عقل نامہ۔۔عظیم الرحمٰن عثمانی

عقل بلاشبہ انسان کو ملی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ مگر اس کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اپنا تسلط چاہتی ہے۔ اپنے بنائے ہوئے معیارات کے تحت اپنے اطراف پر جائز یا ناجائز قبضہ کرتی ہے۔ یہ اپنے فکری محلات تعمیر کرتی ہے مگر جلد ان سے  اُکتا جاتی ہے۔ پھر وہ انہیں خود مسمار کرتی ہے اور پھر دوبارہ تعمیر کرتی ہے۔ تعمیر و مسماری کا یہ سلسلہ رکتا نہیں بلکہ مسلسل جاری رہتا ہے۔ اس روش سے اس کا شعوری ارتقاء ضرور ہوتا ہے۔ ایک پُرلطف علمی چسکا بھی اسے میسر رہتا ہے۔ مگر حتمیت و قطعیت تک اس کی رسائی کبھی نہیں ہوپاتی۔ جو کل عقلی تھا وہ آج غیر عقلی ہوگیا۔ جو آج عقلی ہے، بہت ممکن کہ  کل غیر عقلی کہلائے گا۔

اسکے باوجود عقل اپنی اجارہ داری چاہتی ہے مگر اس حکومت کے قیام کیلئے اسے ان حواسِ  خمسہ پر اکتفاء کرنا پڑتا ہے جو اپنی اصل میں کئی نقائص رکھتے ہیں۔ وہ دیکھنے، سننے، چھونے، چکھنے یا سونگھنے سے حقیقت کا ادراک کرنا چاہتی ہے۔ مگر ان حواس سے اسے جزوی ادراک ہی نصیب ہوسکتا ہے، “كُل” کو جاننے سے وہ محروم ہی رہتی ہے۔ اس موقع پر اسے کسی مضبوط سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر عقل بھوکی مرجاتی ہے، کسی سے مدد نہیں لیتی۔ عقل کا ہدف چیزوں کو فتح کرنا ہے، ان پر اپنا جھنڈا لہرانا ہے۔ اپنے وجود کی تذکیر و تطہیر، اپنی کردار سازی اس کا مقصد نہیں۔ عقل مخلوق ہے مگر یہ خالق بننا چاہتی ہے۔ یہ اوّل تو کسی خالق کو ماننا نہیں چاہتی اور اگر مان بھی لے تو اپنی شرائط پر تسلیم کرتی ہے۔ عقل محدود ہے مگر یہ اپنے عجز اپنی حدود کو پہچاننے کے باوجود اس کا ڈھٹائی سے انکار کردیتی ہے۔ بلکہ وہ لامحدود کو اپنے محدود میں مقید کرنا چاہتی ہے۔ لہٰذا اب وہ ٹامک ٹوئیاں مارتی ہے، اندازے لگاتی ہے اور اسی پر مصر رہتی ہے۔

عقل کی اہمیت کا انکار ہرگز نہیں۔ عقل وہ نمائندہ وصف ہے جو انسان کی بڑی پہچان ہے۔ بے عقلی تو بڑی شرمندگی کی بات ہے۔ مگر عقل کا خود پسند ہو کر اپنی حدود کا اعتراف نہ کرنا ازخود حماقت ہے۔ گویا عقل یہ نہیں کہ آپ سب جان لیں بلکہ عقل یہ بھی ہے کہ آپ یہ جان لیں کہ آپ کیا نہیں جان سکتے؟ عقل کی سب سے بڑی خواہش خود بادشاہ بن جانا ہے۔ مگر اس کی حقیقی حیثیت وزیر کی ہے۔ جب تک عقل وزیر بن کر وحی اور فطری داعیات سے رہنمائی نہیں لے گی تب تک بینائی سے محروم رہے گی۔ عقل کی مثال ان آنکھوں کی سی ہے جن سے ہم سب کچھ دیکھتے ہیں۔ مگر اگر ایک شخص آنکھیں رکھ کر بھی بینائی سے محروم ہو تو پھر وہ دیکھ نہیں سکتا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص آنکھیں اور بینائی دونوں رکھتا ہو مگر اس کے ارد گرد گھٹاٹوپ اندھیرا چھا جائے تو یہ بینائی و آنکھیں بھی اسے حقیقت نہیں دیکھا سکتی۔ گویا جب تک انسان کے اندر بینائی کی روشنی اور باہر ماحول کی روشنی یکجا نہ ہو تب تک اسکی آنکھوں کو “بصارت” حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ اندر کی روشنی وہ فطری داعیات ہے جو انسان کے اندر خدا نے الہام کردیئے ہیں اور باہر خارج کی روشنی درحقیقت اس وحی کا نور ہے جسے ہم تک پیغمبروں کے ذریعے منتقل کیا گیا ہے۔ عقل اسی وقت “بصیرت” بنے گی جب وہ ان دونوں کی چھتری تلے کام کرے۔ وگرنہ عقل پرستی کا یہ بت جعلی خدا بن کر آپ پر مسلط ہوجائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

”کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش ِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمّہ لے سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سُنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی گئے گُزرے۔”
(قرآن 44 ,25:43)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply