پرانی فلمیں ،پُرانے اداکار(2،آخری حصّہ)۔۔ناصر خان ناصر

فلم سیتا مریم مارگریٹ میں فلمسٹار رانی بے حد خوبصورت ملبوسات اور ہیر سٹائلز کے ساتھ آئیں۔ رانی بے حد ورسٹائل اداکارہ تھیں۔ انھوں نے کئی فلموں میں بڑی کامیابی سے کردار کی ضرورت کے مطابق لہجے تبدیل کئے۔ ثریا بھوپالی اور بیگم جان ان کی مثالیں ہیں۔ رانی کو رقص و سرور میں ملکہ حاصل تھا۔ رانی نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر حسن طارق صاحب کو چھوڑ دیا۔ وہ رانی کی بے وفائی کی تاب نہ لا سکے اور اسی غم میں گھل گھل کر جلد ہی جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ آخری دنوں میں فرشتہ صفت ایمی مینوالا نے انھیں سہارا دیا اور دل و جان سے ان کی خدمت کی۔۔۔رانی کی بے شمار نئی فلمیں آئیں جن میں رانی پھڈے باز، ضرورت وغیرہ شامل تھیں۔ اداکار شاہد اور وحید مراد سے ان کے رومانس کے چرچے ہوئے۔ انہی دنوں انھوں نے ہدایت کار جاوید قمر صاحب سے بیاہ رچا لیا۔ رانی کو اچانک کینسر ہو گیا تو ان کے شوہر انھیں بے یار و مددگار چھوڑ کر اڑنچھو ہو گئے۔ بڑی دقتوں سے رانی کا لندن میں علاج شروع ہوا ۔ وہاں ان کی ملاقات کرکٹ کے مشہور کھلاڑی راجہ سرفراز صاحب سے ہوئی ۔ وہ ان کی محبت میں گرفتار ہو گئے اور انھوں نے بڑی توجہ اور دلجمعی سے رانی کی تیمار داری میں اپنی جان لڑا دی۔ راجہ سرفراز رانی کو موت کے منہ سے نکال لانے میں کامیاب ہوئے اور ان سے بیاہ رچا لیا۔ یہ شادی زیادہ عرصہ تک نہیں چل پائی ۔ رانی پھر فلمی دنیا میں لوٹ آئیں۔ کینسر بیماری اور کسمپرسی کی حالت میں رانی بے یار و مددگار کراچی میں دم توڑ گئیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن والوں نے آخری منزل آسان فرمائی ۔ خدائے برتر سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرما کر ان کے درجات بلند کرے۔ رانی اور حسن طارق صاحب کی ایک ہی بیٹی رابعہ ہیں جو فلمی دنیا سے بالکل الگ تھلگ اپنی گھریلو زندگی میں مگن ہیں ۔

شمیم آرا پاکستان کی واحد فلمی اداکارہ تھیں شاید ، کہ جنہوں نے ادب سلیقے اور پر وقار انداز سے ہر فلم کے ہر کردار میں ڈوب کر ایکٹنگ کرنے کو اپنا شعار بنا رکھا تھا۔ انھوں نے مشرقی حسن، متانت، سادگی اور وفا شعاری سے بھرپور بے شمار رولز اس طرح ادا کئے کی ان میں جان ڈال دی ۔ نائلہ، صاعقہ، لاکھوں میں ایک، اک تیرا سہارا، آگ کا دریا ۔ کس کس فلم کا نام گنوائیں۔ انھوں نے کبھی کسی فلم میں نہ تو عریاں لباس پہنا، نہ بیہودہ ڈائیلاگ ادا کئے ۔ عوام میں ان کی ساکھ، بے پناہ عزت اور تقدس ہمیشہ قائم رہا۔۔ ان کے نام سے منسوب ایک بات بے حد مشہور ہوئ تھی کہ انھوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ کشمیر پر پاکستان کا جھنڈا لہرانے والے شخص سے شادی کریں گی۔

فرید احمد صاحب سے ان کی فرضی شادی کا قصہ خوب مشہور ہوا جو غالباً ان کی نانی صاحبہ کا کارنامہ تھا جو بطور باڈی گارڈ ان کی حفاظت کے لئے ان کے ساتھ سائے کی طرح رہتی تھیں۔
ان کے بارے میں شاید یہ بات بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سانولی رنگت کی بنا پر انھیں پہلے گلوکارہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ وہ ملکہ ترنم نور جہاں کی استاد بہن بھی تھیں۔
ان کا تعلق یو پی سے تھا۔ اسی لئے عمر بھر لکھنوا طرز گفت و شنید، بود و باش، نشست برخواست اور وضعداری اپنائے رکھی۔۔۔ اداکارہ رانی کی طرح محترمہ شمیم آرا صاحبہ نے بھی چار عدد شادیاں رچائیں۔
خدا سے دعا ہے کہ وہ محترمہ کو کروٹ کروٹ باغ ارم کے جھونکے عطا فرمائیں۔

وحید مراد صاحب جن کو چاکلیٹی ہیرو کا خطاب عوام کی طرف سے ملا ہوا تها، ہزاروں دلوں کی دهڑکن بن گئے تهے۔ بے شمار نوجوان لڑکوں نے ان جیسا ہیر اسٹائل اور انداز اپنا رکها تها۔ ان کی جوڑی بهی زیبا، رانی، شمیم آرا، دیبا، عالیہ، شبنم اور اس زمانے کی دیگر ممتاز ہیروئینوں کے ساتھ مقبول رہی۔ نجانے کیوں ممتاز نے سب سے پہلے ان کے ساتھ فلموں میں کام کرنے سے انکار کیا، پھر شبنم آسیہ اور دیگر تمام انکار کرنے والی خواتین کی لائین لگ گئ۔ آخری دنوں میں حادثے کی بدولت ان کا چہرہ بهی خراب ہو گیا تها، مگر اس سے قبل ہی فلمی دنیا ان سے بے نیازی اختیار کر چکی تهی۔،وہ کام کی تلاش میں بہت سے دروازوں پر گئے مگر بے حس اور سنگدل فلمی دنیا نے ان کا ساتھ چهوڑ دیا تھا۔ وحید مراد صاحب کی خدا مغفرت فرما کر ان کے درجات بلند کرے۔
خوبصورت پاکستانی فلمی جوڑیوں میں ایک سب سے زیادہ قابل ذکر جوڑی محمد علی صاحب اور زیبا صاحبہ ہی کی تهی جو صبیحہ خانم اور سنتوش صاحب،نیر سلطانہ اور درپن صاحب، حبیب اور نغمہ، بابرہ شریف اور شاہد کی جوڑی کے نمبر بهی کاٹ گئ۔ اگرچہ یہ تمام جوڑیاں بهی بہت پسند کی جاتی رہی ہیں۔

پاکستان میں پہلی انٹرنیشنل مسلم سربراہ کانفرنس لاہور میں ہوئ تو اس وقت لاہور میں کوئی بڑے فائیو سٹار ہوٹل نہیں تهے، لے دے کر اکلوتا انٹر کانٹینیٹل ہوٹل ہی تها، بہت سے وفود اور حکمرانوں کو لاہور کے امیر گهرانوں میں ٹھہرایا گیا، علی زیب کے با ذوقی سے سجائے گهر میں سعودی شاہ فیصل کے وفد کو ٹھہرایا گیا۔
علی زیب کو انڈیا میں بھی بہت پسند کیا جاتا تها بلکہ مشہور انڈین اداکار منوج کمار پاکستان میں ان کے مہمان بنے۔منوج کمار نے انهیں بهارت مدعو کر کے اپنی فلم کلرک میں بڑا رول دینے کی پیشکش کی، فلم بن گئی، ریلیز ہوئی تو پتہ چلا کہ پاکستان کے چوٹی کے اداکار جن کو شہنشاہ جذبات کا خطاب مل چکا ہے، انهیں اور ان کی بیگم کو فلم کی کانٹ چهانٹ کے بعد معمولی رول ہی میں پیش کیا گیا ہے۔ محترمہ زیبا صاحبہ کی پہلی شادی اداکار سدھیر سے ہوئی تھی۔

نیلو جو سرگودها کے گاؤں بهیرہ میں سنتهیا فرننڈیس کے نام سے پیدا ہوئیں۔ ہالی وڈ کی فلم بهوانی جنگشن میں ساقی اور نیلو نے بطور ایکسٹرا کام کیا تها۔ اس وقت ان کی عمر بارہ سال تهی۔ فلم سات لاکھ کے ایک خود پر فلمائے گانے “آئے موسم رنگیلے سہانے ” سے بہت مشہور ہوئیں اور پهر معمولی کرداروں سے سائیڈ ہیروئین اور پهر ترقی کرتے کرتے ہیروئین بن گئیں۔ ایوب خان کے زمانے میں انهیں شہنشاہ ایران کے سامنے رقص کرنے کے لئے گورنر نواب آف کالا باغ ہاؤ س میں بلوایا گیا۔ ان کے انکار پر گورنر امیر محمد خان کے حکم پر انهیں جبراً اٹهوا لیا گیا۔۔۔اس ہزیمت پہ انهوں نے زہر کھا کر مر جانے کی ناکام کوشش کی۔ فلمساز ریاض شاہد کو ان کا یہ اقدام اتنا پسند آیا کہ انهوں نے نیلو کو عزت بخش کر ان سے شادی کر لی۔ حبیب جالب نے اپنی مشہور نظم “رقص زنجیر پہن کر بهی کیا جاتا ہے، اسی واقعے پر لکهی تھی۔

نیلو عیسائی  طبقے سے تعلق رکھتی  تهیں۔ ریاض شاہد نے انهیں مسلمان کر کے عابدہ کا نام دیا۔ شادی کے بعد ریاض شاہد صاحب نے ان کے لئے فلم زرقا بنائی  جسے بے حد مقبولیت حاصل ہوئی ۔ زرقا میں نیلو پر کچھ اذیت ناک مناظر فلم بند کئے گئے، مثلاً  الٹا لٹکا کر پانی میں ڈبونا اور جلتی شمع پر ہاتھ  رکھ دینا۔ اپنی بیٹی زرقا کو بطن میں رکهتے ہوئے نیلو نے یہ تمام مناظر بخوبی فلم بند کروائے۔ حبیب جالب صاحب کی نظم مہدی حسن صاحب کی آواز میں فلم زرقا کا نغمہ بن گئ۔ زرقا کے بعد نیلو نے فلموں کو خیر آباد کہہ دیا اور گھریلو زندگی اختیار کی۔ ریاض شاہد کی وفات پُر آیات کے بعد تین معصوم بچوں کی پرورش کے لئے عابدہ کو دوبارہ نیلو بن کر پیروں میں گھنگھرو باندهنا پڑے۔ فلم “خطرناک” سے ان کی واپسی کا سفر شروع ہوا۔ ان کے چهوٹے بیٹے شان نے فلموں میں بہت ناموری حاصل کی۔ بڑا بیٹا سروش بهی کچھ فلموں میں آیا مگر زیادہ چل نہیں پایا۔

محترم احمد بشیر کی بنائی  فلم نیلا پربت پاکستان کی پہلی آرٹ فلم تهی۔ جس میں محمد علی، طالش، حسنہ، کومل اور پنا نے کام کیا۔ پنا کلاسیکل رقص میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں تھیں۔ بعد میں ان کی شادی سنتوش اور درپن کے بهائی  ہدایت کار سلمان سے ہو گی ئ اور وہ زریں سلمان کہلانے لگیں۔ یہ شادی چل نہیں پائی ۔ سنتوش، درپن اور سلمان کے چھوٹے بھائی  منصور بھی کسی فلم میں ہیرو آئے۔ ان کی نیلی آنکھیں تھیں اور خاصے خوبرو تھے مگر چل نہیں پائے۔

اپنی اچهوتی فلم نیلا پربت میں محترم احمد بشیر صاحب نے ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم کی راگ داری بهی شامل کی۔ فلم کی دلچسب اور مشکل سی کہانی ممتاز مفتی صاحب نے لکهی تهی۔ یہ فلم شاید اپنے وقتوں سے پہلے ہی بن گئی  تهی لہذا اسے دیکهنے اور پسند کرنے والے لوگ کم ملے۔ اگر یہ فلم بهارت میں بنی ہوتی تو مکمل محفوظ کر لی گئی  ہوئی ۔ بدقسمتی سے اس نابغہ روزگار فلم کے بمشکل چند ٹوٹے ہی دستیاب ہیں جو اپنے منہ آپ بولتے ہیں۔ کھنڈر بتا رہے ہیں، عمارت عظیم تهی۔
یو ٹیوب پر دستیاب اس فلم کے ایک گانے میں محمد علی کے ساتھ کومل ہیں۔

طلعت صدیقی ایک دہائی  بعد نمودار ہوئیں۔ صدیقی بہنوں بهانجیوں کی فوج ظفر موج نے شو بز میں تہلکہ مچائے رکها، طلعت صدیقی، ریحانہ صدیقی، نزہت صدیقی۔
ناہید صدیقی جو کہ باکمال رقاصہ اور ضیا محی الدین صاحب کی سابقہ بیگم تهیں، عارفہ صدیقی کس کس کا نام اور گن گنوائیے  ۔

عارفہ صدیقی نے ادھیڑ عمر گلوکار اور موسیقار استاد نذر حسین سے کر کے شو بزنس کو چھوڑ دیا۔ یہ شادی 26 سال تک چلی۔ ان کی وفات پر آیات کے فوراً بعد محترمہ نے خود سے کم عمر ایک غیر معروف گلوکار تعبیر علی سے بیاہ رچا لیا تھا ۔۔

بات سے بات نکلتی چلی گئی ۔ ذکرِ خیر جناب احمد بشیر صاحب کی فلم نیلا پربت کا ہو رہا تھا۔ اس فلم کے ایک گانے پر اس وقت کے مولویوں نے طوفان بدتمیزی سے آسمان سر پر اٹها لیا تها۔ انهیں اس گانے سے سخت فحاشی کی بو آتی تهی۔۔سنسر بورڈ نے بهی اچهی بهلی فلم کو کاٹ پیٹ کر اس کا کباڑہ کر دیا۔ پهر محترم احمد بشیر صاحب کے چند مہربان دوستوں نے اسے مزید چوں چوں کا مربہ بنانے میں کوئی  کسر نہ چهوڑی۔ یوں ایک انٹلکچول کی لکهی اور دوسرے انٹلکچول کی بنائی  شاندار فلم ملیامیٹ کر دی گئی۔ اپنی گراں قدر تصنیف “دل بهٹکے گا” میں محترم احمد بشیر صاحب نے اس فلم کے متعلق مکمل جانکاری نہایت دلچسب پیرائے میں بیان کر دی ہے۔
حضور کس خوبصورت گانے کے بول آپ نے لکھ دئیے۔ دل میں یادوں کے تار چهنا چهن ٹوٹنے بجنے لگے۔۔۔

سنگیتا نے یہ خوبصورت گیت” میں ہوں گناہ میرا گناہگار کون ہے” اپنی فلم “مجهے گلے لگا لو” میں بہت خوبصورت فلمایا تها۔ فلم کی کہانی سنگیتا کی والدہ مہتاب بانو نے لکهی تهی اور اپنی جیون کہانی سے متاثر ہو کر لکهی تهی۔ انهوں نے اپنی بیٹیوں سنگیتا اور کویتا کے ہمراہ اس فلم میں کردار نگاری بهی کی۔ فلم اگرچہ ناکام رہی مگر اسکے گانے کافی مشہور ہوئے تهے۔سنگیتا نے نہایت کم عمری میں اداکار رحمن کی فلم کنگن سے اپنا سفر شروع کیا۔اداکارہ واجبی سی تهیں مگر جب ہدایت کاری شروع کی تو اپنی بنائ فلموں میں اپنی بہن کویتا سے زبردست ایکٹنگ کروائی  اور خود بهی بے انتہا اچها کام کیا۔

سوسائٹی گرل، مٹهی بھر چاول ،یہ امن، نام میرا بدنام ان کی خوبصورت فلمیں ہیں جو ہمیں پسند آئیں ۔ مٹهی بهر چاول کو پاکستانی آرٹ مووی کا درجہ دیا جاتا ہے۔ یہ راجندر سنگھ بیدی کے مشہور ناول “ایک چادر میلی سی” پر مبنی تهی۔ اسی ناول پر سب سے پہلے فلم گیتا بالی نے بنائی  تهی مگر وہ اسے مکمل کرنے سے قبل ہی داغ مفارقت دے گئیں۔ پاکستان کی پہلی آرٹ فلم نیلا پربت تهی جو ناولسٹ و ادیبہ محترمہ نیلم بشیر صاحبہ اور ورسٹائل اداکارہ بشری انصاری کے والد احمد بشیر صاحب نے بنائی  تهی۔ احمد بشیر صاحب صحافت اور ادب میں بهی اپنا جادو جگاتے رہے۔ ان کا ناول “دل بهٹکے گا” پاکستانی ادب میں خاص مقام رکھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مہتاب بانو نے اپنے زمانے میں فلموں میں کام کیا مگر صرف چند چهوٹے موٹے رول کر کے ہی فیڈ آوٹ ہو گیئں تهیں۔ سنگیتا نے عین عروج کے زمانے میں فیملی کی مخالفت کے باوجود پشتو اداکار ہمایوں قریشی سے بیاہ کر لیا تها۔یہ شادی زیادہ عرصہ تک نہ چل سکی۔طلاق کے بعد سنگیتا نے اور بهی زیادہ سنجیدگی سے فلموں کی ہدایات دینی شروع کیں اور بہت سی کامیاب فلمیں بنائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply