• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خانیوال میں “توہین قرآن” کے نام پر ایک اور سانحہ اور ہمارا دیسی اسلام۔۔محمد ارشد خان

خانیوال میں “توہین قرآن” کے نام پر ایک اور سانحہ اور ہمارا دیسی اسلام۔۔محمد ارشد خان

روایتی دینی مکتب فکر (دیوبندی، بریلوی اہل حدیث/وہابی وغیرہ) کے چند علما  حق کا ہمارے خطے میں دینی خدمات کیلئے احترام کے ساتھ عرض ہے کہ جمہوریت کی طرح مدرسوں کی پیداوار اسلام کے دیسی رنگ نے بھی اپنی جاہلانہ رسومات اور توہم پرستی سے اس مقدس پیغام الہی کی مٹی ہی پلید کی ہے کہ کتابوں کا خدا اور رسول اور ہے اور مولوی کا اور۔ دو رو پہلے سنا ہے خانیوال پھر کوئی “توہین قرآن” کے الزام میں جاہلانہ ہیجان میں مبتلہ ایک ایسے مشتعل ہجوم کا شکار ہوگیا جن کی اکثریت ہمارے کالج کے اردو کے استاد کے الفاظ میں “حادثاتی مسلمان” ہیں۔ دوسری طرف نااہل اور بدعنوان بیوکریسی، صحافتی طوائفوں اور وکیل نما کچہری کے دلالوں کے ہاتھوں ہائی جیک ہمارا بوسیدہ عدالتی اور نفاذ  قانون کا ڈھانچہ فوجی یا سول حکمرانوں سے قطع نظر مضبوط مغربی جمہوری نظاموں سے مستعار اصولوں پر کھڑا ہے جو اعلیٰ سطح کے کرپشن کے علاوہ ایسے معاشرتی دہشتگردی کی بیخ کنی کیلئے بھی مکمل غیرموثر ہے بلکہ اس کیلئے موافق حالات پیدا کرتا ہے۔

جب ہم جیسے دنیا بھر کے نظاموں کا اپنے ناقص تجربے اور ادنیٰ  علم کے مطابق گزار ش کرتے ہیں کہ  مغربی لبرل جمہوری نظاموں کے   اجزائے ترکیبی ہمارے معاشرے کو ترقی کے بجاۓ انارکی اور تنزل کی طرف لے کر جاتے ہیں تو ہمارے اکثر نیم خواندہ قسم کے جمہورے لوگ ایسی  گزارشات کو اسٹیبلشمنٹ یا “غیر جمہوری قوتوں” کی وکالت کہہ کر رد کردیتے ہیں۔

اسلام کو بھی ہم نے انتہا پسند ہند ؤوں کی طرح “تحفظ ناموس” اور “توہین” (یا ہندی میں اپمان) تک محدود کردیا ہے ورنہ نہ تو قرآن  اور حدیث میں اس قسم کے رویوں بلکہ ایسے معاملات میں ہمارے کئی “اسلامی قوانین” کیلئے کوئی دفاع موجود ہے اور نہ  ہی عرب دنیا میں ،جہاں یہ دین نازل ہوا ،وہاں کی زبان میں توہین قرآن، توہین رسول اور توہین ِ صحابہ وغیرہ کے نام پر ایسے پاگل پن کا کوئی تصور ہے۔

ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوئے، ایک اعرابی (صحرا نشین بدو یا دیہاتی بنام ذو الخویصرہ یمانی) نے نماز ہی کی حالت میں کہا یا اللہ ! مجھ پر اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرما، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام پھیرا تو اس اعرابی سے فرمایا کہ تو نے ایک وسیع چیز یعنی رحمت الٰہی کو تنگ اور محدود کردیا۔ انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس اعرابی ذو الخویصرہ یمانی کو پھر مسجد میں پیشاب کرتے ہوئے دیکھا، آپ نے (موجود مشتعل صحابہ سے) فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور اس سے نرمی کا برتاؤ کرو (اسکی  سمجھ بوجھ کے مطابق)، جب وہ فارغ ہوچکا تو آپ نے پانی منگوایا اور اس پر بہا دیا۔ اب تعریف کے لحاظ سے (بطور کلمہ گو صحبت رسول کی بدولت) رسول الله (ص) کے عین موجودگی میں یہ مضحکہ خیز یر توہین آمیز حرکات کرنے والا شخص بھی صحابی ہونے کے عہدے پر فائز ہےاور دیسی اسلام کے مطابق آج کی تاریخ میں انکی “توہین” کی گئی تو مجرم واجب القتل۔

مملکتِ  خداد میں بیسوی صدی کے “علما کرام” رسول خدا (ص) کے وصال کے چودہ سو سال بعد بھی کسی کو صرف اس وجہ سے “توہین صحابہ” کا مرتکب قرار دیکر مطعون کرتے ہوۓ انکے تکفیر کیلئے جواز پیدا کردیتے ہیں کہ اس نے قرآن و حدیث کی  تعلیمات کے برخلاف ذاتی ہوس اقتدار کیلئے مسلمانوں کے جمہوری اصولوں پر قائم نظم اجتماعی کے نظام خلافت (راشدہ) کو بدعنوان اورمطلق العنان ملوکیت میں بدل کر آئینی اور فکری ارتقاء کو منجمد کرنے والے آمریتوں پر تنقید یا فکری مواخذے کی جرات کی ہے۔

پوری کی پوری جماعتیں بلکہ لشکر  بنے  ہوئے  ہیں، ان ہستیوں اور امراء کے “ناموس” کے  تحفظ میں صرف اپنے فرقے کی دکانداری کی خاطر جنکی بڑی “محنت” اور خون خرابے سے  اسلام  کے نام پر کھڑے کیے گئے موروثی نظام سیاست  نے کسی اسلام دشمن کافر نہیں بلکہ نواسہ رسول (ص) کو انکے بے گناہ خاندان کے معصوم بچوں کے ساتھ ذبح کیا۔

دوسری  طرف اس مخلوق سے ہم توقع کرتے ہیں کہ بانیان پاکستان کے ویژن اور تحریک پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کرتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کیلئے ایک ماڈل کے طور پر ایک جدید اسلامی قومی ریاست بنائینگے۔ اس دن وہ خود اہل حدیث کہنے والے فرقے کے ایک ڈبل ایم اے مولوی “علامہ” ابتسام الہی ظہیر کا حضرت امیر معاویہ (رض) پر تنقید کرکے “توہین صحابہ” کرنے والوں کیخلاف تقریر سن کر میں بھی خوف سے کانپ گیا۔پہلے تو ان توہین بریگیڈ والے سیاسی ملاؤں کا قلع قمع  ہونا چاہیے، ورنہ ایسے مشتعل اور متشدد ہجوم تو ہر دورے روز بنتے رہیں گے کبھی ریاست کے خلاف تو کبھی کسی توہین کے ملزم کے خلاف!

Advertisements
julia rana solicitors

تحریر فیسبک وال سے کاپی کی گئی ہے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply