پخش نگار۔۔عارف خٹک

پچھلے دنوں بنوں کے مشہور پلاؤ صدیق استاد کی دوکان میں داخل ہوا کہ بنوں کا پلاؤ چکھ لوں۔ سر پر اونی ٹوپی اوڑھے دوکان میں دیوار پر آویزاں قیمتیں دیکھ کر عمران خان کو بُرا بھلا کہنے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ پیچھے سے کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
“لالہ عارف خٹک؟”۔
میرا دل بلیوں اچھلنے لگا کہ ‘دانشور صاحب، بنوں میں بھی لوگ پرستار ہیں’۔ ہونٹوں پر آئی حفیف مسکراہٹ پھیل گئی اور پانچ کلو خون بڑھ گیا ۔۔۔ کہ دیوار پر لگے ریٹ لسٹ  میں سات سو  روپے فی کلو بیف پلا ؤدیکھ کر اوسان خطا ہوگئے۔

میرے ہونٹوں سے مسکراہٹ کافور ہوگئی۔ لجاتے ہوئے اپنا منہ پرستار کی طرف مڑا۔ پرستار کو غور سے دیکھنے لگا۔ وہ فرط جذبات سے جیسے پاگل ہوا جارہا تھا۔ میں نے اس کے جذبات پر برف والا پانی گرا دیا۔
“کون عارف خٹک؟”۔
وہ میرا منہ  تکنے لگا۔
“آپ کی شکل مشہور فحش نگار لالہ عارف خٹک سے ملتی ہے؟”۔
وہ ہنوز حیرت کے سمندر میں موجزن تھا۔
“بھائی میرا نام شربت خان ہے۔  ۔ ویسے یہ “پخش نگار” کیا ہوتا ہے؟”۔
میں نے معصومیت سے اس کا منہ تکنا شروع کیا۔ وہ جیسے میرے سوال سے چڑ سا گیا۔
“کچھ نہیں پڑھے لکھوں والی باتیں ہیں۔ آپ کی سمجھ  میں نہیں آنی۔۔۔۔۔ اپنا پلاؤکھاؤ”۔
وہ واپس مڑ کر دوکان سے باہر دفع ہوگیا۔ میں ایک پیلی میلی کرسی پر ایستادہ ہوگیا۔ پلاو کے گرم دیگ سے اٹھتا بھاپ مجھے بہت بھلا لگ رہا تھا۔
دیگ پر بیٹھے بندے کو دیکھ کر پھیپھڑوں کی پوری قوت سے آواز لگائی۔
“ایک کلو۔۔۔۔۔۔”پخش نگار” دینا استاد۔۔۔۔۔ بوٹیاں زیادہ ہوں۔ ویسے بھی لالہ عارف خٹک کی پخش نگاری میں آجکل۔بوٹیاں کم کم مل رہی ہیں۔۔۔۔۔”

مجھے  عابد آفریدی یاد آگئے۔۔

ایک دن میں نے عابد آفریدی سے کہا تھا
“عابد میری دس سالہ دانشورانہ زندگی میں مجھے کبھی یہ موقع نصیب نہ ہوسکا کہ کسی نے مجھے کھانے پر بلایا ہو اور کھانے کا بل بھی اس نے دیا ہو۔ بلکہ میں نے تو ایسے ایسے پرستار تک بھی بھگتے ہیں۔ جو مہینوں کہتے رہے کہ لالہ آپ کا دیدار کرنا چاہتے ہیں۔ کب مل رہے ہو؟۔ اپنے سارے کام چھوڑ کر ان کو بلا لیتا ہوں۔ ساتھ کھانا کھاتے ہیں اور وہ سیلفیاں کھینچ کر خدا حافظ کہہ کر چل دیتے ہیں۔ اور بل مجھے بھرنا پڑ جاتا ہے”۔

عابد نے نسوار کی پڑیا ایک ہاتھ سے دوسرے میں منتقل کرتے ہوئے مجھے ایسے  دیکھا جیسے اس کو یقین نہیں آیا ہو۔ ایک دن عابد کا فون آیا کہ لالہ ایک پرستار نے کھانے پر بلایا ہے۔ جلدی سے تیار ہوجا۔ جواب دیا آپ چلے جاؤ، ورنہ یہ بل بھی مجھے دینا پڑیگا۔ کہنے لگا لالہ یہ آپ کے پرستار نہیں ہیں میرے پرستار ہیں۔اور۔۔ ۔ پشتون بھی ہیں۔

ہم دونوں رات کو کھانے پر چلے گئے۔ میزبان نے دو کلو مٹن کڑاھی، ایک کلو چانپ اور کپوروں کی دو سیخوں کا آڈر دے دیا۔ عابد نے فاتحانہ نظروں سے مجھے دیکھا
“دیکھ لالہ فین ایسے ہوتے ہیں”۔ اور ساتھ میں پشتو میں ہدایات بھی دیتا رہا کہ لالہ آج ڈٹ کر کھانا ہے۔ ایک بوٹی بھی نہیں چھوڑنی ہے۔ آج بوٹیوں کے بوٹیوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ کھانے والے دو اعلیٰ  پائے کے دانشور ہیں۔
کھانا کھانے کے فوراً بعد عابد کے پرستار کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ہم بھی پریشان کہ اچانک اسے کیا ہوا؟۔ پوچھا کیا ہوا؟ عابد کے پرستار نے جواب دیا کہ ابھی ابھی فون پر اطلاع ملی ہے کہ بڑی امی یعنی دادی کا انتقال ہوگیا ہے۔۔۔  مجھے جانا ہوگا۔ خیر ان کو آہوں   سسکیوں کیساتھ رکشے میں بیٹھا کر رخصت کردیا۔ میں نے عابد آفریدی کی طرف دیکھا کہ چل بیٹا بل چکاتے ہیں  ۔

دوسری اور تیسری بار بھی جب یہی ہوا تو عابد کہنے لگا کہ یار لالہ ایک بات بولوں ناراض مت ہونا۔ میں نے اجازت دی۔ کہنے لگا کہ میں نے پینتیس سالہ زندگی میں بڑے بڑے منحوس شکل والے دیکھے ہیں۔ بڑے بڑے بد ذاتوں سے واسطہ پڑا ہے مگر آپ جیسا سرٹیفائیڈ منحوس پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔

اب اسے کیا بتاتا کہ ایک بار میں سوات کے کسی گاؤں میں مہمان بنا ہوا تھا۔ رات کو کھانا کھاکر بستر پر دراز ہوا۔ میزبان کیساتھ گپ شپ شروع کی تو گھڑی نے رات کا ایک بجایا۔ مہمان رخصت ہوکر حجرے کیساتھ متصل گھر چلا گیا۔ اور میں سونے کی کوشش کرنے لگا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ تھوڑی دیر بعد مہمان واپس آگیا اور پوچھا
“لالہ آٹھ سو روپے ہیں۔؟”

میں حیران کہ رات کے اس پہر میزبان کو مبلغ آٹھ سو روپوں کی ضرورت کیوں پڑ گئی ہے۔ جیب سے پیسے نکالتے ہوئے یہی بات ان سے پوچھی کہ اس وقت کیا ضرورت پیش آگئی۔ ہانپتے ہوئے جواب دیا
“آج بیگم کیساتھ ہم بستری کرنے کا موڈ ہورہا تھا۔ جیب میں پانچ ہزار کا نوٹ ہے۔ اور میں اسے آٹھ سو سے زیادہ نہیں دیتا”۔

Advertisements
julia rana solicitors

رمضانوں کی ایک گرم شام عابد آفریدی کا فون آیا
“لالہ آج دعوت ہے۔ لہذا کھانا نہیں کھانا ،صرف پانی کیساتھ افطاری کرنا۔ معدے کو حتی الامکان خالی رکھنا”۔
دل میں آیا کہ آج عابد کو بے نقط کی سناؤں۔۔ مگر وہ سمجھ گیا
“لالہ پلیز غصہ مت کرنا۔ ہوسکتا ہے آپ کے خدشات اس بار غلط ثابت ہوجائیں۔”
میں نے میزبان کا پوچھا تو بتایا کہ فیصل جوش بھائی۔ میں سر پکڑ کر بیٹھ گیاِ ،کہ عابد فیصل جوش کے خاندان والے میت کے چالیسویں پر بھی مہمانوں کو پٹھان کی دودھ پتی پلاتے ہیں۔ کہنے لگا
“نہیں یار بقلم خود جوش نے کہا ہے کہ بھابھی کے ہاتھ کا کھانا کھلاؤنگا اور آپ کو پتہ ہے بھابھی ہماری کتنی سگھڑ اور طرح دار خاتون ہیں۔ فیصل جوش کے بڑھاپے کے  جوش کے پیچھے بھابھی کا ہاتھ ہے”۔
یقین بے یقینی کی کیفیت میں افطاری پر فقط ایک کیلا اور ایک کھیرا۔  لے لیا،کہ میزبان کے گھر خالی پیٹ جانا اہلیان کراچی کا شیوہ بھی ہے اور دستور بھی۔
میزبان کے ہاں پہنچتے پہنچتے گاڑی نے اظہار محبت و تشکر کے جذبے کے تحت ایک واٹر ٹینکر کی چومی بھی لے لی ۔۔ عابد نے میرا دل رکھنے کی خاطر فرمایا
“لالہ دیکھ آج آپ کی گاڑی بھی فرط جذبات میں عمران ہاشمی بنی پھر رہی ہے”۔
رات نو بج کر دس منٹ پر فیصل جوش کو عابد نے روایتی جوش و خروش سے فون کیا
“جوش بھائی ہماری سواری آپ کے دروازے کو رونق بخش چکی ہے”۔
فیصل نے جواباً کہا
“آپ لوگ سامنے پٹھان کی چائے ہوٹل  پرتشریف رکھیں بس واش روم سے فارغ ہوکر آرہا ہوں”۔
میں نے ترچھی نظر سے عابد کو دیکھا عابد نے منہ دوسری طرف مڑ لیا۔ آدھے گھنٹے بعد میزبان آیا بہت جوش و خروش سے ملا۔ اور تین کپ دودھ پتی کاآ رڈر دیا۔ میں نے عابد کی طرف ترچھی نگاہ سے دیکھا۔ اس   نے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا۔ پندرہ منٹ بعد چائے کا دوسرا دور چلا۔ جب تیسرا دور چلا تو میں نے عابد کو ترچھی نگاہ سے دیکھا تو اس نے اپنا بوتھا دوسری طرف موڑلیا۔ میں نے سگریٹ کی ڈبیا اٹھائی اور چائے کیساتھ کش لگاتا رہا۔ کیونکہ کسی سے سنا تھا کہ ادیب چائے ایسے پیتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ وہ سگریٹ ایسے ہی پیتے ہیں۔اگر فیصل جوش ان کو دعوت دے۔
اس دوراں میں نے تین بار فیصل جوش بھائی کو جتلایا “آپ کی بیگم اور ہماری بھابھی ماں مجھے بڑے شوق سے پڑھتی ہے۔ اور مجھے اپنا بھائی بھی تسلیم کرتی ہے۔ میری بہنوں جیسی ہے۔۔۔۔” مگر فیصل موضوع بدل کر بات پھر ملا اور الحاد پر لیکر چلے جاتے تھے۔
اس دوران مختلف لوگ آتے گئے چائے پیتے گئے اور چلتے گئے مگر ہم تینوں چائے کے سولہویں دور اور سگریٹ کے تیسری ڈبیہ کے دور میں داخل ہوچکے تھے۔
خوب باتیں ہوئیں۔ مگر خالی پیٹ ہی ہوئیں۔ لہذا ان کے بارے میں خالی پیٹ لکھنا بھی گناہ عظیم تصور کرتا ہوں۔ قہقہوں کے بیچ جب رخصت ہونے لگے تو میں نے ترچھی نظر سے عابد کو دیکھا اور اس نے اپنا منہ قہقہے سمیت دوسری طرف موڑلیا۔
رات ڈھائی بجے عابد کو اس کے گھر ڈراپ کیا تو اس نے سحری کی دعوت دی۔
“آ ؤلالہ سحری ساتھ کرتے ہیں۔۔  آپ کی بھابھی آپ کی پرستار بھی نہیں اور اچھی بات یہ کہ وہ آپ کے مضامین بھی نہیں پڑھتیں”۔
میں نے گھور کر اُسے دیکھا۔۔ پھر خدا حافظ کہے بنا گھر واپس آگیا۔ بیگم نے خونخوار نظروں سے دیکھا۔
“عابد کیساتھ سہاگ رات تو منا کر آگئے ہیں اب یہ بھی بتاؤ  کہ کچھ دوں زہر مار کرنے کیلئے یا روزہ رکھنے کا موڈ نہیں ہے”۔
جواب دیا
“نہیں کھانے تیرے تیل والے کھانے۔۔ اب میرے دوست اتنے بھی بے غیرت نہیں ہیں کہ رات کے اس پہر خالی پیٹ گھر بھیج دیں۔ ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply