ایک عام سی لڑکی(2)۔۔روبینہ قریشی

میاں صاحب کے جانے کے بعد، بچوں کے کمرے اور ہمارے کمروں کی صفائی شروع کر دیتی۔ تب تک پھپھو بھی اٹھ کے، قرآنِ پاک کی تلاوت برآمدے میں دھوپ میں بیٹھ کے کرنا شروع کردیتی تھیں۔ چھوٹی نور کا بےبی کارٹ دھکیل کے دادی کے پاس دھوپ میں رکھ دیتی۔ اندر اسکے کھلونے بھی رکھ دیتی۔ میں پھپھو کے کمرے اور ڈرائنگ کی صفائی کر کے پھر کچن میں آجاتی۔ پھپھو کو کچن میں پھیلی ہوئی چیزوں سے سخت نفرت تھی۔ اس لئیے ناشتے والے برتن ان سے چھپا کے دھونے کی بجائے، سمیٹ کے ڈھک کے رکھ دیتی تھی اور دوپہر کے کھانے کا صرف گوشت سبزی نکال کے رکھ دیتی۔

تب تک چھوٹی سونے کے موڈ میں آ چکی ہوتی۔ اسے مالش کر کےنہلا کے دودھ دے کے اندر بیڈ پہ ڈال دیتی، جہاں وہ تین گھنٹوں کیلئے سو جاتی۔ اور خود سلائی مشین لے کے بیٹھ جاتی۔ ماشاءاللہ تینوں بیٹیوں کے، پھپھو کے اور میرے اپنے کپڑے اتنے ہوتے تھے کہ روزانہ 9 بجے سے 12 بجے تک سلائی کیا کرتی تھی۔ پورے 12 بجے پھر کچن میں آن موجود ہوتی۔ پھپھو کے ہاتھوں پہ الرجی تھی تو عموماً وہ سبزیاں کاٹنے سے احتراز کرتی تھیں۔ لیکن میرا ہرروز کا باہر والا سامان جس میں سبزیاں، سوئیاں دھاگے، بٹن بکرم وغیرہ ہوتا لا کے دیا کرتی تھیں۔

جب تک میں کچن میں آتی پھپھو مجھے لازمی دو، تین مرتبہ ڈانٹ چکی ہوتیں۔ لڑکی اٹھ جاو، کچھ پکانے کا کر لو۔ میرا بیٹا آجائے گا تو بھوکا ہی واپس چلا جائے گا، پھپھو آج تک آپکے بیٹے کو بھوکا بھیجا ہے یا کبھی انتظار بھی کروایا ہے؟ کچن میں آتے ساتھ بقول پھپھو کے، اس لڑکی کے ساتھ تو جنات ہیں تو بس جن آجاتے۔ ایک طرف گوشت رکھتی، ہمارے گھر چکن کبھی نہیں آتا تھا، بکرے کے گوشت کے اندر 2 گلاس پانی گرم ہونے کی دیر میں لہسن پیاز چھیل لیتی، اب ٹماٹر، لہسن، پیاز، نمک ڈال کے کوکر کو پندرہ منٹ کیلئے بند کر دیتی۔

اور خود فٹافٹ ناشتے والے تھوڑے سے برتن دھوکے، گوشت میں ڈالنے والی سبزی کاٹ لیتی۔ یہ سبزی کیا ہوتی؟ کبھی آلو، کبھی ٹینڈے، کبھی کدو، کبھی شلجم اور کبھی مٹر ہوتے۔ کیونکہ پھپو کی طبیعت خراب رہتی تھی تو ان کیلئے لازمی بکرے کے گوشت میں شوربے والا سالن بنتا تھا۔ جتنی دیر میں گوشت کا پانی خشک ہوتا، میں سبزی کاٹ پیٹ کے تیار کر چکی ہوتی۔ اب گوشت میں گھی اور جو بھی سبزی میں سے ڈالنا ہوتا، ڈال کے ساتھ ہلدی، سرخ مرچیں پسی ہوئی بھی اس موقعہ پہ ڈالتی۔ اس سے سالن کا رنگ بہت پیارا آتا اور یہ ترکیب پھپھو نے بتائی تھی۔ بلکہ سارا کھانا بنانا اپنی ساس سے ہی سیکھا۔

اب اس کو کم از کم 10 منٹ تک خوب بھونتی اور دوبارہ دو گلاس پانی ڈال کے کوکر کو پھر 15 منٹ کیلئے بند کر دیتی۔ اس دوران نور میڈم بھی جاگ چکی ہوتیں، تو انہیں بھی بیچ بیچ میں دیکھ آتی کہ تخریب کاریاں تو نہیں کررہی۔ جتنی دیر میں سالن تیار ہوتا میں چٹنی اور سلاد تیار کر لیتی۔ جونہی سالن تیار ہوتا، توا چولہے پہ رکھ دیتی۔ توا گرم ہونے کی دیر میں پیڑے بنا بنا کے رکھتی جاتی۔ روٹیاں توے پہ ڈالتی جاتی اور دوسرے چولہے پہ انہیں پھلاتی جاتی۔ خوب پھول پھول کے پھلکے تیار ہو جاتے۔ یہاں ایک بات اور بتادوں کہ میری 40 سالہ شادی شدہ زندگی میں، میں نے ہمیشہ بچوں کو اور گھر کے ہر فرد کو پھلکے تازہ ہی بنا کے دیے ہیں۔

توا چولہے کے اوپر ہی رہتا تھا۔ جو بچہ آتا تھا آگ تیز کر کے تازہ پھلکا بنا دیتی تھی۔ شوہر جی تو آتے ساتھ پھپھو کے کمرے میں بیٹھ جاتے، انکا حال احوالِ پوچھنے کے ساتھ ساتھ کھانا کھاتے اور فوراً واپس بنک روانہ ہو جاتے۔ ہر پھلکا جیسے ہی توے سے اتارتی، بھاگ کے کمرے کے اندر پہنچا آتی۔ کبھی کبھار میٹھی ڈش بناتی جو کہ رات کو بنا کے فریج میں رکھ دیتی۔ کھانے کے بعد کچن سمیٹ کے بچوں کے پاس آجاتی اور یہ میرے چوبیس گھنٹوں کا سب سے پیارا وقت ہوتا۔ چھوٹی کو خوب پیار کرتی، گدگدی کرتے، اسکے بازووں پہ، جاتے جاتے شیر آگیا، کھیلتی۔ اسے ٹانگوں پہ بٹھا کے جھولے دیتی۔

ہر ہر بچے سے اسکے دن بھر کی کارکردگی، ہم جماعت بچوں کے قصے اور اساتذہ کی نصیحتیں پوچھتی۔ کوئی اچھا کام کیا تو اسے شاباش ملتی، اگر کسی نے کوئی زیادتی کی یا ان سے کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی، تو بچوں کو سکھایا کہ اگر کسی سے زیادتی کر بیٹھو تو معافی مانگنے میں دیر مت کرنا۔ اس کے بعد کوئی ان ڈور گیم، لڈو، ڈرافٹ یا ویڈیو گیم وغیرہ وہ ہم سب مل کے کھیلتے اور میں باقاعدہ گیم کی حصہ دار ہوتی۔ پھر ہوم ورک کرواتی جو کہ ہمیشہ میں خود ہی کرواتی تھی۔ ایف، ایس، سی سے پہلے کبھی ٹیوشن نہیں رکھی تھی۔

عصر کے بعد بچوں کا قرآن پاک کا ٹائم ہوتا۔ اس کے بعد تھوڑی دیر بیٹے اسٹیڈیم جاتے اور بیٹیاں گھر پہ کھیلتی۔ ان کی سہیلیاں بھی آ جاتیں اور میں بھی ساتھ شامل ہوتی۔ ہم ٹھنڈے موسم آتے ہیں آتے ہیں، تم کس کو لینے آتے ہو آتے ہو؟ ہم مونا کو لینے آتے ہیں آتے ہیں یا کبھی چھٹی والے دن اپنی گڑیا کی شادی بھی رچا لیتیں۔ رات کا کھانا عشا کے فوراً بعد لگ جاتا۔ بچے جلدی سو جاتے، میں ہمیشہ کچن کی تفصیلی صفائی رات کو کرتی اور کپڑوں کی مکمل کٹنگ رات کو بچوں کو سلانے کے بعد کرتی۔ رات کو سونے سے پہلے ہم سب پھپھو جان کے کمرے میں ان کے ساتھ وقت گزارتے۔

اکثر ایسا ہوتا کہ پھپھو کوئی پراناقصہ پھر سے سنا دیتی، جس پہ میرا ردعمل ایسا ہوتا کہ جیسے پہلی مرتبہ سن رہی ہوں۔ اگر ہنسنے والی بات ہوتی تو ضرور ہنستی۔ ایک مرتبہ بچوں نے مجھے الگ سے کہا امی، آپ ایسا کیوں ظاہر کرتی ہیں کہ جیسے پہلی مرتبہ سن رہیں؟ تو میں نے سمجھایا کہ بزرگوں کو خوش کرنا بھی ایک ہنر ہوتا ہے اور یہ ہنر ہر بندے کے پاس نہیں ہوتا، لیکن آپ کوشش کریں کہ بزرگوں کو راضی کرنے کے گر سیکھ جائیں۔ اب تو جیسے وقت میں برکت ہی نہیں رہ گیی۔ اس وقت روزانہ کی روٹین میں ہم لوگ ملنے جلنے بھی جایا کرتے تھے۔ سب سے بڑا بیٹا جب پانچویں کلاس میں تھا تب ٹی وی آیا تھا گھر میں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جب تک بڑا والا مڈل میں نہیں چلا گیا، میں سارے گھر کو خود دیکھتی تھی۔ جب بچے بڑی کلاسوں میں آۓ تو میں نے اللہ سے لو لگا لی اور گھر میں ملازمہ رکھ لی۔ جتنی محنت بچے اپنی پڑھائیوں پہ کرتے تھے، اتنی محنت میں ان کیلئے دعاوں پہ کرتی تھی۔ زندگی کا بہت سارا وقت بھاگم بھاگ میں گزر گیا۔ اب سارے بچوں کی شادیاں کر کے فارغ ہوں تو اب اپنے لکھنے پڑھنے، نٹنگ، کروشیا والے شوق پورے کرتی ہوں۔ اب سلائی نہیں کر سکتی۔ یہ تھی ایک ایسی عام سی لڑکی کی، ایک عام سے دن کی، عام سی کہانی جس کی کام چوری کی داستانیں سنائی جاتی تھیں۔ تو آپ سوچ لیں کہ وہ جو کام کرنے میں طاق ہوتی ہیں تو وہ کیا کچھ کرتی ہوں گی؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply