حلیب کبیرہ۔۔عارف خٹک

عورتیں زرخیز اچھی لگتی  ہیں۔ دادا حضور کو اللہ جنت نصیب فرمائیں آمین، کہا کرتے تھے کہ عورت وہ ہے جس کو اپنا انگوٹھا نظرنہ آئے اور کولہے ایسے ہوں کہ پانی کا بھرا گلاس رکھ دو اور وہ سو قدم چلے مگر پانی چھلکے نہ۔

چالیس سال تک اپنا فلسفہ دادا حضور جیسا تھا کہ “مرد کا مرغوب گوشت ہوتا ہے اور ہڈیاں کتے بھنبھوڑتے ہیں” سو چالیس تک ہر رات خود کو مرد ثابت کرنے کے چکر میں کتاخواری کرتے رہے کہ گوشت ہمیں بھی مرغوب ہے، مگر اسی شوق مردانگی نے کمر کے دو جوڑ اپنی جگہ سے ہلا دیئے کہ اب یہ عمر روئی کی گانٹھوں سے کھیلنے کی نہیں رہی اور لاش کیساتھ زنا بالجبر کے مزید متحمل  نہیں ہوسکتے ہیں۔

عرب امارت میں جہاں زندگی کے بارے اپنا فلسفہ بدل گیا وہاں عورت ذات کی خوبصورتی کے معیار میں بھی، اور جتنی مدد میرے یار غار عبدالقدوس خٹک نے کی کہ، اب سنگل پسلی عورت اچھی لگتی ہے۔ دادا کے قول پر تین حروف بھیج کر اب عورت کی چھبیس کمر اور صراحی دار گردن کے متمنی ہیں۔

اب یہ خیال راسخ ہوچکا ہے کہ عورت ایسی ہو کہ بندہ جذبات میں آکر اپنی عورت کو گود میں اٹھا کر چوم سکے اور گھر کے صحن سے بیڈروم تک گود میں اٹھائے اٹھائے چومتے ہوئے بستر پر پٹخ دے،فرط جذبات میں عورت کو کبھی سرہانے گھسیٹے یا فرش پر لوٹنیاں لگائے۔ اب ایک سو بیس کلو کی بیوی کی تھرتھراتی لاش کے جیلی نما بدن کو بندہ کتنا پھلپھلا سکتا ہے۔ انسان کو آخر عمر میں معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ ایک لاش کیساتھ مزید زنا بالجبر کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ چالیس میں مردوں کی دوسری شادی کے پیچھے جو بھی عوامل ہوں میرا ماننا ہے کہ سب سے بڑا یہی بے ڈھنگا جسم ہوتا ہے۔
چچا کریم خان سے پوچھا کہ دادا کو اسّی سال کی عمر میں تھنتھناتی عورت کیوں پسند تھی۔ جواب ملا ،امّاں (دادی) کا وزن چالیس کلو تھا تب خود پرلعنت بھیجی کہ دادا کی محرومیوں نے میری اپنی زندگی کے حسین پل برباد کرڈالے۔

سو صاحبو! زندگی کی بیالیس بہاریں دیکھنے کے بعد جہاں عورت کی خوبصورتی کے معیار کے بارے میں جو اپنا نظریہ بدلا ہے تو اس میں عبدالقدوس کا بھی ہاتھ ہے، جو پچھلے دنوں دبئی آکر اپنی بیگم کیلئے خریداری کرنے مجھے اپنے ساتھ مختلف مالز میں لیکر پھرا۔بچوں کی شاپنگ کے بعد ان کو اپنی منکوحہ یاد آگئی تو فوراً سے پیشتر مجھ سے پوچھ ڈالا
“زرمینہ کیلئے کیا لے لوں؟”۔
میں نے سامنے آویزاں لٹکے سینہ بندوں(بریزر) کی طرف دیکھا تاکہ کم سے کم وقت میں دو تین بریزر لیکر فارغ ہوجائیں ،کہ العین واپسی بھی کرنی تھی۔
عبدالقدوس میرے ساتھ بریزر والے پورشن میں داخل ہوا، جہاں دو تین فلپائنی لڑکیاں اپنے لئے سائز دیکھ رہی تھیں، اچانک ایک فلپائنی لڑکی نے ایک ننھا منا سینہ بند اٹھا کر اپنے سینے کیساتھ لگایا تو بے اختیار عبدالقدوس کہ منہ سے نکلا
“ایسے بریزر تو ہمارے پشاور میں گڑیاں پہنتی ہیں”۔
میں نے حیرت سے پوچھا
“بھابھی کا سائز کیا ہے؟”۔
خشمگیں نگاہوں سے مجھے دیکھا اور گویا ہوا
“کاش یہ سوال تم مجھ سے پشاور میں پوچھتے تو تیری منحوس زبان نکال کر دو گولیاں مارتا”۔
مسکراتے  ہوئے میں پوچھا۔
“پھر بتاتے؟۔۔ ۔”
آگے سے اس نے اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر مجھے گھورنا شروع کیا۔میں نے مصنوعی خفگی سے پوچھا
“اب تیرے جیسے شوہر کیساتھ میں کیا کروں جس کو بیوی کے سینے کا اندازہ نہیں ہے کیا بچے نیٹ سے ڈاونلوڈ کئے ہیں؟”۔

یہ کہہ کر میں نے ایک مصری سیلز گرل کو آواز دی۔ وہ بھاگتی ہوئی ہمارے پاس آئی۔ میں نے عبدالقدوس کو دیکھا اب بتاو کہ سائز کون سا چاہیئے۔ لڑکی نے مسکرا کر عبدالقدوس کو دیکھا مگر عبدالقدوس ہونقوں کی طرح مجھے دیکھنے لگا کہ انگریزی کیوجہ سے اس نے اسکول چھوڑ کر مدرسہ میں داخلہ لیا تھا ۔ میں نے مصری لڑکی سے پوچھا کہ بڑے سائز والے برا کہاں ہیں؟۔ اس نے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کردیا اور وہ دوسری طرف اپنے ساتھ لیکر گئی جہاں انگریزی میں “Plus Size” جلی طور پر لکھا ہوا تھا۔ وہاں بھانت بھانت کے سینہ بند رکھے ہوئے تھے جس کو دیکھ کر انسان کو خود سے شرمندگی ہونے لگتی تھی۔ میں عبدالقدوس کو دیکھا جو عقیدت و احترام کیساتھ ہر سینہ بند کو دبا دبا کر ایسے دیکھ رہا تھا جیسے ہم میٹرک میں بک اسٹال پر چچا فیروز سے چھپ کر “چترالی میگزین” دیکھتے تھے۔ میں نے عبدالقدوس کو منع کیا کہ یہ شغل پاکستان جاکر اپنی بھینس کیساتھ کرنا ،یہاں مصری لڑکی ہے لہذا خریداری پر توجہ دو۔

تھوڑی دیر کے بعد عبدالقدوس نے مایوسی سے سر ہلا کر مجھے دیکھا کہ اس سے بھی بڑے سائز دکھا دیں، میں رحم دلی سے عبدالقدوس کو دیکھا اور مصری لڑکی سے کہا کہ سائز اس سے بھی بڑا ہے۔ وہ بے باکی سے میرے پاس آکر عبدالقدوس سے بھی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں پوچھنے لگی۔ مگر اس کی انگریزی میرے سر سے گزر گئی۔ عربی میری بھی انتہائی کمزور تھی۔ لہذا بیچارگی سے عبدالقدوس کو دیکھا کہ میاں قاریوں کیساتھ تم کھیلے ہو لہذا اپنا ہنر دکھا دو۔ اس نے مصری دوشیزہ کو دیکھا اور پھر مجھے دیکھا کیونکہ عربی سے بھی وہ نابلد تھا۔ بالآخر کچھ سوچتے ہوئے عبدالقدوس نے دونوں ہتھیلیاں بارہ انچ کے حساب سے پھیلا کر لڑکی سے کہا۔
“حلیب۔۔۔۔کبیرہ”۔
لڑکی فورا ًبھاگ کر گئی اور دراز سے بڑی بڑی تھیلیاں اٹھا کر لائی۔ عبدالقدوس نے مایوسی سے سر ہلایا۔ میں حیرت سے بیہوش ہوتے ہوتے رہ گیا۔
“عبدالقدوس زرمینہ کیساتھ شادی ہوئی یا آسٹریلین گائے امپورٹ کی ہے؟”۔

مگر عبدالقدوس مطلوبہ سائز ڈھونڈنے میں مصروف تھا۔ تھوڑی دیر بعد میری طرف دیکھا اور ایک سینہ بند اٹھا کر اپنے سر پر ٹوپی کی طرح پہنے لگا۔ میں حیرت سے اس کو دیکھتا رہا۔ بالآخر سینہ بند آدھے سر میں پھنس گیا اور وہی ٹوپی پہنے میری طرف دیکھا اور مایوسی سے سر ہلایا۔ مصری لڑکی نے بھی مایوسی سے سر ہلایا۔ میں نے عبدالقدوس سے پوچھا
“تیری اماں کا وزن کتنا تھا؟”۔
بے اختیار کہا
“چالیس کلو مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو”۔
میں نے سرگوشی کی کہ ابا کے احساس کمتری کا بدلہ تم نے خود سے لیا ہے۔ اب بھگتو!

Advertisements
julia rana solicitors

بالآخر دونوں خالی ہاتھ مال سے نکل کر العین روانہ ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد مجھ سے پوچھا
“لوگ کسی کی بیوی کا سائز نہیں پوچھتے کیا میں تم سے تیری زرمینہ کا کیا سائز ہے؟”پوچھ لوں ۔
میں نے جان چھڑانے ہوئے کہا
“میں نے رفیع الدین کیساتھ نکاح پڑھا ہوا ہے۔  اور مرددوں کے حلیب صغیرہ ہوتے ہیں وہ سینہ بند نہیں پہنتے”۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”حلیب کبیرہ۔۔عارف خٹک

Leave a Reply