جینا اسی کا نام ہے۔۔ڈاکٹر صغریٰ صدف

زندگی اِک تسلسل کا نام ہے۔ ایک ایسا دریا ہے جو کبھی نہیں رُکتا، چلتا رہتا ہے اور یہی زندگی کی ترقی ہے۔ تنزلی، رکاوٹ عارضی چیزیں ہیں۔ بعض اوقات اسی دریا میں کوئی بھاری پتھر کچھ لمحوں کے لئے ہمیں روک لیتا ہے، اس کے پیچھے کوئی راز ہوتا ہے، ہماری کسی صلاحیت کا امتحان ہوتا ہے، ہماری کسی لغزش کی سزا ہوتی ہے یا ہمیں چیلنج دیا جاتا ہے کہ ہم اس کو اٹھا کر سمندر کی طرف بڑھیں۔ اگلی منزلوں میں انتقال ابھی تک شعورِ انسانی پر کھل نہیں سکا جس کی وجہ سے ہم ارتقاکی اس منزل سے آگے سفرکرتے ہوئے ڈرتے ہیں اسے موت کا نام دیتے ہیں، موت جو ایک اندھی نگری ہے جہاں کچھ نہیں ہے لیکن دنیا میں جن بڑے فلسفیوں، دانشوروں، صوفیوں، ولیوں نے اپنے اندر جھانکا، اپنے ربّ سے مکالمہ کیا اور گہرائی میں چیزوں کو دیکھا اُن پر کھلا کہ یہ تو اعلیٰ منزل کی طرف پیش رفت ہے اسی لئے جب یہ مرحلہ آتا تھا تو وہ ایک طرح کی سرشاری اور خوشی کا اظہار کرتے تھے کہ ان کی ترقی ہو رہی ہے، وہ ربّ کے اور قریب ہو رہے ہیں۔
شعبۂ فلسفہ نے میری زندگی کو نکھارنے اور مجھے خود کو کھوجنے میں اہم کردار ادا کیا۔یہاں ایک ہستی حلیمی کا آئینہ تھی کہ بات کر کے حوصلہ ملتا تھا، کسی بھی طرح کا سوال کرتے ہوئے خوف محسوس نہیں ہوتا تھا۔ ہم سب کی زندگی میں کوئی نہ کوئی استاد ہمیں اندر سے جگانے کے لئے متعین کیا جاتا ہے۔ وہ ہمیں صرف اشارے سے رستے کا نشان دکھاتا ہے، اچھا استاد کبھی علم ٹھونستا نہیں بلکہ حاصل کرنے کی جستجو عطا کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جن دنوں میرے بھاگتے ہوئے پاؤں میں کنڈی ڈال کر مجھے اوقات یاد دلائی گئی،سب کچھ ڈانواں ڈول ہوگیا۔ وجود ہی بکھر گیا تو پھر موبائل، آوازیں اور باقی چیزیں کہاں باقی رہنی تھیں۔ انہی دنوں ڈاکٹر نعیم احمد نے اگلے پڑاؤکی جانب سفر کیا۔ڈاکٹر صاحب نے ایک بہت شاندار زندگی گزاری۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ خوبصورتیوں سے بھرا ہوا تھا جس میں دانش، علم اور رہنمائی تو ان کی ذمہ داری تھی لیکن انہوں نے مسکراہٹیں بانٹیں، زندگی کا شعور سکھایا، مثبت رستہ کیا ہے یہ بتایا۔ ان کی وساطت سے دنیا کے بڑے بڑے فلسفیوں، دانشوروں سے ملنے کا موقع ملا۔ میں نے ایک دفعہ انہیں کہا ڈاکٹر صاحب آپ کے تین بیٹے ہیں، بیٹی نہیں ہے۔ کہنے لگے آج سے تم میری بیٹی ہو اور پھر یہ آخری دم تک نبھایا۔ ڈاکٹر صاحب بحث مباحثے کے دوران اچھے جملوں کا لطف لیتے تھے، کسی مذاکرے میں کوئی بات ہوتی تو کئی دفعہ پوچھتے اچھا صغرا تم نے ایسے کہا تو پھر کیا ہوا۔ جہاں ان کا یہ شفیق روپ تھا وہیں کچھ معاملات میں وہ سخت بھی تھے۔ ہم چھانگا مانگا ٹور پہ گئے، شام ہو گئی، طالب علموں کی زندگی کا وہ دور شرارتوں سے بھرا ہوتا ہے۔وہ انوکھی حرکتیں کرتے رہتے ہیں ،واپسی پہ ہم کچھ طالبعلم بس کے اوپر بیٹھ گئے جن میں کچھ کو ٹاہلی کی باریک کونپلیں ہلکا پھلکا چھیڑ بھی گئیں مگر اتنی چوٹوں کی کس کو پرواتھی۔جب ہم واپس آئے تو ڈاکٹر نعیم احمد شدید ناراض ہوئےبلکہ کہا کہ یہ خطا معاف ہی نہیں ہو گی۔ بہرحال اس کے بعد ہم نے کبھی اس طرح کی خطا کرنے کا سوچا بھی نہیں اور معاملہ ٹھیک ہو گیا۔ جب میں نے ایف ایکس گاڑی لی تو میں موٹر سائیکل کی طرح اسے ہاسٹل اور ڈاکٹر صاحب کے گھر کے درمیان دوڑاتی رہتی تھی۔ ہفتے اتوار کو ہم گھنٹوں وہاں جا کر پہروں بیٹھے رہتے۔ ان کی بیگم جن کو ہم بھابھی کہتے ہیں وہ شاید محبت میں ان سے بھی دو ہاتھ بڑھ کر ہیں۔ پچھلے سال خاور اور میں، خاور کے بیٹے شاہو کی شادی کا کارڈ دینے گئے تو گاڑی میں بیٹھتے بھابھی ٹفن لے کر آ گئیں، گھر کے کباب ہیں۔ میں نے کہا میں نے آفس جانا ہے، کہنے لگیں نہیں لے کر جاؤ۔ میرا اس گھر سے بیٹیوں کا رشتہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ ڈاکٹر صاحب ایک محدود دائرے سے نکل کر وسیع دائرے میں چلے گئے ہیں۔ ان کی ترقی ہو گئی ہے۔ وہاں وہ دنیا بھر کے فلسفیوں کے ساتھ بیٹھ کر دنیا میں محبت، امن اور دانش کی روشنی پھیلانے کی بحثیں کر رہے ہوں گے، وہاں کوئی ایسا نظریہ بھی پنپ رہا ہو گا جس کو سامنے لانے کے لئے قدرت کسی ذہن کو تیار کر رہی ہو گی۔ ڈاکٹر نعیم احمد نےشاندار زندگی گزاری ،اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کیں، تینوں بیٹوں کے بچوں کو بڑے ہوتے دیکھا، لاکھوں طالب علموں کی رہنمائی کی، آپ کو مبارک ہو۔ علی کہہ رہا تھا ابو نے کہا کھانے کے بعد میرا آڈیو پیغام ریکارڈ کر کے صغرا کو بھیجنا لیکن اس سے پہلے وہ وینٹی لیٹر اور پھر اگلے مرحلے کی جانب۔کوئی بات نہیں مجھے امید ہے جب میں اس سمت آؤں گی تو وہاں بھی مجھے آپ کی دانش کا سایہ میسر رہے گا۔آمین۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply