حکمت کی کرامات۔۔ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

حکمت کا  شروع ہے اور نہ  آخر ۔یہ خدا کی ودیعت اور بخشش کا خوبصورت تحفہ ہے ۔جس کی قدر و قیمت کم نہیں ہوتی اور نہ  چمک ماند پڑتی ہے ۔یہ روحانیت کی وہ سیڑھی ہے جس پر چلنے کے لئے مضبوط قوت ارادی اور خدا کی کمک کی ضرورت پڑتی ہے ۔اسے بحروبر کا مالک جسے چاہے نواز دے ۔یہ اس کی مرضی ہے کہ وہ اپنی رحمت کی بارش کس کس پر برساتا ہے ؟ آسمان و زمین کی وسعتوں میں نہ تو کوئی اس کا حدوداربعہ ہے اور نہ  اسے ماپنے کے لئے کوئی آلہ استعمال ہوتا ہے ۔کیونکہ یہ روز اوّل سے دنیا میں موجود ہے اور جب تک دنیا کا شیرازہ بکھر نہیں جاتا یہ مکاشفائی بھیدوں کی صورت میں بنی آدم کے ذہن و قلب کو آسودہ کرتی رہے گی ۔تسخیر کائنات میں جگہ جگہ اس کے کرشمے پوشیدہ ہیں ۔قدرت کے رازوں کو کون سمجھ سکتا ہے؟ یہ بنانے والا ہی جانتا ہے کہ اس نے کتنی فرصت سے آسمان کو بغیر سہارے کے کھڑا کیا ہے اور کائنات کو کتنے ذخائر کی دولت سے مالا مال کیا ہے ۔

ان سارے رازو ں کے پیچھے ایک فوق الفطرت قوت کا ہاتھ موجود ہے جس نے حکمت کی کرامات کو اتنے شگوفوں اور رنگوں میں چھپا دیا ہے ۔جنہیں زبان پر  لاتے ہوئے رشک و تحسین محسوس ہوتا ہے ۔محسوسات کا اپنا ایک موسم ہے ۔جب تک دل و دماغ انسان کو دعوتِ فکر نہیں دیتا ،اس وقت تک سوچ بچار کا چراغ نہیں جلتا اور اس کی روشنی دوسروں تک پہنچتی ہے ۔اگر ہم آسمان و زمین کی وسعتوں میں اس کے کرشمات ، عجائب ، معجزات ، اور حکمت و معرفت کے خزانوں پر غور وخوض کریں تو ہمیں ایک ایسے تصور سے آشنائی ہوتی ہے جس میں تربیت ، عقلمندی ، راستی، صداقت ، مشاورت ، اور علم و فہم کے دروازے کھلتے نظر آتے ہیں ۔یہ خدا کی مرضی ہے کہ اس نے عہد بہ عہد بنی آدم کی بہتری اور بھلائی کے لئے اسے جاری کیا۔ دنیا میں اَن گِنت معاملات اور مسائل ہیں جن کا حل صرف اور صرف حکمت کی بدولت حل ہوتا ہے ۔کیونکہ جب یہ صادر ہوتی ہے تو بڑے بڑے معاملوں کو اپنی فضیلت کے باعث سدھار لیتی ہے ۔جہاں دنیا کا علم جواب دے جائے ۔دولت کے وار ختم ہو جائے ۔وہاں یہ ساتھ نبھانے کے لیے کھڑی ہو جاتی ہے ۔اس کی بدولت امید کا چراغ روشن ہو جاتا ہے ۔اداسی اور مایوسی کے بادل چھٹ جاتے ہیں ۔بہتوں کے لئے راستہ ہموار ہو جاتا ہے ۔درخشاں مستقبل کی کرن نظر آ جاتی ہے ۔اس کی صحت و صداقت کا پرچار روز اوّل سے ہے ۔کیونکہ دنیا کی ہر چیز میں اس کی حکمت کے عناصر شامل ہیں جنہیں ٹٹولنے اور سمجھنے کے لئے روحانی بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے ۔جو ہر کسی کو نہیں ملتی بلکہ اس کی وضاحت اور پرچار ان لوگوں کی زندگیوں میں پورا ہوتا ہوا نظر آتا ہے جنہیں اس نے چُنا ہوتا ہے تاکہ وہ اس کے کرشمات کو دنیا کے سامنے بیان کر سکیں ۔حضرت سلیمان کو حکمت کا بادشاہ مانا جاتا ہے ۔انہوں  نے خدا سے صرف حکمت مانگی تھی ۔لیکن خدا نے اُن کی صاف دلی کے باعث اُنہیں دولت اور عزت کے انعام سے بھی نواز دیا۔اُنہوں نے اپنے دوِر حکومت میں پہلا انصاف کر کے لوگوں کے دل جیت لئے تھے ۔

آج دنیا کے اندر جتنی افراتفری ،بے بسی ، اور لاچاری و مجبوری کی فضا پھیلی ہوئی ہے ۔اس میں حکمت کی بہت کمی ہے ۔تربیت کا فقدان ہے ۔مشاورت کو ناچیز سمجھا جاتا ہے۔خدا کو پس پشت پھینکا جاتا ہے۔خدا کی مرضی شامل نہیں کی جاتی ۔مفاد پرستی کے منصوبوں سے پیٹ بھرا جاتا ہے ۔علم سے عداوت رکھی جاتی ہے ۔ذہن میں جلد بازی ہوتی ہے ۔عدل کی راہوں کی نگہبانی نہیں ہوتی۔بلکہ ہاتھوں پر رشوت کی مہندی لگائی جاتی ہے ۔جس کے باعث ہلاکت اور تباہی کا طوفان برپا ہو جاتا ہے ۔دنیا میں وہی لوگ سرخرو ہوئے ہیں اور انہی لوگوں کا نام زندہ جاوید رہا ہے جنہوں نے بڑے بڑے کام کیے ہیں ۔تسخیر کائنات میں دریافتیں کیں ہیں ۔لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کی ہے۔اپنی عقل پر ناز کرنے کی بجائے خدا پر بھروسہ کیا ہے ۔کیونکہ جب خدا ہی حکمت نہ  بخشے اس وقت تک دوسروں کے لئے راستہ ہموار نہیں ہوتا ،نہ منصوبے پروان چڑھتے ہیں اور نہ  منزل ملتی ہے ۔جب انسان صداقت ،عدل اور راستی کو اپنا دوست بنا لیتا ہے تو اس کے لیے حکمت کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔کیونکہ حکمت کی بہت سی کرامات ہیں جو اس کی حفاظت و نگہبانی کرکے اسے ہلاکت سے بچاتی ہیں۔انسان بدی سے کنارہ اور نیکی کو عمل میں لاتا ہے ۔وہ شفقت اور سچائی کا ہاتھ تھام کر چلتا ہے تاکہ اسے ٹھیس نہ لگے ۔ کیونکہ خدا نے حکمت سے زمین کی بنیاد ڈالی ہے اور فہم سے آسمان کو بنایا ہے ۔بغیر حکمت کے کون اس کے رازوں ، منصوبوں ، مکاشفوں ، اور بھیدوں کو سمجھ سکتا ہے؟ جس کا سچا اور کھرا جواب اس کی وفاداری ہے ۔جو اس راستے کو چن لیتا ہے ، وہ اپنی جان کو ہلاکت سے بچاتا ہے ۔حکمت ہمیں دو طرف سے مالامال کرتی ہے ۔پہلی صورت جب ہم اسے اپنی آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیتے اور دوسری صورت جب ہم اسے دوسروں پر خرچ کرتے ہیں ۔اس کی بہت سی کرامات ہیں ۔یہ ہمیں برگشتہ نہیں ہونے دیتی ۔یہ ہمیں عذاب اور شریروں سے بچاتی ہے ۔یہ خوشی   عطا کرتی ہے ۔زندگی کو پروقار بناتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

آئیں! آج ان باتوں پر غور و خوض کرتے ہوئے اپنی اپنی زندگی کا مشاہدہ کریں اور اس انمول موتی کو ڈھونڈیں ،آیا یہ ہمارے پاس ہے ؟ اگر ہے تو کیا ہم اس کا استعمال کر رہے ہیں ۔اگر نہیں ہے تو پھر اس سے مانگنے کی ضرورت ہے ۔جو بغیر ملامت اور فیاضی کے ساتھ بانٹتا ہے ۔کیونکہ جو اس سے مانگتا ہے وہ اسے دیتا ہے ۔وہ اس کی مرضی سے سمندر کی لہروں پر بھی چل سکتا ہے ۔اپنی زندگی کو گناہوں   سے بھی بچا سکتا ہے ۔یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ہم اس کی تربیت پر کان لگاتے ہیں ۔کیونکہ جب ہم اس کے فرمان بجالاتے ہیں ۔تو وہ  ہمیں حکمت بھی عطا کرتا ہے اور فہم بھی۔اس سے ہماری زندگی کے دن بڑھ جاتے ہیں ۔اور خاص طور پر جب ہم شرارت کی روٹی نہیں کھاتے اور ظلم کی مئے پینے سے انکار کرتے ہیں تو وہ ہماری راہ کو نورِ سحر کی مانند بنا دیتا ہے ۔وہ ہمارے پاؤں کو ٹھیس نہیں لگنے دیتا ۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply