ایک عام سی لڑکی(1)۔۔روبینہ قریشی

جب شادی ہوئی تو انتہا کی نکمی مشہور تھی۔ جتنی مشہور تھی، اصل میں اس سے کہیں زیادہ نکمی تھی۔ لوگوں نے پھپھو کو بہت سمجھایا بھی کہ تمہارا ایک اکلوتا بیٹا ہے۔ اور یہ لڑکی نکمیوں کی پیرنی۔ لیکن اللہ نے میرا ہی جوڑ، یہاں جوڑا ہواتھا سو میں دلہن بن کے پھپھو کے آنگن میں چاند کی طرح روشنیاں پھیلانے اتر آئی۔ اللہ پاک نے مجھ چاند کے گرد چکرانے والے پانچ ستارے بھی عطا فرمائے۔ خیر، یہ تو بعد کی بات ہے۔ اس وقت کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ میری کام چوری، نکمے پن اور کاہلی کی کہانیاں لوگوں نے تو میری ساس کو نمک مرچ لگا کے سنا دی تھیں۔

لیکن سب سے بڑا غضب تو میری اپنی اماں نے ڈھایا۔ جب پھپھو اماں کو مجبور کر رہی تھیں کہ اگر یہ سب سے چھوٹی ہے اور اسے کچھ کام کاج کا نہیں پتہ، تو آپ فکر نا کریں۔ میں خود سکھا لوں گی، تو اماں نے صاف جواب دیا”یہ صرف چھوٹی ہی نہیں کام چور بھی ہے، اسے شوق ہی نہیں کام، کاج کا”۔ گھڑے سے ایک گلاس پانی ڈالنے جائے تو پکی بات یا گھڑا نہیں تو یا گلاس نہیں، بہرحال ہونی ہو کے رہی، ہم چار بہن بھائیوں میں سے سب سے چھوٹی سب سے پہلے، سیکنڈ ائر کے پیپر دے کے ڈولی بیٹھ گئی۔ شادی کے بعد سرگودھا چھوڑا، پنڈی پہنچی۔

میں نے جب گھونگٹ کی اوٹ سے دیکھا تو گھر میں میرے علاوہ تین لوگ تھے۔ ساس، سسر اور میرے شوہر۔ ایک جز وقتی کام والی ملازمہ، بہت سادہ سا رہن سہن۔ سسر شدید سردی کے دنوں میں صبح سات بجے آفس کیلئے گھر سے نکل جاتے۔ سرتاج بھی اپنے آفس چلے جاتے۔ ہم دونوں پھپھو بھتیجی کام ختم کرکے سارا دن آپس میں باتیں کرتے رہتے۔ صبح 7 بجے لاہور ریڈیو سے سجری سویر سنتے، اس کے علاوہ 8:30 سے 9 بجے تک والا۔ آل انڈیا کا فرمائشی پروگرام سنتے۔ ویسے تو رات کو ساڑھے دس بجے، تعمیل ارشاد، بھی آل انڈیا سے میں ضرور سنتی لیکن اس وقت پھپھو اپنے کمرے میں ہوتی تھیں۔

دن کو وہ مجھے اپنی زندگی کی باتیں بتایا کرتیں، اپنی زندگی کی جدوجہد کی باتیں۔ گھر کی زمہ داریاں کیسے سنبھالیں، کیسے تنخواہ کو مینیج کرتی؟ بظاہر یہ قصے کہانیاں ہی ہوتے لیکن اندر خانے مجھے پتہ ہوتا تھا کہ باتوں باتوں میں مجھے گھر داری سکھا رہی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے میں نے جماعت سوئم میں جمع، تفریق کے سوال سیکھنےسے ابا کو صاف انکار کر دیا تھا۔ توایک دن ابا نے پاس بٹھایا اور کہا، یہ تمہارے پاس 5 سیب ہیں، یہ ان میں سے 2 میں نے اٹھا کے تمہارے بھائی اظہر کو دیئے تو اب تمہارے پاس کتنے سیب بچ گئے؟

ابا جی، آپ معصوم بچی کو اس طرح چکر دے کے تفریق کے سوال سکھا رہے ہیں۔ اللہ آپ سے خود ہی پوچھ لیں گے، اور سارے بہن بھائی ہنسنا شروع ہو گۓاور اماں نے کہایہ تو زرا معصوم ہے تو یہ حال ہیں، اور اگر معصوم نا ہوتی تو پھر کیا ہوتا؟ بہرحال، پھپھو کی باتیں میں پوری معصومیت سے سنتی اور دل وجان سے ان پہ عمل کرنے کا بھی سوچتی۔ لیکن جب وہ مجھے اپنے کئے ہوئے کاموں کی لسٹ بتاتیں تو میں ہمت ہار جاتی کہ کیسے وہ بھینس کے گوبر کو اسی وقت صاف کر دیتی تھیں، کپڑے خود ہاتھوں پہ دھوتی تھیں، کھانا بناتی تھیں؟

بجلی نہیں ہوتی تھی تو بچوں کو پنکھا جھل جھل کے دوپہر میں سلایا کرتی تھیں، اور آدھی تنخواہ ہر ماہ گاوں میں سسرال والوں کو بھیج دیا کرتی تھیں اور میں اکثر یہی سوچتی کہ میں اپنی بہووں کے سامنے کیا شوخیاں مارا کروں گی؟ نند کوئی ہے نہیں، دیور دیورانی، جیٹھ جیٹھانی اللہ نے ویسے ہی نہیں دیے۔ ساس سسر مالی طورپہ کچھ لینے کی بجائے، کچھ دینے کی پوزیشن میں ہیں۔ کام کاج مجھے ویسے ہی کرنے نہیں آتے، اس کے بعد کچھ سال گزر گۓ۔ ہم لوگ پنڈی سے سرگودھا شفٹ ہو گۓ، جانے اور انجانے میں گھر کی کتنی ہی زمہ داریاں ایسی تھیں جو میں نے سنبھال لی تھیں۔

چلیں آج ایک دن کی روداد سناتی ہوں۔ یہ 80 اور 90 کے درمیانی سال ہیں۔ سردیوں کی ایک یخ ٹھنڈی صبح ہے۔ ہر روز صبح سویرے فجر کی نماز کے بعد سب سے پہلے، پھپھو کی طبیعت کا پوچھنے اور انکے رات کو استعمال شدہ ڈسٹ بن کی صفائی کیلئے میں ان کے کمرے میں آجاتی ہوں۔ ان دنوں واش روم اٹیچ نہیں ہوتے تھے۔ اگر مجھ سے پہلے میرے شوہر جاگ جاتے تو یہ ڈیوٹی وہ خود انجام دیتے، اور میرے سارے بچے ایک ہی جیسی توجہ اور اپنائیت سے دادی کے رات والے ڈسٹ بن کی صفائی کر دیتے تھے۔

اس کے بعد پھپھو کو قہوہ دے کے پھر وہاں کا کام، بچوں کے سکول جانے تک ختم ہو جاتا۔ اس کے بعد چھوٹی بچی کے رات والے کپڑے (پیمپر نہیں ہوتے تھے) اور کچھ روز مرہ کے استعمال والے کپڑوں کی دھلائی شروع ہو جاتی (جوکہ نماز سے پہلے جب وضو کیلئے جاتی تو سرف میں بھگو دیتی تھی)، عموماً سورج کی پہلی کرن سے پہلے دھلے ہوئے کپڑے چھت پہ پھیلا چکی ہوتی۔ ابھی بچے اندر کمروں میں سورہے ہوتے جب میں صحن کی صفائی سے فارغ ہو کے دونوں واش روم جو کہ صحن میں تھے، دھو کے ڈیٹول وغیرہ ڈال کے باہر کی صفائی مکمل کر لیتی۔

اس کے بعد کچن میں آجاتی۔ ابھی بیٹھ کے پکانے والا سسٹم چل رہا تھا۔ بچے منہ ہاتھ دھو کے، دانت برش کر کے کچن میں آجاتے۔ دیوار کے ساتھ، چٹائی کے اوپر ایک چھوٹی تلائی ڈال کے بچوں کو بٹھانے کی جگہ جھاڑ کے سیٹ کردیتی۔ بچے منہ دھو کے آتے جاتے اور پہلے پراٹھے پہ جھگڑا شروع ہوجاتا۔ میں سب سے بڑے کو پہلے ہی بتا چکی ہوتی کہ پراٹھا تمہارا ہے، بس تم نے بولنا نہیں اور باقیوں سے عموماً بات اس طرح شروع کرتی، تمہیں پتہ ہے رات کو ایک چوہا کچن میں گھس آیا تھا۔ جب میں نے دیکھا تو توے کے اوپر بیٹھا ہوا تھا، پھر اس کو بھگایا تو وہ چلا گیا لیکن اب توا تو چوہے والا ہے، تو اب پہلا پراٹھا کون لے گا؟

Advertisements
julia rana solicitors

اس کے بعد سب سے پہلے ہمیشہ بڑے والا پراٹھا لینے سے انکار کرتا تھا، جس کی خاطر یہ سارا ڈرامہ ہوتا تھا اور وہ آج بھی ڈاکٹریٹ کر کے بھی ایسا ہی بھولا اور بھلکڑ ہے۔ بہرحال، شوہر بینکر تھے ان کا ٹائم گرمیوں، سردیوں میں 9 بجے کا ہوتا تھا۔ میں بچوں کی تیاری کروا کے انہیں سکول روانہ کرتی، سب سے چھوٹی کو فیڈر دے کے دادی کے کمرے میں بھیج دیتی۔ اب پھپھو کا ناشتہ بنا کے لے آتی۔ میاں جانی کے کپڑے، جوتے اور ضرورت کی چیزیں سامنے رکھ کے پھر کچن میں آجاتی۔ انکا ناشتہ بناکے ان کے سامنے رکھتی۔ ان دنوں ہمارے ہاں ابھی ٹی وی نہیں تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply