چند غیر محسوس تبدیلیاں۔۔افتخار گیلانی

بعض باتیں ہم غیر محسوس طور پر نظر انداز کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ہمارے معاشرے اور اس معاشرے کی اقدار میں کیا بنیادی تبدیلی آ رہی ہے‘ یہ سب کچھ غیر محسوس انداز میں ہورہا ہے۔ ایک رائے کے مطابق یہ سب کچھ ایک ایجنڈے کے تحت ہماری زندگیوں کا حصہ بنایا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر ایک قتل کے کیس نے بہت شہرت پائی ہے۔ ویسے یہ کسی ایک واقعہ ہی تک محدود نہیں‘ ہر روز کا معاملہ ہے۔ کسی لڑکی کی مسخ شدہ لاش ملی ہے جسے اس کے کسی دوست نے قتل کردیا ہے۔ ہم اس بہیمانہ اقدام کی مذمت تو کرتے ہیں مگر اس پر غور ہی نہیں کرتے کہ یہ لڑکا لڑکی اکٹھے کیوں رہ رہے تھے۔ ہمارے معاشرے کی ترجیحات اور اقدار بدل چکی ہیں۔ مغرب میں بغیر شادی کے لڑکا لڑکی کا ساتھ رہنا ایک عام سی بات تھی اور اس معاشرے میں معیوب نہ تھی۔ہمارے ہاں مگر اس کا رواج نہ تھا کہ کوئی آسانی سے منہ سے یہ بات نکال لے کہ مخالف صنف کے فرد کو وہ اپنا دوست قرار دے۔ میرا مطلب ہے کہ اس طرح کا دوست جسے بوائے فرینڈ یا گرل فرینڈ کہتے ہیں اور اگر کوئی اس قسم کا کا واقعہ ہو جاتا تو اسے بُرا ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ گناہ قرار دیا جاتا۔

خیر آج کل گناہ کا لفظ استعمال کرنا معیوب ہو گیا ہے۔ اب ہم قانون کی زبان بولتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ اسے جرم قرار دیتے ہیں وگرنہ غیر محسوس انداز میں یہ جرم بھی نہیں رہا۔ سب کچھ غیر محسوس انداز میں ہورہا ہے۔ میں جس کیس کا حوالہ دے رہا ہوں‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ روز اس کا تذکرہ میڈیا پر ہوتا ہے۔ ہم شہادتوں کے  غلط ملط کئے جانے پر تو افسردہ ہوتے ہیں مگر یہ بات کہنا آداب کے خلاف سمجھتے ہیں کہ یہ ایک فلیٹ ہی میں رہ کیوں رہے تھے۔ چند برس پہلے ترکی نے Adultery کے خلاف قانون پاس کرنا چاہا۔ پورا یورپ چیخ اٹھا‘ خبر دار جو ایسا کیا۔ آپ جو یورپی یونین کا ممبر بننا چاہتے ہیں پھر یہ ممکن نہ ہوگا۔ معلوم ہے اس لفظ کے کیا معنی ہیں۔ شادی شدہ افراد کا صنف مخالف سے جنسی تعلق رکھنا۔ گویا اسے جرم قرار دو گے تو آپ یورپ کے لبرل معاشرے کا حصہ نہیں بن پائو گے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جنسی تعلقات کے لیے ایک لفظ استعمال ہوتا ہے۔ میں بے دھڑک پوچھتا ہوں کہ اس کا انگریزی متبادل کیا ہے۔ کوئی بتا نہیں پاتا‘ کیوں کہ انگریزی میں زنا کا کوئی تصور ہے ہی نہیں۔ ایک بار کاؤس جی نے سربازار مجھ سے پوچھ لیا‘ عرض کیا انگریزی میں یہ تصور ہے ہی نہیں۔ Rape ریپ بُرا ہے‘ اس لیے نہیں کہ یہ عمل بُرا ہے صرف اس لیے کہ اس میں جبر کا پہلو شامل ہے۔

فرانس کا ایک مشہور ادیب ہوا ہے‘ البرٹ کامیو۔ اس نے کہیں لکھا تھا کہ بیسویں صدی کے انسان کی تعریف یوں کی جائے گی کہ وہ اخبار پڑھتاتھا اور زنا بالرضا کا شوق رکھتا تھا۔Fornication کا یہی مطلب ہے۔ یہی اسے اس انسان کی علم کی سطحیت کے ساتھ اس انسان پر یہ اعتراض بھی تھا کہ اس نے انسان کی اس بنیادی جبلی خصلت کو بھی سطحی بنا دیا ہے۔ یہ مغربی اقدار کے مطابق قطعاً کوئی برائی نہیں ے۔ میں جن دنوں کچھ عرصے کے لیے اپنی اہلیہ کی پی ایچ ڈی کے سلسلے میں آسٹریلیا میں تھا جو بھی ملنے آتا تھا اس کے بارے میں یہ بتایا جاتا کہ یہ ساتھ رہے ہیں۔ They are living together.۔ یہ عام سی بات تھی۔ لگتا تھا کہ شادی کا انسٹی ٹیوشن ہی ختم ہوتا جارہا ہے۔ ہاں‘ رہی یہ تیسری قسم جسے Adultery کہا جاتا ہے تو اسے غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے تو صرف اس لیے کہ آپ کسی سے پیمان وفا توڑتے ہیں‘ وگرنہ اس عمل پر اعتراض نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ باہمی تعلقات کا معاملہ ہو سکتا ہے‘ وگرنہ اتنا بڑا جرم نہیں کہ اسے قابل تعزیر گردانا جائے۔ کیا غیر محسوس انداز میں اس طرح کے تصور کو ہم فروغ نہیں دے رہے۔ یہ آزادی نسواں یا حقوق نسواں کی بھی بات نہیں ہے مگر فیمن ازم‘ نسائیت کی یہ خاص شکل ہمارے اندر اتنی سرایت کر چکی ہے کہ ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے اس بات پر اعتراض کیا کہ یہ ساتھ کیوں رہے تھے تو فوراً کہا جائے گا اسے بنیادی اخلاقیات بھی نہیں آتیں۔

یہ درست ہے کہ ایسے کسی گھناؤنے جرم میں ساری ہمدردیاں اس جرم کا نشانہ بننے والے کے ساتھ ہوتی ہیں مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم سارے معاشرتی ڈھانچے کو تلپٹ کردیں۔ ہم اتنا ڈرتے ہیں کہ یہ بھی نہیں بتاتے کہ ان لوگوں کا زندگی کے بارے میں رویہ کیا تھا۔ اگر مثال کے طور پر یہ عورت مارچ کے ہراوّل دستے میں تھے تو ہم اس وقت اس کا تذکرہ گول کرنا ضروری سمجھیں گے حالانکہ اس وقت ہم اسے ان کا کریڈٹ بتا رہے تھے۔ معاشرے کی اقدار غیر محسوس طور پر بدلتی جا رہی ہیں۔ اور ہمیں خبر ہی نہیں ہورہی۔ جیساکہ میں نے عرض کیا کہ یہ سب کچھ آزاد میڈیا میں ایک ایجنڈے کے تحت کیا جارہا ہے۔ ہم بدل رہے ہیں یا ہمیں بدلا جارہا ہے۔ اس بات کو چلتے رہنے دیتے ہیں مگر ہم نے بہت سی باتوں کے نازک پہلوؤں پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے۔ میں جب کبھی کبھی صبح صبح پانچ یا چھ بجے خبریں سننے کی کوشش کرتا ہوں تو سارا دن غارت ہو جاتا ہے مگر یہ میری پیشہ ورانہ مجبوری ہے کہ خود کو باخبر رکھوں۔

ذرا غور کریں سویرے سویرے کس قسم کی خبریں ہوتی ہیں۔ کہیں آگ لگی‘ سب کچھ جل گیا‘ بھسم ہو گیا۔ پولیس مقابلے میں کوئی مجرم مارا گیا۔ فلاں لڑکی جس کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی اس سے زیادتی کرنے والوں کا سراغ نہیں ملا۔ ایسی بہت سی خبریں جن سے دل اداس ہوا اور اعصاب مضمحل۔ جانے یہ سب کچھ اکٹھا کیسے مل جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو دل چاہتا ہے کہ کوئی ایسا لائحہ عمل طے کیا جائے کہ سویے سویرے پورا دن خراب کرنے والی خبریں نہ دی جائیں۔ کبھی کبھی تو خبروں کے اس ملغوبے میں ایسی خبریں بھی ہوتی ہیں جن کی کوئی خبریت نہیں ہوتی۔ کسی اخبار میں چھپتی تو کہیں اندر سنگل کالم ہوتی ہیں مگر برقیاتی میڈیا کی چکا چوند نے انہیں قومی نوعیت کے بلیٹن کا حصہ بنا دیا۔ پھر یہ سب صرف صبح صبح ہی کیوں۔ یعنی سب ایسی خبروں کا یکجا ہونا۔ کیا صرف اس لیے رات گئے کچھ ہوتا نہیں حتیٰ کہ سیاسی بیانات بھی نہیں۔ سیاستدان سمجھدار ہیں‘ جانتے ہیں بات کرنے کا کون سا وقت مناسب ہے۔ یا یہ بھی کوئی ایجنڈا ہے۔ اعصاب جواب دے جائیں گے‘ ذہن بے قرار ہو جائے گا تو پھر باقی سارا دن کیسے گزرے گا۔ میں نے تو یہ صرف دو چار مثالیں دی ہیں وگرنہ آٹھ دس ایسی خبریں ڈھونڈ ڈھونڈ کر اکٹھی کی گئی ہوں گی۔ اور کچھ نہیں تو فلاں لڑکی رات کو گھر سے غائب ہوگئی۔ یہ فلاں گائوں کا واقعہ ہے‘ پولیس ابھی تک سراغ نہیں لگا سکی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شہر میں یہ واقعہ ہوا ہو تو یہ خبر بھی ہو سکتی ہے کہ سی سی ٹی وی کیمروں پر دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ کیسے ہوا مگر پولیس تاحال خاموش ہے۔ دن خراب کرنے والی یہ خبریں آپ کو صبح صبح ہی ملیں گی۔ شاید اسی لیے بعض ماہرین نفسیات نے یہ کہہ رکھا ہے کہ صبح کے ایک دو گھنٹے سکرین کو آف رکھیں۔ ان کا یہ فرمان تو شاید وسیع تر مفہوم میں ہے اور عمومی ہے۔ سکرین پر آنے والی ہر شے کے بارے میں ہے۔ میں البتہ اس وقت خانہ خدا سے آنے والی قرآن کی تلاوت آن کر دیتا ہوں مگر آخر کب تک۔ جونہی اصل سکرین پر آؤ اور پورے دن کا بوجھ لے کر اٹھو۔ ہمیں اس کا نہ اندازہ ہے نہ خبر ہے۔ ہمیں تو بتا دیا گیا تھا کہ کسی لاش کی تصویر نہ چھاپو‘ کچھ اور باتیں بھی یعنی مجھے نہیں پتا ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہمارا سب کچھ بدل رہا ہے یا شاید ہم ہی بدل گئے ہیں۔ یا ہمیں بدلا جارہا ہے۔ اچھا‘ ایسا بھی ہوتا ہے‘ یقین نہیں آتا۔ پہلے تو ہم اس خیال کا مذاق اڑایا کرتے تھے کہ کوئی معاشرے کو اس طرح نیت کر کے نہیں بدل سکتا۔ ایک لطیفہ تھا کہ یونیسکو کہتا ہے کہ آئو کلچر پیدا کریں۔ تو چلیے بھائیو‘ ہم مل کر نیا کلچر پیدا کریں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply