑوسی ملک مملکت خداداد سے اسلام پسند شاہینوں کی طرف سے آیا اور وہ یہ کہ قائد اعظم محمد علی جناح کا دو قومی نظریہ درست ثابت ہوا، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم پاکستان میں ہیں، نہیں تو آپ کو بھی اس طرح کے تجربوں سے گزرنا پڑتا۔ جب بچی کو ملک و بیرون ملک بیشتر حلقوں سے شاباشی ملنے لگی تو لبرلوں کا طبقہ بوکھلا گیا کہ برقعہ کی جو کہ جبر کی علامت ہے ہم حمایت کیسے کرسکتے ہیں۔

سو اس نے کہنا شروع کردیا کہ یہ حجاب نہیں فرد کی آزادی کا معاملہ ہے۔ یہاں آپ فردی آزادی کی حمایت تو کرتے ہیں لیکن جب یہی خواتین فردی آزادی کے تحت ہی ’میرا جسم میری مرضی‘ کا نعرہ لگاتی ہیں تو اس وقت آپ ان کی حمایت کیوں نہیں کرتے۔ اگر حجاب پہننے پر اصرار ایک فرد کی چوائس ہے تو پھر اپنے جسم کا اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا بھی ایک فرد کی اپنی چوائس کا ہی معاملہ ہے۔ انہوں نے مسکان کے فعل کی حمایت کرنے والوں سے کہا کہ آپ میرا جسم میری مرضی کی بھی حمایت کریں نہیں تو آپ منافق ہیں۔ وہ زیر تعلیم طالبات اور مرد آزاد خواتین کے درمیان مطالبات کے باریک فرق کو بھول گئے۔ اور پھر لبرل مسلم خواتین سامنے آئیں اور انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ اگر آپ کو مسکان سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو پھر اپنی بچیوں، بہو بیٹیوں کو ان کی مرضی کے مطابق اعلیٰ تعلیم دلوائیں۔گویا کہ تمام مسلمان اپنی بچیوں اور بیٹیوں کو گائے بکری ہی سمجھتے ہیں۔

آخر میں مسلک پسندوں کا ایک گروہ سامنے آیا اور اس نے کہنا شروع کردیا کہ بچی نے نقاب ضرور پہنا تھا لیکن اس نے حجاب کی شرطوں کا پالن نہیں کیا تھا لہٰذا اس اقدام کو ہم اسلامی غیرت کو حرمت عطا کرنے کے زمرے میں نہیں ڈال سکتے۔ اس پورے معاملے میں حمایت اور مخالفت کرنے والے دونوں گروہ صرف انتہاپسندی کے ہی شکار نظر نہیں آئے بلکہ وہ اپنے تمام تر یرقانی تعصبات و تحفظات کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے۔ کسی کی فکر میں زمینی سوچ پر مبنی توازن نظر نہیں آیا۔ جن کور چشموں نے اسے شاہین صفت، شیر دل شیرنی بنا کر پیش کیا اور انعام و اعزاز سے اس کے اقدام کی قدرپیمائی کرنے لگے وہ یہ بھول گئے کہ اس بچی نے امت مسلمہ کا نام روشن کرنے کے لیے اللہ اکبر کا نعرہ نہیں لگایا تھا بلکہ ایسے فسطائی ماحول میں جب ایک طرف نوجوان جنونی غنڈے جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے شدید نفرت اور طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہوں، ماب لنچنگ جیسا ماحول بنا ہو، اس کے پاس اپنے خوف پر قابو پانے کے لیے اور کوئی آپشن ہی نہیں بچا تھا۔ میں مسلمان ہوں سو میرے نزدیک اس نعرے کا جواب اللہ اکبر ہی ہوسکتا تھا، انقلاب زندہ باد، جے ہند اور جے بھیم نہیں۔ اب میں اتنا بھی سیکولر نہیں ہوں کہ شدید ترین ہندو مذہبی عصبیت کا جواب اللہ اکبر کے بجائے کسی اور نعرے سے دوں۔ یہ مفاہمت جتنی ہونی تھی ہو چکی۔ہم ہندوستان میں ایسی پوزیشن میں ہیں جہاں ہماری حد سے زیادہ اور غیر مشروط محبت ہماری کمزوری اور بزدلی کا اظہاریہ ہے۔ یہاں بات نفرت کا جواب نفرت سے دینے کی نہیں ہے اور یہ بھی نہیں کہ زہر کو زہر ہی کاٹتا ہے، بات نفرت کی وجہ سے پیدا ہونے والے خوف پر قابو پانے کی ہے اور اپنی جڑوں سے کٹ کر آپ اس خوف پر قابو نہیں پا سکتے۔ خوف پر قابو پانے کی واحد صورت یہی ہے کہ آپ اپنی بنیاد پر قائم رہیں، ٹس سے مس نہ ہوں، نفرت کی یہ آندھی گزر جائے گی، آپ، آپ کا گھر، چھت، آنگن اور اس میں موجود درخت، اس کے تنے اور پتے سب صحیح سلامت رہیں گے۔

ہندوستان کے مسلمانوں پر جب بھی کسی قسم کا کوئی عتاب نازل ہوتا ہے تو سب سے پہلے پاکستانی خوش ہوتے ہیں کہ ان کا دو قومی نظریہ ضائع نہیں گیا، میری نظر میں یہ مرفوع القلم لوگ ہیں جو حالات کو اس کے حجم سے باہر (out of proportion) دیکھنے کے لا علاج مرض میں مبتلا ہیں۔ وہ یا تو تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں یا حالت تردید میں جی رہے ہیں یا پھر ان کے اندر اب تک یہ شعور ہی نہیں پیدا ہوا ہے کہ وہ اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کرسکیں کہ دنیا میں کسی بھی ملک میں ایک اقلیت کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ہندوستانی مسلمان اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔خیر اس وقت یہ میری گفتگو کا موضوع نہیں ہیں۔ اور جہاں تک لبرل خواتین کی بات ہے تو ان کی عقل سلیم اب تک اتنی بالغ نہیں ہوئی ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی اور کو بھی درست سمجھ سکے۔ یہ رحم کی مستحق خواتین ہیں اور فی الحال یہ بھی میری گفتگو کا موضوع نہیں ہیں۔ان کے حق میں بس یہ دعا کی جاسکتی ہے کہ اللہ ان کی محرومیوں کو دور فرمائے، ہین بھاؤناؤ  سے مُکت کرے، ان کی عقل سلیم کو بالیدگی عطا کرے اور ساتھ ہی یہ گنجائش بھی کہ وہ کبھی کبھار ہی سہی دوسروں کو بھی درست سمجھ لیا کریں۔

اب جہاں تک بات اپنا جسم اپنی مرضی کی ہے تو خیال رہے کہ موجودہ واقعے سے اس کی کوئی نسبت نہیں بنتی۔ اسلام میں پردہ مذہبی شعائر میں سے ایک ہے، پردے کی مختلف شکلیں اور صورتیں ہو سکتی ہیں اور ہیں (کہیں چہرے کا پردہ ہے اور کہیں نہیں ہے، کہیں اس پر عمل کیا جاتا ہے اور کہیں نہیں کیا جاتا۔ بہر حال کرنا اور نہ کرنا یہ ایک الگ مسئلہ ہے، اس سے پردے کی شرعی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا جیسے شراب حرام ہے لیکن لوگ پیتے ہیں وقس علیٰ ھذا)۔ یہاں ہندوستان میں پردے کی ایک عام اور مروج صورت برقعہ ہے۔ یہاں برقعہ پہننے کو محض شخصی آزادی کے طور پر نہیں دیکھا جاتا (شخصی آزادی کیا ہے یہ سمجھنے کا عمومی ذہن ابھی ہندوستانیوں میں پیدا نہیں ہوا ہے، اور جو خصوصی اذہان اس کو سمجھتے ہیں ان میں سے بیشتر پَروَرٹ ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب 70 فیصد ہندوستانیوں کو یہ نہیں معلوم کہ جمہوریت کیا ہے اور گائے بکری کی طرح انہیں جس طرف چاہیں ہانک دیا جاتا ہے تو پھر فرد اور اس کی آزادی یہ بہت بعد کی چیز ہے) بلکہ اسے اسلامی شناخت کے طور پر دیکھا جاتا ہے (آسان سی مثال یہ لے لیں کہ اگر کوئی ہندو لڑکی بھی برقعہ پہن لے تو اسے مسلمان ہی سمجھا جاتا ہے)۔ اگر پردے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور یہ محض شخصی آزادی کا مسئلہ ہوتا تو پوری دنیا میں مذہبیوں کے پیٹ میں اتنا مروڑ نہیں اٹھتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

کرناٹک میں اچانک ایک کالج کے منتظمین کا برقعہ اتروانے کا فیصلہ دراصل شخصی آزادی کو سلب کرنے کا فیصلہ نہیں بلکہ آئین ہند کی ان بنیادی دفعات پر حملہ تھا جن میں مسلمانوں کو اپنے مذہبی شعائر پر عمل کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ سو اب یہ برقعے کا مسئلہ نہ ہو کر ایک آئینی مسئلہ بن گیا ہے لہٰذا جو لبرل اسے اپنا جسم اپنی مرضی کی عینک سے دیکھ رہے ہیں وہ دراصل اس بنیادی قانون کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو اقلیتی کمیونٹی کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ آپ لبرل ہیں ٹھیک ہیں یہ آپ کی اپنی شخصی آزادی ہے لیکن یاران کج فہم کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر جگہ لبرلزم کا لام پیلنا صحیح الدماغ آدمی کا کام نہیں، یہ کسی پَروَرٹ ذہن کا ہی کام ہوسکتا ہے۔ آپ برقعے کی مخالفت کیجئے کوئی مسئلہ نہیں لیکن خیال رہے کہ آپ کو اقلیتوں کے لیے آئین ہند کی وضع کردہ کلیدی دفعات14، 29، اور 30 کو کمزور کرنے کا آلۂ کار بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ جب بات کسی کمیونٹی کے بنیادی حقوق کی ہو تو پھر وہاں ایسی ہزاروں فردی آزادیاں بھاڑ میں جھونک دی جاتی ہیں اور یہی مسئلے کا حل بھی ہے۔

Facebook Comments

محمد ہاشم خان
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں (مصنف افسانہ نگار و ناقد کے علاوہ روزنامہ ’ہم آپ‘ ممبئی کی ادارتی ٹیم کا سربراہ ہے) http://www.humaapdaily.com/

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply