لمحے کی تقدیس۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

محاوروں میں صدیوں کی دانش پوشیدہ ہوتی ہے۔ ایک معروف انگریزی محاورہ ہےʻ جس کا ترجمہ اُردو میں یوں کیا جا سکتا ہے کہ اگر تم روپے بچانا چاہتے ہو تو پیسوں کی قدر کرنا سیکھو۔ ہماری زندگیوں میں سکہ رائج الوقت لمحہ ہے۔ زندگی میں ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ہم لمحوں کو ضائع کر دیتے ہیں اور پھرسالوں کے ضائع ہونے پر خود کو کوسنے دیتے رہتے ہیں۔ لمحوں کا گوشوارہ بے ترتیب ہو جائے تو برسوں کے کھاتے درہم برہم ہو جاتے ہیں۔ پیسہ ضائع ہو جائے تو واپس آجاتا ہے، ضائع شدہ وقت واپس نہیں آتا۔ وقت ضائع کرنا گویا اپنی ٹرین مِس کر دینا ہے۔ ”ٹرین مِس کرنا “بھی انگریزی کا محاورہ ہے۔ اگرچہ بعد میں ملنے والی اور چلنے والی ٹرین بھی ہمیں منزلِ مقصود تک پہنچا سکتی ہے لیکن دوسری ٹرین کے مناظر وہ ہرگز نہ ہوں گے جو پہلے وقت کی ٹرین میں کھڑکی کے ساتھ سیٹ پر پُرسکون بیٹھے ہوئے مسافر کے نصیب میں ہوتے ہیں۔ لیٹ ہونے والا سفر کے مناظر سے لطف نہیں لے سکتا۔ زندگانی کے سفر میں اُس کا سانس پھولا رہتا ہے۔ بروقت کام کرنے والا ہی اپنے وقت میں ہر وقت دستیاب رہتا ہے۔ لمحوں کی قدر کرنے والا اپنے وقت میں وسعت پا لیتا ہے، اور یہی وہ شخص ہے جو دوسروں کی آواز پر لبیک کہہ سکتا ہے، دوسروں کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے اور اُن کی جانب استمداد کا ہاتھ بڑھا سکتا ہے۔

لمحے کی قدر وہ شخص کرتا ہے جو اپنے حصے میں آنے والے کام کو مقررہ وقت پر کرنے کا خود کو پابند بنا لے۔ خود پر پابندی ہی آزادی ہے۔ اپنی مرضی سے زندگی بسر کرنے والا بالآخر لوگوں کی مرضی کا پابند ہو جاتا ہے۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے ۔ خود کو ضبط کی زنجیر میں جکڑ کر سب زنجیروں سے خود کو رہا کروا لیںٗ یا پھر خود کو ”آزادی“ کا خوگر بنا کر اپنی جبلتوں کے بُندی خانے کا اسیر بنا لیں۔ یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن کا ضبط ہی اُس کا ربط ہے،یہ ربط ہی اس کا رابطہ ہے، خالق اور مخلوق کے ساتھ!! ایک دوسرے محاورے کے مطابق ” انسان اپنی تقدیر کا خود معمار“ اگر ہم اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں سے خود رقم کرتے ہیں ، تو وہ تحریر یہی ہے، ہمارا فیصلہ ہی ہماری تقدیر ہے۔ ہم بندگی قبول کر کے رہائی لینا چاہتے ہیں؟ یا پھر آزادی اور آزاد روی کے جھنجنے کی جھنکار پر بے خود ہو کر خود کو جبلّی اور طبعی قوانین کے زندان میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ جسم کو کسی ضابطے کا پابند کر لیا جائے تو رُوح کشادگی میں آ جاتی ہے۔ خود کو وجودی تقاضوں کے حوالے کر دیا جائے تو رُوح کی آزادی گروی رکھ دی جاتی ہے۔

زندگی کا ہر مرحلہ ہم سے کچھ تقاضا کرتا ہے، اس تقاضے کو بروقت نبھانے کی عادت ہمیں عافیت میں لے جاتی ہے ، یہ عافیت نہ ملے تو آفت منہ کھولے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔ بروقت کام نہ کرنے سے ہم پر فوت شدہ لمحے کا کچھ قرض چڑھ جاتا ہے، جوں جوں یہ قرض بڑھتا ہے ʻہماری گردن جھکتی چلی جاتی ہے۔ مخلوق کے سامنے جھکی ہوئی گردن،خواری سے تعبیر کی جاتی ہے، صرف اپنے خالق کے سامنے جھکنے والا سر ʻ سرفراز ہوتا ہے۔ بچپن کے تقاضے اور ہیںٗ جوانی کے اور؛ اورʻ بڑھاپے کے تقاضے کچھ اور! جوانی میں بچپن کی ضد اور بڑھاپے میں جوانی کی دلچسپیاں غیر مناسب بھی ہیں اور غیر مہذب بھی!! ”بال ہٹ“ بھی ایک محاورہ ہےʻ یعنی بچپنے کی ضد !! پچپن میں بچپن کا مظاہرہ کیا جائے ٗتو وقت وجود اور وسائل کا قرض کسی سُود مرکب کی طرح انسان کے سر چڑھ جاتا ہے، زندگی بے ترتیب ہو جاتی ہے، بجائے اس کے کہ انسان اپنی زندگی کی گاڑی کا ڈرائیور خود بنے ٗ زندگی اسے ڈرائیو کرنے لگتی ہے۔ ایسے میں انسان کے پاس اپنی اصلاح کی فرصت رہتی ہے ʻنہ تصور!! اپنی اصلاح کا خیال نہ ہوٗ تو اپنی رعیت کی اصلاح کا خیال کیسے وارد ہو گا؟ انسان کسی کو وہی کچھ دے سکتا ہے جو اُس کے پاس موجود ہوتا ہے۔ اِس لین دین میں وسائل کے ساتھ اصلاح ، سکون اور خیال بھی شامل ہیں۔

ہمارا دین ٗ دینِ فطرت ہے، ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں دینِ فطرت ماننے والے معاشرے میں پیدا کیا گیا ہے، ہمیں پیغامِ فطرت ڈھونڈنے کے لیے اپنے ماحول، ملک اور خاندان سے بغاوت نہیں کرنا پڑی۔ دین نے اس زندگی میں ہمیں ہمارے وقت، وجود اور وسائل کی تقسیم بہت احسن طریق سے سکھا دی ہے۔ یہاں تک کہ یہاں مرنے کے بعد مال کی تقسیم بھی ایک طے شدہ کلیے کے تحت ہے۔ اس میں تحریف کرنے والا ظلم کا مرتکب ہوتا ہے۔ صدقہ، خیرات اور زکوٰۃ کے باب میں بھی مصارف اور اس کی شرح بتا دی گئی ہے— ہر اَمر کی تشریح موجود ہے۔ درحقیقت ہمارا مال ٗہمارا مال نہیں ، ہم نیک کاموں میں بھی اسے اپنی مرضی سے خرچ نہیں کر سکتے،ایسا نہیں ہو سکتا کہ زکوٰۃ کسی غیر مسلم کو پکڑا دی جائے، یا کسی خیراتی ادارے کے سپرد کر دی جائے، اسی طرح کسی ریاست میں لاگو کوئی روڈ ٹیکس یا انکم ٹیکس زکوٰۃ کا متبادل ہرگز نہیں ہو سکتا۔ یہی حال وقت کا ہے۔ ہمارا وقت سارے کا سارا ہمارا نہیں، اس میں وقت دینے والے کا بھی حصہ ہے، اور اس میں ہمارے آس پاس رہنے والوں کا حصہ ہے۔ ہم کسی کا حصہ غصب کر کے سارا وقت اپنی ذات کے لیے مختص نہیں کر سکتے۔ یہ محض خود غرضی ہی نہیں ٗ ظلم بھی ہے۔ آج ہم اپنے گھروں میں گھر والوں سے کم بات کرتے ہیں اور اپنے موبائل پر یار باشی میں زیادہ مشغول رہتے ہیں، یہ گھر والوں کے حق میں ظلم ہے— ہم اپنا اور اپنوں کے حصے کا وقت کسی غیر کو کیسے دے سکتے ہیں؟

ہماری زندگی میں طے شدہ لمحات ہیں، اور ان لمحات کی تقسیم بھی طے شدہ ہے۔ یہاں تک کہ عبادت بھی طے شدہ اوقات میں فرض ہے، زوال کے اوقات میں نماز اور سجدہ قبول نہیں۔ وقت پر نماز ادا نہ کی جائے تو پھر اِس کی قضا پڑھنا ہوتی ہے اور ظاہر ہےʻ قضا شدہ نماز فضیلت میں بروقت نماز کی جگہ نہیں لے سکتی۔ پنجابی کا محاورہ ہے ” ویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکراں“ سجدۂ شکر اور سجدۂ توبہ میں فرق بہر حال موجود رہے گا۔ دینِ فطرت میں پنجگانہ نماز کے نظام الاوقات طے کر دیے گئے، اور سچ پوچھیں تو یہ پنجگانہ نماز ہمارے وجود پر ایک احسانِ عظیم ہے۔ فجر سے عشا تک وقت پر نماز ادا کرنے سے زندگی کے نظام الاوقات میں جو ترتیب اور سلیقہ میسر آتا ہےʻ اُس کا جواب نہیں۔ اسی طرح روزہ ہے، روزہ رکھنے اور کھولنے میں ایک ایک لمحے کا خیال رکھا جاتا ہے، سحری کے لمحات خوابِ غفلت کی نذر ہو جائیں تو روزہ رکھنے کی سعادت سے محرومی ہی مقدر ٹھہرتا ہے، مغرب سے چند لمحے پہلے خوانِ نعمت کی طرف ہاتھ بڑھا دیا جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ دراصل حسنٗ حسنِ ترتیب کا نام ہے۔ لمحوں میں حسنِ ترتیب میسر آجائے تو انسان کی زندگی خوب سے خوب تر ہو جائے۔

جو شخص جتنا قیمتی ہوتا ہےʻ اُس کے لمحات بھی اتنے ہی قیمتی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہم جس شخصیت کو قیمتی تصور کرتے ہیںٗ اُس کے وقت کا احترام بھی ہم پر لازم ہے۔ پس! ہر شخص کو یہ جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کہاں کہاں قیمتی ہےʻ پس ! وہاں وہ اپنے لمحوں کی نگہداشت میں چوکس ہو جائے۔ ایک امام مسجد اگر وقت سے بے ربط ہو جائے تو ساری جماعت پریشان ہو جاتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ جہاں جہاں ہم اپنی جماعت کی امامت کر رہے ہیںʻ وہاں اپنے وقت کا کڑا احتساب لازم سمجھیں ʻ تا آن کہ ہماری اقتدا میں چلنے والے کہیں بے ترتیب نہ ہو جائیں۔ پابندئ وقت کی خلاف ورزی دراصل وعدہ خلافی کی ایک شکل ہوتی ہے۔ حدیث پاک میں واضح فرما دیا گیا ہے کہ جسے وعدے کا پاس نہیں ʻاس کے پاس کوئی دین نہیں۔ جب ہم اپنا وقت ضائع کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم اپنے ساتھ منسلک بہت سے لوگوں کا وقت بھی ضائع کر رہے ہوتے ہیں— اللہ کے بندے ʻقول کے بندھے ہمارے ساتھ وقت ضائع کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

خود احتسابی کے باب میں لمحوں کی ترتیب میں خلل ڈالنے والے عناصر کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ خیال بے ترتیب ہو جائے تو عمل میں ترتیب قائم نہیں رہتی۔ بے ترتیب خیال کے علاوہ جو چیز لمحوں کی ترتیب کو درہم برہم کرنے کا موجب ہےʻ وہ وجود کا جمود ہے۔ لذّاتِ کام و دہن کی رغبت ہمیں لمحوں کی تقدیس سے غافل کر دیتی ہے۔ ایک لمحے کا قرض کئی دنوں کی مشقت کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات ایک لمحے کا تاوان ادا کرنے کے لیے پوری زندگی صرف ہو جاتی ہے۔ ایک محاورہ نما مصرع ہے:
ع لمحوں نے خطا کی تھیʻ صدیوں نے سزا پائی

Advertisements
julia rana solicitors

”کشف المحجوب“ میں حضرت علی ہجویریؒ نے ایک خواب تحریر کیا ہے، فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے رسولِ کریمﷺ کی زیارت ہوئی تو میں نے آپﷺ سے عرض کی ٗ حضورؐ! کوئی نصیحت فرمائیں۔ سبحان اللہ! طالبِ صادق ہمیشہ نصیحت کے طالب رہتے ہیں۔ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا”احبس حواسک“ ( اپنے حواس قابو میں رکھ )۔ سبحان اللہ مااجملک ما احسنک— حضوراکرمﷺ کا فرمان ہے کہ مجھے جوامع الکلم عطا کیے گئے ہیں۔ ان دو لفظوں میں کس قدر بلیغ نصیحت فرما دی گئی ہے، گویا سالک کے لیے ایک نصابِ زیست مرتب کر دیا گیا ہے۔ رسولِ کریمﷺ جو بھی فرمائیںʻ وہ حدیث ہوتی ہے، آپؐ خواب میں بھی کسی اُمّتی کو ہدایت فرما سکتے ہیں، راوی ثقہ ہو تو اِسے بھی حدیث میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اپنے حواس کو قابو میں نہ رکھا جائے تو وہ لذات میں منہمک ہو جاتے ہیں، اور عالمِ کثرت میں حواسِ خمسہ کا یہی انہماک زندگی میں چنیدہ لمحوں کی ترتیب اور تقدیس سے انسان کو غافل کر دیتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply