تخلیقی تحریر۔۔رعایت اللہ فاروقی

مالک کا احسان کہ چند برس کی اس زندگی میں کوئی موٹیویشنل اسپیکر اپنا اسیر نہ کرسکا۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ مطالعے کی عادت بچپن سے لگ گئی تھی جبکہ موٹیویشنل اسپیکر اپنی غیر علمی خرافات سے صرف انہی کو متاثر کر سکتا ہے جنہیں علم سے لگن نہ ہو۔
یہ علم سے کتنے دور ہوتے ہیں، اس کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ چند روز قبل ملک کے ایک معروف موٹیویشنل اسپیکر کا 34 منٹ 56 سیکنڈز پر مشتمل بھاشن محض اس لئے سننا پڑا کہ موضوع تھا “کرییٹو رائٹر کیسے بنیں ؟” سنتے ہوئے پہلی لاحول تو ہماری زبان سے ویڈیو کے چھٹے منٹ میں اس وقت جاری ہوئی جب موصوف نے اپنے سامعین سے فرمایا۔
۔یہ ذوق لفظ کہیں لکھ لیں
ہمارا چونکنا فطری تھا کیونکہ بات بتانے سے قبل اسے لکھنے کی تلقین عام طور اس صورت میں کی جاتی ہے جب کوئی ایسا علمی نکتہ بیان کرنا مقصود ہو جو اس سے قبل کبھی انسانی شعور کے سامنے نہ آیا ہو۔ سو ذوق لفظ لکھا تو ہم نے نہیں لیکن ہمہ تن گوش ضرور ہوگئے۔ موصوف نے ارسطو کی قبر پر لات کیا پورا بلڈوزر پھیرتے ہوئے فرمایا
ذوق کا مطلب ہوتا ہے اچھا شوق دینا۔
سو لاحول تقریباً بے اختیار ہی نکلی کیونکہ اس جہل مرکب کو یہی معلوم نہ تھا شوق پہلے اور ذوق بعد میں پیدا ہوتا ہے۔ ذوق نتیجہ ہوتا ہے سالوں کے شوق کا۔ جب شوق اپنی انتہائی سطح کو چھو لے تو یہاں سے ذوق کا آغاز ہوتا ہے جو شروع میں گھٹیا ہوتا ہے مگر رفتہ رفتہ بہتر سے ہوتے ہوئے اعلیٰ سطح تک جا پہنچتا ہے۔
جو ذوق کے تمام مراحل سے گزر کر اس کے مقام اعلیٰ پر ہو ایسے شخص کے متعلق کہا جاتا ہے “اس کا ذوق بہت اعلی ہے” یہ تو ہوئی ذوق کی صورت تخلیق جبکہ ذوق کہتے اسے ہیں کہ جس چیز کا انتہائی شوق ہو وہ مستقل لگن کے نتیجے میں آگے چل کراس شخص کے مزاج کا حصہ بن جائے۔
غضب تو ان حضرت نے تب ڈھایا جب کرییٹو رائٹر بننے کی اکلوتی ٹپ پیش فرماتے ہوئے کہا کہ وہ کاغذ کے وسط میں گول دائرہ بنا کر اس میں عنوان لکھ لیا کرتے ہیں اور اس دائرے سے چاروں جانب قلم سے شاخیں نکال لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان پر موضوع کے کئی پہلو روشن ہوجاتے ہیں اور وہ پھر بیٹھ کر خاکہ بناتے ہیں کہ انہیں اپنی کرییٹو تحریر کے شروع میں کیا، درمیان میں کیا اور آخر میں کیا لکھنا ہے۔ ظاہر ہے جب لکھ چکتے ہیں تو ان کا مزعومہ “ماسٹر پیس” تیار ہوتا ہے۔
چلئے جائزہ لیتے ہیں کہ کرییٹو رائٹر یا تخلیقی نثر نگار کون ہوتا ہے۔ اسی سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس باب میں موصوف نے ابھی شعور کی سیڑھی پر پہلا قدم بھی نہیں رکھا مگر نکلے ہیں یہ دوسروں کو کرییٹو رائٹر بنانے۔
عمومی مفہوم میں تو رائٹر ہر وہ شخص ہے جو اظہار کے لئے قلم کا استعمال کرتا ہے۔ چاہے پھر کسی بھی حوالے سے ہو۔ مگر یہ لفظ قلم قبیلے کی جس ہستی پر اپنی کامل معنویت کے ساتھ صادق آتا ہے وہ کرییٹو رائٹر ہے۔

اس ضمن میں پہلا سوال یہ ہے کہ تخلیقی تحریر کسے کہتے ہیں ؟عام تصور یہ ہے کہ تخلیقی تحریر وہ ہے جس میں قلمی جمالیات اپنے عروج پر ہوں۔ یعنی اس میں فن تحریر اپنے جوبن پر نظر آرہا ہو۔ محض لفظوں کا ہی نہیں بلکہ تخیل، استعارات، کنایات، محاورات اور اشعار کا شاندار استعمال اس میں موجود ہو اور اس تحریر میں انسانی کیفیات کا اثر اتنا گہرا ہو کہ اپنے قاری کو ان کیفیات میں پہنچا کر مسکراانے یا رونے پر مجبور کرسکے۔ یہ سب درست مگر یہ تخلیقی تحریر کی جامع تعریف نہیں ہے۔
مذکورہ جملہ خوبیاں محض نثر سے تعلق رکھتی ہیں۔ جبکہ تحریر کا ایک مقصد بھی ہوتا ہے۔ اور مقصد ہے قاری کے انداز فکر کو بدلنا کیونکہ انداز فکر بدلنے سے اس کی معاشرت بدل جاتی ہے۔
سو تخلیقی تحریر کی جامع تعریف وہ ہوگی جس میں اس مقصد کا بھی احاطہ ہو۔ یوں تخلیقی تحریر وہ ہے جو تخلیق کے جمالیاتی عناصر کی مدد سے اپنے قاری کے انداز فکر میں وہ تبدیلی رونما کرنے کی طاقت رکھتی ہو جس کے نتیجے میں بہتر معاشرے کی “تخلیق” شروع ہوسکے۔
اس باب میں قدیمی عرب ادیبوں کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ وہاں بس جمالیات ہی جمالیات ہیں۔ سماج میں تبدیلی پیدا کرنے کی طاقت سے ان کے شہ پاروں کا دامن خالی ہے۔
آپ اس پر سر تو دھن سکتے مگر اس سے سماج نہیں بُن سکتے۔ اس کے برخلاف مولانا رومی اور سعدی شیرازی کا فارسی ادب تخلیق کے تمام تقاضے پورے کرتا نظر آتا ہے۔ بالخصوص مولانا رومی کی خدمات کا اس سے بڑا اعتراف اور کیا ہوگا کہ امریکہ میں ان کے افکار پر تحقیق کے لئے گورے ادارہ قائم کرچکے ہیں اور مولانا رومی کے افکار پر وہاں پی ایچ ڈی بھی ہو رہا ہے۔
تخلیقی رائٹر کو جو چیز سب سے ممتاز کرتی ہے وہ یہی ہے کہ وہ پہلے سے موجود علم یا تصورات کو آگے منتقل نہیں کر رہا ہوتا بلکہ سماج کو اپنے نتائج فکر سے یوں آگاہ کر رہا ہوتا ہے کہ جو وہ لکھ رہا ہوتا ہے وہ مکمل طور پر ایک نئی بات ہوتی ہے۔ ایک نیا تصور ہوتا ہے۔ اس کی تحریر اس شعور کا تخلیقی اظہار ہوتا ہے جو علم سے پروان چڑھا اور غور و فکر سے نتائج فکر مرتب کرنے لگا اور اب یہ اتنا طاقتور ہے کہ کسی علم یا اس کی اصطلاحات کا ذکر کئے بغیر ایسے نتائج فکر فراہم کرنے لگ گیا ہے جو علم سے متصادم نہیں بلکہ ہم آہنگ ہیں۔
چنانچہ ایسے رائٹر کی تحریر میں علم نہیں ڈھونڈا جاتا بلکہ شعور تلاش کیا جاتا ہے۔ اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ جو نیا خیال پیش کیا گیا ہے یہ علم کے مسلمات سے متصادم تو نہیں؟ کیونکہ فکر کی دنیا میں کسی چیز کے درست قرار پانے کا واحد معیار یہی ہے کہ وہ علم سے متصادم نہ ہو۔
ایسے رائٹر کا ایک امتیازی وصف اور بھی ہے جو اسے باقی تمام قسم کے رائٹرز سے بالکل الگ مقام پر پہنچا دیتا ہے۔ وہ یہ کہ باقی تمام رائٹرز سوچتے پہلے ہیں اور لکھتے بعد میں ہیں۔ یعنی انہیں جو لکھنا ہوتا ہے پہلے اس کا خاکہ ذہن میں ترتیب دیتے ہیں۔ پھر قلم اٹھا کر اسے کاغذ پر اتارتے ہیں جبکہ تخلیقی رائٹر کے ہاں اکثر صورتحال یہ ہوتی ہے کہ اچانک ایک خیال کوندا۔ اور اس خیال نے اسے بے قرار کرکے قلم اٹھانے یا کی بورڈ سنبھالنے پر مجبور کردیا۔
وہ فوراً قلم اس لئے اٹھاتا ہے کہ جانتا ہے کہ یہ محض ایک خیال نہیں بلکہ اس کے پیچھے مربوط خیالات کی پوری بارات کھڑی ہے۔ لہٰذا جوں ہی اس کا قلم چلنا شروع ہوگا یہ بارات بھی سامنے آکر کاغذ پر اترتی چلی جائے گی۔ چنانچہ اس کا ذہن لکھنے سے قبل نہیں بلکہ لکھنے کے دوران سوچ رہا ہوتا ہے۔
ایسا صاحب قلم ٹھہر ٹھہر کر دماغ استعمال نہیں کر رہا ہوتا کہ اب میں نے یہ اور اب وہ سوچنا ہے۔ بلکہ کیفیت یہ ہوتی ہے کہ دماغ اس کے قلم کا ہی نہیں بلکہ خود اس کی ذات پر بھی حاکم ہوچکا ہوتا۔ وہ خودکار طور پر چل رہا ہوتا ہے اور جو جو وہ سوچ رہا ہوتا ہے وہ اسی لمحے قلم سے نکل رہا ہوتا ہے۔
اس کا قلم اور دماغ بالعموم ایک ہی رفتار اور تال میل سے چل رہے ہوتے ہیں۔ ذہن جو سوچتا چلا جاتا ہے اسے اسی لمحے قلم وجود بھی بخشتا چلا جاتا ہے۔ مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دماغ قلم سے آگے نکل جاتا ہے۔ اس صورت میں نظر ثانی کے دوران پتہ چلتا ہے کہ بعض پورے پورے جملے ضبط ہونے سے رہ گئے ہیں۔
ایسے رائٹر کو کبھی لکھتے وقت کسی درز سے دیکھ لیں تو موضوع کا موڑ خوشگوار ہونے کی صورت اس کے لبوں پر ایک تبسم پھیلا نظر آئے گا۔ وہ تبسم اس کا اپنے دماغ کو جواب ہوتا ہے۔ جیسے وہ کہہ رہا ہو “یہ تو کیا قہر ڈھا رہا ہے میرے دوست ؟”اگر یوں کہوں تو قطعا بیجا نہ ہوگا کہ ایسے تحریری عمل کے دوران تین کردار بیک وقت متحرک ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک دماغ جو مستقل شخصیت کے طور پر متحرک ہوتا ہے۔ دوسرا قلم جو سوچ کو لفظوں میں اتار رہا ہے اور تیسرا یہ ادیب جس کا وجود دماغ اور قلم کے مابین بس ایک پل بن کر رہ گیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب یہ تحریر مکمل ہوتی ہے تو اسے پڑھ کر جو شخص سب سے پہلے تحیر میں ڈوبتا ہے وہ خود یہ ادیب ہی ہوتا ہے۔ وہ کچھ دیر کے لئے تنہائی میں سکتے کی کیفیت میں ہوتا ہے کہ یہ اس کے قلم سے نکل کیا آیا ہے۔
اس کا یہ تحیرہی اس بات کی دلیل ہے کہ کمرے میں ایک نہیں تین کردار موجود تھے اور ان تین میں سے صرف یہی اس لئے حیران ہے کہ تخلیق ذہن کے ان لمحوں کی ہے جہاں وہ رائٹر کے کنٹرول سے نکل کر مکمل خود مختاری حاصل کر گیا تھا۔ اس خود مختاری کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ بعض رائٹر سے آپ نے یہ ضرور سنا ہوگا کہ میں لکھنے تو کچھ اور بیٹھا تھا مگر قلم سے تحریر کچھ اور نکل آئی۔
قلم سے کچھ اور اس لئے نکل آیا کہ صاحب قلم لکھنے تو بیٹھا تھا روٹین کالم لکھنے اور پیش نظر چونکہ روٹین پوری کرنا تھا تو اس نے موضوع ہی نہیں بلکہ خاکہ بھی ترتیب دے رکھا تھا کہ کیا لکھنا ہے۔ لیکن جب لکھنا شروع کیا تو ذہن نے “ٹیک اوور” کرلیا۔ اس نے اس کی مرضی اور خواہش معطل کرکے سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ یوں قلم سے نکلی اس تحریر کو دیکھ کر صاحب قلم اب سوچ رہا ہے کہ جو میں لکھنا چاہ رہا تھا وہ یہ تو نہیں ہے۔ یہ تو کوئی بہت اعلیٰ شہ پارہ قلم سے نکل آیا ہے۔
اب اگر غور کیجئے تو ذہن اور صاحب قلم الگ نظر آرہے ہیں۔جس ماسٹر پیس کو تکمیل پر یہ حیرت سے تک رہا ہے اس پر خود ذہن کو کوئی حیرت نہیں۔ وہ تو اب اپنی نارمل حالت کی طرف لوٹ چکا۔ ایسے اہل قلم شب کی تاریکی میں قلم کے ساتھ بتائے ان لمحوں پر سو محبوبائیں قربان کرنا بھی بہت معمولی بات سمجھتے ہیں۔
ادیب اور شاعر کی بیوی اکثر کیسز میں شکل سے چڑیل کی خالہ کیوں لگتی ہے ؟کیونکہ وہ سوچتا ہے نسل چلانے کے لئے واجبی سی شکل و صورت والی رفیقہ حیات کا ہونا ہی کافی ہے۔ کسی نسرین ناز آفرین کو گھر لایا تو پھر اس کے نخرے اٹھانے سے ہی فرصت نہ ہوگی جبکہ نخرے تو بس قلم کے ہی اٹھائے جاسکتے ہیں۔
ایسا بھی نہیں کہ اسے پرکشش چہرے اور ترشے بدن میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ دلچسپی ہوتی ہی نہیں بلکہ عام آدمی سے زیادہ اور بہتر بھی ہوتی ہے۔ مگر اس باب میں وہ عام طور پر ڈسپوزبل حسیناؤں سے ہی کام چلاتا ہے۔ وہ کسی کو مستقل بنیاد پر گلے نہیں لگاتا۔
امید ہے یہ کالم پڑھ کر قبلہ موٹیویشنل اسپیکر جی کو یہ تو سمجھ آجائے گا کرییٹو رائیٹنگ میں کوئی دائرہ، کوئی شاخیں اور کوئی خاکے نہیں ہوتے۔ مگر ایسے میں وہ یقیناً اس مخمصے میں پڑ سکتے ہیں کہ اب اپنے دائرے اور شاخوں کا کیا کروں ؟ سو اس کا حل بھی ہم عرض کر دیتے ہیں۔ یوں کیجئے، ہر شاخ پر الو بٹھا دیجئے۔ سامنے تو آپ کے بیٹھے ہی ہوتے ہیں، شاخوں پر بھی بٹھا لیجئے !۔

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply